Jahannam Ki Air Conditioning Ka Theka (26)
جہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ (26)
اٹھارویں آئینی ترمیم اور اس سے پیشتر ساتویں این ایف سی ایوارڈ کو کوئی چودہ پندرہ برس ہو چکے اور اس کے نتیجے میں بہت سی اچھی چیزیں بھی ہوئیں ہیں۔ مگر آج بھی سب سے اہم اور لاینحل مسئلہ یہی ہے کہ وفاقی طرزِ حکومت میں وفاق کا خرچ کہاں سے پورا ہو۔
2010 سے لے کر آج تک وفاقی قرض اور اس کی سروسنگ جو گراف میں نظر آرہی ہے اس سے یہ بات واضح ہے کہ وسائل کی تقسیم کا موجودہ نظام، وسائل کے حصول کے موجودہ طریقہ کار سے اب زیادہ دیر چلنا ممکن نہیں۔ یہ ضرور ہے کہ زیادہ تر سیاسی جماعتیں اس انتظام کو بدلنے میں دلچسپی نہیں رکھتیں مگر آج کا اکنامک سروے جو تصویر دکھا رہا ہے وہ سمجھدار لوگوں کے لئے خاصی خوفناک ہے۔ آج کے اقتصادی سروے کے باب نمبر 9 میں موجود اس چارٹ کے 2010 سے پہلے اور بعد کے حالات دیکھیں تو صورت احوال کافی واضح ہے۔ 2010 سے پہلے کے بندوبست میں وفاقی حکومت اپنے پیر پر کھڑی تھی اور اس کے بعد قرض خواہوں کی بیساکھیوں پر۔
مری مراد یہ ہے کہ وفاق کو این ایف سی کے ذریعے اس سال ٹیکس اور نان ٹیکس آمدن میں سے جون تک کل 6000 ارب سے 6500 ارب ملنے کی امید ہے اور اکیلے قرض کی سروس کا خرچہ 8000 ارب ہونے کا امکان ہے۔ یعنی پچھلے کئی سال سے وفاقی حکومت کے پاس اتنی رقم بھی نہیں ہوتی کہ وہ سود اور قرض کی ادائیگی کر سکے۔
آئین کے تحت کم از کم ملکی دفاع، قومی شاہراہیں، ریلوے، بجلی، گیس اور پٹرولیم کی ترسیل، درآمد/ برآمد، ٹیکسوں کی وصولی، کرنسی، مالیاتی ادارے، جہاز رانی، ہوا بازی، خلائی پروگرام، نادرا، پاسپورٹ، وفاقی سروسز، عدالتیں، انشورنس، سٹاک ایکسچینج، بین الاقوامی معاہدات، پارلیمنٹ، الیکشن کمیشن، ریگولیٹری اتھارٹیز، مردم شماری، بین الصوبائی کوآرڈینیشن / تجارت اور دوائیوں کا سینڈرڈ/ قیمت وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری ادا کرنے کا خرچ کا تخمینہ جون تک کچھ 7000 ارب روپے ہے۔
اس سارے معاملے سے وہ خرچ نکال بھی دیں جو وفاقی حکومت انکم سپورٹ، صوبائی ترقیاتی پروگراموں میں حصہ داری اور عوامی سہولیات (یوٹیلیٹی سٹور، بجلی گیس کھاد کی سبسڈی، گندم / چینی / کھاد کی درآمد وغیرہ) - جو اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کی ذمہ داری ہیں تو بھی اس خرچ میں کل 1500 ارب کم ہوگا۔
وفاقی ملازمین کی تنخواہ کم کرکے، نوکری سے نکال کر بھی سو ارب اور بچ جائیں گے مگر سوال وہی کہ 15000 ارب کی بجائے 13400 ارب کا خرچ رہ جائے گا اور آمدن 6400 ارب۔ یعنی 7000 ارب کا مزید قرض۔
اور یہ اس سال کا قصہ نہیں پچھلے قریب 14 سال سے ہم اسی قسم کی ناممکن صورتحال میں پھنسے ہیں جس سے قرض کی مقدار اور اس کی ادائیگیاں ہر سال پہلے سے بڑھ جاتی ہیں۔
اب صوبوں کا یہ اعتراض بالکل بجا ہے کہ وفاقی حکومت اپنی آمدن میں اضافہ کرے اور مزید قرضوں سے اجتناب کرے۔ اس دلیل کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ آئین میں 2010 سے یہ لکھ دیا گیا ہے کہ وفاق کے کسی بھی نام سے لگائے اور اکٹھے کئے گئے نئے یا پرانے ٹیکسوں کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت تقسیم کیا جائے گا۔ اس پر مزید یہ کہ کسی بھی مستقبل کے این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ موجودہ شرح سے زیادہ تو کیا جا سکتا ہے مگر کم نہیں۔
آخری این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کو ٹیکسوں کی مجموعی آمدن کا قریب 58% اور وفاق کو 42% حصہ دیا گیا ہے۔ وفاق کے ذمے آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور قبائلی علاقوں کے بھی کچھ خرچ ہیں جس کے بعد وفاق کا حصہ صرف 40% بچتا ہے۔
اب اگر وفاقی حکومت تمام تر غیر ضروری اخراجات سے جان چھڑا بھی لے تو بھی 7000 ارب قرض کی بجائے آمدن سے یہ رقم پورا کرنے کے لئے اس رقم کا ڈھائی گنا یعنی 17500 ارب کے مزید ٹیکس وصول کرنے ہوں گے جس میں سے 7000 ارب وفاق کو ملیں گے اور 10500 ارب مزید صوبوں کو۔
موجودہ 9400 ارب کے ٹیکس پر مزید 17500 ارب کے مزید ٹیکس ایف بی آر کے ٹارگٹ کو 26900 ارب پر لے جائیں گے جو اس معیشت میں ادائیگیوں کی سکت سے قریب ڈھائی گنا زیادہ ہے۔
اتنے ٹیکس اول تو وصول کرنا ہی ناممکن ہیں اور بالفرض کوئی اسے جمع بھی کر لے تو تمام معاشی سرگرمی زراعت اور صنعت سمیٹ ختم ہو جائے گی۔ (ٹیکس خون کے عطیے کی طرح ہوتے ہیں۔ اگر ایک وقت میں خاص مقدار سے زیادہ نکال لئے جائیں تو معاشی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے)۔
سب سوچنے سمجھنے والوں کو اب یہ اندازہ ہو جانا چاہئیے کہ حالات کی سنگینی دن بدن بڑھ رہی ہے اور ہم کبوتر کی طرح شاید آنکھیں بند کرکے یہ سمجھ رہے ہیں کہ کوئی خطرہ نہیں ہے اور سب ٹھیک ہو جائے گا۔
ہمارے ملک کے زعما اور اکابرین کو یہ سوچنا ہے موجودہ بندوبست میں وسائل کے حصول اور تقسیم کا یہ نظام فوری تبدیلیوں کا متقاضی ہے۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ صوبائی حکومتوں کے وسائل اور دائرہ کار میں کمی ملکی مفاد میں نہیں لیکن یہ بھی یاد رہنا چاہئیے کہ ایک با معنی اور معاشی طور پر مستحکم وفاق کے بغیر صوبوں کا اپنا وجود غیر یقینی ہو سکتا ہے۔
ایک viable وفاق کے بغیر ہمارے دفاع اور عدل کے نظام سمیت تقریباََ تمام قومی ادارے خدانخواستہ انحطاط کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس ضمن میں اٹھارویں آئینی ترمیم اور این ایف سی پر معاہدے کو چھیڑے بغیر بھی بہت سے حل تلاش کئے جا سکتے ہیں اور کچھ حل ان ترامیم کی تھوڑی درستگی سے بھی نکل سکتے ہیں۔
ہمسایہ ملک، جرمنی، کینیڈا، آسٹریلیا اور امریکہ میں موجود دنیا کی بڑے بڑے وفاقی نظام ہائے حکومت میں اس کے بے شمار حل ڈھونڈے گئے ہیں جن کو نقل کرکے ہم بھی اپنے مسائل حل کرنے کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر جرمنی میں تمام وفاقی، صوبائی اور مقامی ٹیکس وہاں کے صوبے جمع کرتے ہیں اور بعد میں اس کا 45% صوبوں کو، 45% وفاق کو اور 10 % مقامی حکومتوں کو دے دیا جاتا ہے۔
بھارت میں نہ صرف وفاقی حکومت کا حصہ صوبوں سے زائد ہے بلکہ سیلز ٹیکس جمع کرنے کا نظام بھی integrated VAT of goods and services بن چکا ہے۔ امریکہ میں ان سب سے ہٹ کر ایک یکسر الگ نظام ہے۔
ہمارے ہاں ایک تجربہ یہ بھی ممکن ہے کہ قرض کے پیسوں کی application اگر کسی صوبے تک trace کی جا سکے (آخر یہ 67 کھرب کا قرض اسلام آباد پر تو نہیں لگا) تو صوبوں کی آمدن بڑھا کر ان سے قرض کی ادائیگی میں حصہ ڈلوایا جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ قرض سے آسانی تک وفاق کو کچھ ٹیکسوں پر exclusive حق دے دیا جائے (اس سہولت کے بے جا استعمال کو روکنے کے لئے ایک ٹائم لائن اور قرض ادائیگی کے اہداف بھی مقرر ہو سکتے ہیں)۔
لیکن بہر صورت موجودہ طریقہ کار آنے والے وقت میں بہت زیادہ خرابی کا باعث بن سکتا ہے اور اس وقت کی سب سے اہم ضرورت، تمام صوبوں، وفاق اور معاشی ماہرین کا مل بیٹھ کر اس سب سے بڑے مسئلے پر بات کرنا اور اس کا حل نکالنا ہے۔