Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hamid Ateeq Sarwar
  4. Jahannam Ki Air Conditioning Ka Theka (22)

Jahannam Ki Air Conditioning Ka Theka (22)

جہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ (22)

بہت دنوں سے اس موضوع پر کچھ لکھنے کو دل تھا۔ مگر تامل اس لئے تھا کہ ان واقعات میں کچھ خود ستائی کا پہلو نکل سکتا ہے۔ مگر اس دور میں جب پاکستان میں ہر طرف یہ احساس جڑ پکڑتا جا رہا ہے کہ یہاں کچھ درست ہونا ممکن نہیں وہاں کبھی کبھار یہ بات بھی ہونی چاہئیے کہ بسا اوقات یہی Governance System جس کو ہر کوئی حسب توفیق لتاڑتا رہتا ہے، اپنی کارکردگی سے دنیا بھر کو حیران کر سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میرے کولیگز کے پاس اس سے بہتر کئی اور success stories بھی ہوں گی۔

اپنی ذمہ داریوں کی وجہ سے Covid کی وبا کے تدارک کے انتظامات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ درست ہے کہ ساری دنیا کی طرح ہم سے بھی بہت غلطیاں اور کوتاہیاں ہوئیں۔ جیسا کہ تمام بحرانوں میں ہوتا ہے، کچھ لوگوں نے اس وبا کے کاروبار سے پیسے بھی بنائے۔ مگر ان تمام چیزوں کے باوجود اس بیماری کو پھیلاو سے روکنے، مریضوں کے علاج اور ویکسینیشن میں بہت سے لوگوں نے نہایت اچھی نیت سے کام کیا جس کے نتیجے میں پاکستان میں معاشی گراوٹ، اموات اور misery کی شرح ہمسایہ اور کئی ترقی یافتہ ملکوں سے بہتر رہی۔

اس قدرے کامیاب بندوبست میں یہ بھی یاد رکھیں کہ پاکستان کے مالی حالات ایسے نہیں تھے کینیڈا کی طرح سب کاروبار بند کرکے گھر بیٹھے لوگوں تک پیسے پہنچا سکیں، نہ ہی اسپتالوں اور آکسیجن میں خرچ کرنے کو بہت سارے پیسے تھے اور نہ ہی ویکسین خریدنے کی فوری سکت۔

وبا کی خبر تو فروری 20 ہی میں آچکی تھی مگر اس کی پہلی Wave نے ہمیں اپریل میں Hit کیا۔ ابتدائی کنفیوژن کے بعد اندازہ ہو چکا تھا کہ اس وبا سے نمٹنا کسی اکیلی صوبائی یا وفاقی حکومت کے بس کا نہیں کہ ہر جگہ بے پناہ coordination درکار تھی اور ہماری سیاست آج کل کی طرح کسی صوبے میں کچھ تھی اور کہیں کچھ۔ وفاقی حکومت کاروبار چلتے رہنے کی بات کر رہی تھی تو سندھ لاک ڈاؤن میں جا رہا تھا۔ اور یہ کنفیوژن کچھ ہم سے خاص نہیں تھا کہ امریکا میں بھی یہی کچھ یا شاید اس سے بھی بڑھ کر ہو رہا تھا۔

ایسے میں یہ تو طے تھا کہ ان فیصلوں کے لئے سیاست سے بالا کوئی بندوبست ہونا ہے جو بالآخر NCOC کی شکل میں سامنے آیا۔ کشمیر کے زلزلے سے نبٹنے کے لئے بنائے گئے ادارے ERRA کی بلڈنگ کا انتخاب ہوا اور اس بندوبست میں فوجی، سیاسی اور انتظامی قیادت کو ایک ساتھ بٹھانے کا اہتمام ہوا۔ Coordination کی بنیادی ذمہ داری فوج کی رہی مگر اچھی بات یہ تھی کہ ہر روز فیصلوں میں متعلقہ وفاقی اور صوبائی سیاسی قیادت، افواج سے ایک لیفٹیننٹ جنرل، ایک میجر جنرل اور دیگر افسران، اور متعلقہ وفاقی اور صوبائی انتظامیہ شریک ہوتی۔

اچھی بات تھی کہ فیصلہ سازی کی میز پر کل 10 سے 14 نشستوں کی گنجائش تھی جس میں صرف ایک وفاقی وزیر اور لیفٹیننٹ جنرل میز کی قیادت والی سیٹ پر بیٹھتے۔ دو اور نسبتا" مستقل سیٹوں پر میجر جنرل اور وفاقی وزیر صحت ہوتے (نام اس لئے نہیں لکھ رہا ہوں کہ یہ لوگ covid کے دوران بدلتے بھی رہے)۔ باقی کی 6 سیٹوں پر صرف زیر بحث موضوع سے متعلقہ انتظامی افراد آتے اور فیصلہ ہوتے ہی نکل جاتے۔ ان فیصلوں کی مانیٹرنگ اور اگلے دن رپورٹ کی ذمہ داری کوئی تین بریگیڈیئرز کی تھی جن کے ساتھ اپنا سپورٹ سٹاف بھی تھا۔

ویڈیو کانفرنس میں چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹری اور دوسرے انتظامی افسران کو بھی وقتا" فوقتا" شامل کیا جاتا۔

یہ سب میٹنگز وغیرہ کچھ دن کے 12 بجے تک یا اس سے پہلے ہو چکتیں اور اس کے بعد سب ان فیصلوں پر عملدرآمد میں مشغول ہوجاتے۔ اچھی بات یہ تھی کہ اس طریقہ کار میں میٹنگ میں شمولیت میں انتظامیہ کے سارے ہفتے میں اوسطا" صرف ایک سے دو گھنٹے صرف ہوتے۔ ہر وقت ہر آدمی کو بلا کر نہیں بٹھایا جاتا تھا اور فیصلہ سازی میں چار پانچ لوگوں سے زیادہ لوگوں کو بات کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی (یقین کیجئے کہ ہم نے بڑی سے چھوٹی تمام سرکاری میٹنگز کو بے کار میں بہت طویل ہوتے دیکھا ہے جس میں شریک لوگ بولنا اور فیصلہ خراب کرنا اتنا ضروری سمجھتے ہیں کہ جیسے یہ بحث کئے بغیر ان کی حیثیت کم ہو جائے گی)۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ اس وبا سے نبٹنا ایک قریب قریب جنگی صورتحال تھی جس کی وجہ سے فیصلہ سازی ایک طرح سے آسان بھی تھی۔

اس تمام کوشش میں بیماری کے پھیلاو کے لئے ضروری پابندیوں کو لاگو کرنے میں پولیس اور انتظامیہ نے اپنا کردار ادا کیا۔ سرکاری اسپتالوں کے عملے اور ڈاکٹروں نے جیسے جان پر کھیل کر لوگوں کا علاج کیا اسے شاید ویسے نہیں سراہا گیا جیسے اسے سراہے جانے کا حق تھا۔ کسی بے ترتیبی اور ہنگامے کے بغیر دس سے پندرہ کروڑ لوگوں کی ویکسینیشن اپنی طور کا ایک الگ کارنامہ ہے خاص طور پر ان حالات میں جب پاکستان کو یہ ویکسین بہت دیر سے بہت تھوڑی تھوڑی مقدار میں ملنا شروع ہوئی اور اسے بتدریج سب سے vulnerable لوگوں سے جوان لوگوں تک rationing کی فیز سے گزرنا پڑا۔

لیکن اس منظر نامے کا ایک سب سے کم ذکر کیا جانے والا کام ملک بھر میں liquid oxygen کی فراہمی تھی وہ بھی ایسے حالات میں جب بھارت اور ایران میں آکسیجن کی کمی کی خوفناک خبریں آرہی ہوں۔ اور دنیا بھر میں کسی جگہ بھی نہ آکسیجن دستیاب ہو اور نہ اس کی ترسیل ممکن ہو۔ NCOC کچھ اپریل 2020 سے 2022 تک قائم رہی اور اتفاق سے میری اور میرے اردگرد کے لوگوں کی ذمہ داری اسی آکسیجن کی تھی۔ ہمارے ڈاکٹروں کو شروع کی ناکامیوں اور اموات کے بعد بہت جلد یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ وینٹی لیٹر پر ڈالا گیا مریض شاذ ہی بچتا ہے۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وینٹی لیٹر پر ڈالا گیا مریض مستقل آئی سی یو والی care کا محتاج ہوتا ہے۔ (یادش بخیر۔ میو ہسپتال میں اپنی ہاوس جاب میں کارڈیک سرجری وارڈ میں اپنی ایک ماہ کی attachment میں اوپن ہارٹ سرجری کے فوری بعد کے چوبیس گھنٹے سنبھالنے کی ذمہ داری نبھائی تھی۔ شروع میں ہر آدھ گھنٹہ بعد سوڈیم، پوٹاشیم، بائیکاربونیٹ، کلورائیڈ، آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ لیول کرواتے، ہر گھڑی مانیٹر پر نظر، ہر پندرہ منٹ کے بعد بلڈپریشر۔ اب مشینوں نے حالات تھوڑے آسان کردئیے ہوں گے)۔ سو نہ تو اتنے ڈاکٹر دستیاب تھے اور نہ ہی اکثر کی آئی سی یو ٹریننگ، نتیجتا" وینٹی لیٹر ایسے لگنے لگا جیسے موت کا پروانہ۔

آکسیجن دینا، دوا کے علاوہ، پہلا ری ایکشن تھا۔ اسپتالوں کو اندازہ ہوگیا کہ saturation کم ہونے پر کم از کم 5 لٹر فی منٹ پر آکسیجن دینا پڑتی ہے اور اس میں موجودہ سلنڈر کا بندوبست بہت جلد جواب دے جاتا ہے۔ اسپتالوں میں بڑے ٹینکرز اور پائپ سے لیکویڈ آکسیجن کی ترسیل کا بندوبست تو تھا مگر پورے پاکستان میں کچھ دو تین ہزار بیڈز تک۔ اسپتالوں اور صوبائی حکومتوں نے کھینچ تانچ کے انہیں پہلے 2020 کے آخر تک دوگنا کیا اور مارچ 2021 تک یہ تعداد کوئی 7500 ہو چکی تھی (جو بعد میں دس ہزار تک گئی)۔

یہ بھی ہوا کہ بین الاقوامی ماہرین سے یہ خبر پہنچی کہ وینٹی لیٹر سے زیادہ موثر علاج ہائی فلو آکسیجن ہے جس میں 25 لٹر یا اس سے زیادہ آکسیجن فی منٹ سے covid کے مریض بہتر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

لیکن اب سب سے بڑا سوال تھا کہ اتنی آکسیجن کہاں سے آئے۔ یاد رہے کہ کووڈ سے قبل آکسیجن کے پلانٹ میڈیکل ضروریات کی بجائے صنعتی ضروریات کے لئے لگائے جاتے تھے جس میں لوہا کاٹنے اور پگھلانے کی صنعت، فوڈ پروسیسنگ اور شیشہ سازی کی صنعتیں سرفہرست ہیں۔ میڈیکل آکسیجن کی کھپت ان پلانٹس کی بائی پروڈکٹ سے چل جاتی ہے جب ان ائر سیپاریشن یونٹس میں نائٹروجن کی پروڈکشن مکمل ہونے پر آکسیجن بنانا شروع کر دیا جاتا ہے۔

اس عمل میں پلانٹ کا درست حالت میں ہونا، فیکٹری اور دوسری جگہوں پر مائع آکسیجن کے لئے ہائی پریشر ٹینکس، اور آکسیجن کی ترسیل کے لئے سپیشل ٹینکر اور ٹرالر درکار تھے۔

اتفاق سے اپریل 2020 میں کہیں ایف بی آر میں تھا۔ سو ہیلتھ اور انڈسٹری سے مل کر حکومت کی منظوری اور اتفاق سے میرے دستخطوں سے سلنڈر، ٹینکر، آکسیجن پلانٹ، وینٹی لیٹر، حفاظتی لباس، این 95ماسک اور دیگر ادویات وغیرہ (کل ملا کر 65 اشیا) کی ٹیکس فری درآمد کی اجازت دے دی گئی۔

جولائی 2020 میں، مجھے وفاقی محکمہ صنعت میں ذمہ داریاں سنبھالنے کا موقع ملا۔ covid کے دو سالوں میں چار سیکرٹری بدلے مگر میرے ساتھ جائینٹ سیکرٹری ندیم احسن، ڈپٹی سیکرٹری عبدالصمد اور ایک ذیلی ادارے ای ڈی بی کے ایک انجینئر مستقل رہے۔ گویا ہم چار مستقل لوگ تھے اور ایک ہمارے وفاقی سیکرٹری۔ اس سے مراد وفاقی سیکرٹری کی اہمیت کو کم کرنا نہیں ہے کہ بالآخر تمام فیصلوں پر رہنمائی، initiative، دستخط اور منظوری انہی کو دینا ہوتی ہے۔ لیکن ہم چار لوگوں نے اس معاملے کو کچھ الگ طریقے سے نمٹنے کا سوچا۔

یہ اتفاق کی بات تھی ہم چاروں ہی کو اپنی اپنی جگہ صنعتی شعبے کو بہت سالوں سے خاصے قریب سے دیکھنے کا موقع مل چکا تھا۔ ہم نے اندازہ لگایا کہ پرائیویٹ سیکٹر جو پہلے ہی آکسیجن کی ضروریات پورا کرتا چلا آیا ہے اسی کو facilitate کرکے مسئلے کا ایسا حل نکالا جا سکتا ہے جس میں حکومتی وسائل کم سے کم استعمال ہوں۔

کووڈ کی پہلی peak یعنی 18 جون 2020 کو یہ طبقہ پہلے ہی اپنی پیداوار کو 350 ٹن روزانہ سے 469 ٹن پر لا چکا تھا جس میں ہمارے ٹیکس کی چھوٹ کے ایس آر او نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ مائع آکسیجن کی حد تک ہماری توجہ کا محور صرف چار کمپنیاں اور ان کے آٹھ پلانٹ تھے۔ ان میں سے تین لاہور، دو کراچی اور ایک ایک ملتان، فیصل آباد اور ہتار میں تھے۔ کراچی میں دو مزید اور حیدر آباد کا ایک کارخانہ زیادہ تر سلنڈر کی گیس بناتے جو چھوٹے اور دور دراز کے اسپتالوں اور گھروں کے کام آتی مگر یہ آکسیجن ہائی فلو علاج کے لئے کارآمد نہیں تھی۔ مائع آکسیجن والوں کے پاس کل 125 کرائیوجینک ٹینک تھے جو اسٹوریج اور ترسیل دونوں کے لئے استعمال ہوتے تھے۔ ایک وقت میں کل 84 ٹینک حرکت میں ہوا کرتے تھے۔

ہماری پہلی کوشش تو ان چار کمپنیوں سے بات چیت کرکے ان کے مسائل حل کرنے کی تھی۔ ہمیں اندازہ تھا کہ حب الوطنی اجاگر کرنے سے بڑھ کر یہاں ان کمپنیوں کی لاگت کی recovery کو یقینی بنانا اور نقصان سے بچانا ضروری تھا۔ ہم نے ان میں سے ہر ایک کے ساتھ بیٹھ کر ان کے مسائل کو سنا اور کووڈ کی ڈیمانڈ کی مدت میں ان کی انویسٹمنٹ کی واپسی کے لئے سپلائی اور قیمت کا اندازہ لگایا۔ ان کے حکومتی اداروں کے بقایا جات کی ادائیگی کے لئے صوبائی حکومتوں کو خود جاکر اور NCOC میں بیٹھ کر بات کی اور اس کے نتیجے میں کووڈ کی دوسری لہر کی peak جو 19 دسمبر 2020 کو آئی، ہماری آکسیجن پیداوار 610 ٹن روزانہ تک پہنچ گئی تھی جو ہماری اس وقت کی ضرورت کے لئے اتنا کافی تھی کہ ہم مصری شاہ، گڈانی اور دوسری صنعتیں بند کئے بغیر بھی یہ وقت گزار گئے۔

کووڈ کی تیسری wave کی peak چھوٹی عید کے اردگرد مئی 2021 میں متوقع تھی اور NCOC اور WHO کے حساب سے اسے سب سے زیادہ خطرناک سمجھا جارہا تھا۔ ہمارے لئے یہ بھی مصیبت تھی اس وقت تک کووڈ کے علاج میں ہائی فلو آکسیجن کی افادیت مسلم ہوچکی تھی اور لوگوں کو بھی یہ علم ہو چکا تھا کہ بیماری کی صورت میں کون سے اسپتالوں میں جانا ہے۔

اس دوران ہمارے علم میں تھا کہ لاہور میں 100 ٹن کی پیداوار کی ایک مشین 4 میگاواٹ لوڈ اور 500 میٹر تار نہ ہونے کی وجہ سے استعمال میں نہیں آسکتی (جس کے پیسے جمع کروائے جا چکے تھے)۔ یہی حال ملتان اور فیصل آباد میں بھی تھا۔ مزید یہ بھی اندازہ ہوا کہ بجلی کے ایک جھٹکے سے دو دن کی پیداوار رک جاتی ہے۔ سیکرٹری پاور کے ساتھ بیٹھ کر ان معاملات کا تدارک کیا اور ہم چار میں سے ایک دو کو خود جاکر dedicated grid اور بقایا کاموں کی نگرانی کرنا پڑی۔

جون 2021 میں ان کمپنیوں کے اسپتالوں سے معاہدے ختم ہو رہے تھے اور کمپنیوں کی بیلنس شیٹ اس بات کی متقاضی تھی کہ اس بار قیمت کو کچھ بڑھانا پڑے گا۔ صوبوں کے صحت کے محکمے تو ایک یا دو ہوتے ہیں مگر بڑے اسپتال بہت سارے۔ لاہور کراچی گھوم کر صنعت کاروں، صوبائی حکومتوں اور اسپتالوں سے دن رات کی negotiations کی سہولت کاری بھی کرنا پڑی۔

اس ساری محنت کا نتیجہ یہ ہوا کہ تیسری wave کی 2 مئی 2021 کی peak پر ہماری آکسیجن بنانے کی کیپیسٹی 801 ٹن روزانہ تھی جو نہ صرف اس دن کی 650 ٹن کی ڈیمانڈ سے زائد تھی بلکہ 18 ستمبر 2021 کی 4th wave peak کی 700 ٹن ڈیمانڈ کو بھی جھیل گئی۔ مجھے یاد ہے کہ مئی 2021 میں میں نے NCOC میں کہا تھا کہ ہمارے پاس 15000 بیڈز کی آکسیجن ہے اور آپ کے زیادہ سے زیادہ oxygenated beds دس ہزار ہو سکتے ہیں۔ جب بھی کچھ شارٹ ہوا تو خدانخواستہ بیڈ پہلے ختم ہوں گے اور آکسیجن بعد میں۔

اس سب میں اللہ کی مدد بھی شامل حال رہی اور پرائیویٹ سیکٹر اور اسپتالوں نے ہی اصل کام کیا مگر ہم چار پانچ لوگوں کی کم ترسی کوشش بھی اس میں شامل تھی۔ یہاں تک کہ ایک وقت میں ہماری حکومت نے بھارت کو بھی 40 ٹن روزانہ دینے کی آفر بھی کی۔

ہماری خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ ہمارے شمال اور جنوب میں کووڈ کی ویو ایک وقت میں hit نہیں کر رہی تھی۔ سو 800 ٹن کی Capacity یوں بھی استعمال ہوئی کہ ہم پانچ کے قریب ٹینکر (100 ٹن) لاہور اور کراچی کے درمیان روزانہ چلاتے رہے اور نارتھ - ساوتھ shortage کنٹرول میں رہی۔ مائیکرو مینجمنٹ کرتے ایسا بھی ہوا کہ گوجرانوالہ کے DHQ کو دن میں دو دفعہ سپلائی گئی اور ہمارے ٹریفک والے اسے شہر سے باہر روک کر بیٹھ گئے کے شہر میں رات دس بجے سے پہلے داخلہ نہیں ہو سکتا۔ یوں بھی ہوا کہ کسی نے اخبار میں لکھ دیا کہ پاکستان سٹیل مل کا 160 ٹن روزانہ کا آکسیجن پلانٹ بند پڑا ہے اور حکومت اسے نہیں چلا رہی۔ ان دنوں میرے پاس سٹیل مل کے ڈائریکٹر کی ذمہ داری بھی تھی اور اس پلانٹ کے مسائل سے واقف تھے پھر بھی پبلک پریشر دور کرنے کے لئے این ای ڈی، NUST اور پاکستان آکسیجن والوں کے انجینئر بھجوائے

جنہوں نے تحقیق کرکے بتایا اس کو چلانے کے لئے 2015 سے بند سٹیل مل چلانی پڑے گی، جس پر تیس ارب کی لاگت آئے گی اور چونکہ آکسیجن پلانٹ فرانس کا ہے سو انجینئر اور پارٹس فرانس سے آئیں گے جو کووڈ میں ممکن نہیں۔ آکسیجن پہلے ہی پوری تھی اور تیس ارب میں تو 800 ٹن کی اور مشین لگانی بھی ممکن تھی۔ اس رپورٹ کے بعد یہ بلا بھی ٹلی۔ آکسیجن بنانے والے بہت اچھے تھے اور نیک لوگ تھے مگر اس کاروبار میں charity کے لئے نہیں آئے تھے۔ پرائیویٹ ہسپتال زیادہ پیسے دیتے تو سرکاری سپلائی میں کمی کا اندیشہ (30 روپے بمقابلہ 600 روپے) سو کچھ مہینے ان فیکٹریوں کی نگرانی پر بندے بھی بٹھانا پڑے۔ سپلائی کرنے والوں کی آپس کی مارکیٹ الجھنوں کو بھی سلجھانے کی کوشش کی۔ جب NCOC اپریل 2022 میں بند کیا گیا تو ہماری capacity ہزار ٹن روزانہ کو چھو رہی تھی۔ سارے ملک میں پشاور میں ایک اسپتال میں کچھ مسئلہ ضرور ہوا مگر اس کی وجہ آکسیجن کی سپلائی میں کمی نہ تھی۔ ہم نے 2021 میں ڈپٹی سیکرٹری عبدالصمد کا نام قومی ایوارڈز کے لئے بھی بھیجا مگر وہ اس کے بغیر بھی خوش رہا کہ کچھ کام تو کیا۔

اس ساری خود ستائی سے بھری کہانی سنانے کا مقصد ہے کہ سب دوسرے محکموں کے ساتھ مل کر ہم نے بھی اپنے حصے کا کام کیا کہ سرکار اس کام کی تنخواہ دیتی ہے۔ محکمہ صحت کے بھی چار، پانچ ہی لوگ نمایاں تھے۔ یہی حال ویکسینیشن کے اصل کنٹرول کا تھا۔ یہ ضرور تھا کہ اس مصیبت کے وقت یہ چار، پانچ لوگ ہر شعبے سے خاص اس مسئلے کے لئے کافی بہتر ثابت ہوئے (یہ ضروری نہیں کہ covid میں اچھا کام کرنے والے لوگ کسی اور مسئلے کے حل کے لئے بھی مناسب ہوں) کہ نہ اس میں کوئی عہدہ تھا نہ بے وجہ کارکردگی دکھانے کا شوق۔ NCOC کو اٹھارہ گریڈ کا افسر بھی کام کرکے دے دیتا تو جنرل صاحب یا وزیر صاحب یہ نہیں پوچھتے تھے کہ آپ کا سیکرٹری کہاں ہے؟

اس وبا میں یوں بھی تھا کہ ایسی مصیبت ساری دنیا پہلی دفعہ ایک ساتھ دیکھ رہی تھی اور امریکہ وغیرہ کو پیسے اور ویکسین کے علاوہ کوئی اور advantage نہیں تھا۔ ایسے میں پاکستان اور دوسرے بہت سے ترقی پذیر اور معاشی طور پر کمزور ملکوں نے بہت سے امیر ملکوں سے بہتر کارکردگی دکھا کر Modern Governance کی myth میں بھی دراڑ ڈال دی۔ اس قصے سے یہ بھی خیال آتا ہے کہ پاکستان کے معاملات میں بہتری لانے کے لیے بیس سے چالیس اداروں میں کل سو دو سو مناسب لوگوں سے زیادہ کی ضرورت نہیں۔ یہ سو دو سو لوگ کیسے آئیں گے اور کیونکر Deliver کر سکیں گے؟ یہ بہرحال ایک معمہ ہے۔

Check Also

Aik Sach

By Kashaf Mughal