Hamare Yousufi
ہمارے یوسفی
کچھ ایک دو روز پہلے فیس بک پر ایک مضمون دیکھنے کو ملا جس میں مشتاق یوسفی صاحب کی تحریر میں عورت کی باڈی شیمنگ اور اس کو objectify کرنے پر ایک طرح سے قومی مجرم گردانا گیا ہے۔ یہ ساری بات 2022 کی پندرہویں اردو عالمی کانفرنس سے شروع ہوتی ہے جہاں 91 سالہ ضیا محی الدین یوسفی کی " شام شعر یاراں" نامی کتاب سے اقتباس سناتے ہیں اور سامعین ان فقروں میں موجود قدرے graphic innuendos پر ہنستے ہیں۔ اس تقریب کو لے کر مشتاق یوسفی صاحب کی gender objectification کے وہ لتے لئے گئے ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ اس قوم کی اخلاقیات کا معیار خراب کرنے کے واحد ذمہ دار ہمارے یوسفی صاحب ہیں۔
قطع نظر اس بات کے کہ ایسا کرنا درست ہے یا قابلِ تعزیر، یہ جان لینا ضروری ہے کہ "شام شعرِ یاراں" نامی کتاب کو ہم جیسے بہت سے مشتاق یوسفی صاحب کی تحریر نہیں مانتے۔ آبِگم میں یوسفی اپنے طرزِ تحریر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انہیں مشاہدے یا خیال آوری پر نوٹس لینے کی عادت ہے۔ تحریر کو دس بار لکھ کر آموں کی طرح پکنے کے لئے، ان کے بقول، پال میں ڈال دیتے اور عرصہ بعد نکال کر دیکھتے کہ مضامین چھپنے کے قابل ہیں یا نرے سوختنی۔ چھپنے کے قابل سمجھتے تو پھر دوبارہ لکھ کر ثقہ اہل زبان سے اس پر نظر ثانی اور نظرثالث کرواتے اور پھر کہیں چھاپنے پر راضی ہوتے۔ سیلف سنسر شپ میں ان کے امام نابوکوف تھے جو ان کے بقول پنسل کی بجائے ربر سے لکھتے تھے۔
آب گم کے دیباچے میں دس مضامین کا ذکر ہے جو ان کے دوستوں مسرت علی صدیقی اور فضل حسین کی یادداشتوں سے ماخوذ ہیں۔ ان میں سے پانچ آب گم جیسی شاہکار کتاب بنے اور بقیہ پانچ کا ہم ایسے نذر مندان 28 سال انتظار کرتے رہے۔ آب گم 1990 میں چھپی اور یوسفی صاحب ہم سے 2018 میں بچھڑے، مگر سیلف سینسر شپ کی نذر یہ کتاب نہیں آنی تھی سو نہ آئی۔ جب شام شعر یاراں 2015 میں شائع ہوئی تو یوسفی کے ہر آزمودہ قاری کو خبر تھی کہ 92 سالہ یوسفی صاحب کے بچوں اور چند اور لالچی لوگوں نے ان کے نوٹس اور تقاریر چھاپ دی ہیں اور ان تحریروں کا یوسفی کی چار کتابوں سے کوئی علاقہ نہیں (بالکل ایسے ہی جیسے بعد از وفات شکیب جلالی کی بیاض چھاپ دی گئی تھی) بڑے ادیب چھاپنے سے پہلے بہت کتر بیونت کرتے ہیں۔ غالب کے دیوان میں ان کا اردو میں کہا ہر شعر نہیں۔
ایلیٹ کی wasteland میں سے Ezra Pound نے چھپنے سے پہلے نظر ثانی میں کوئی 70 لائینیں کاٹ دی تھیں اور ایلیٹ کے ماتھے پر شکن بھی نہ آئی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ یوسفی صاحب کی اس کتاب کے چھپنے، اس کے ٹائیٹل (شام شعر یاراں فیض کی کتاب شام شہر یاراں کے عنوان کی ایک لایعنی تحریف ہے جو زرگزشت اور آب گم جیسے اچھوتے عنوانات کے سامنے child"splay ہے) اور مضامین کو اپنے نام سے چھپوانے سے کچھ علاقہ نہیں تھا۔ ان کی کوئی ایسی نیت ہوتی تو قریب 2010 تک جب وہ بہت active تھے (عمر 87 سال) تو پانچویں کتاب کا فیصلہ کر لیتے، جس کا ارادہ وہ نوے کی دہائی میں اپنی محفلوں میں اکثر ظاہر کیا کرتے تھے۔ سو اس کتاب میں موجود تحاریر پر یوسفی صاحب کو مورد الزام ٹھہرانا بر خود غلط ہے۔
اب آئیے اس متنازعہ تحریر کی طرف جو ضیاء محی الدین نے 2022 میں پڑھی۔ جن اصحاب نے یہ اصل تحریر دیکھی ہے انہیں اندازہ ہے کہ ضیا صاحب نے اس محفل میں شام شعر یاراں کی تحریر میں بھی وہ selection کی کہ یوسفی صاحب کے نوٹس کے مطالب ہی بدل گئے۔ واضح رہے کہ ضیا صاحب خود اس روز 91 برس کے تھے اور عین ممکن ہے کہ کسی کور ذوق منتظم نے یہ تحریر ایسے ہی تدوین شدہ دی ہو۔
اس تحریر کا سب سے مبتذل جملہ ضیاء صاحب یوں ادا کرتے ہیں کی "نظیر اکبر آبادی نے کیا خوب کہا ہے۔
آگا بھی کھل رہا ہے، پیچھا بھی کھل رہا ہے
یاں یوں بھی واہ واہ ہے، اور ووں بھی واہ واہ ہے۔
واہ واہ تو ہم ووں ووں کے استعمال پہ کریں گے "
اب یوسفی صاحب کے کتاب کے نام پر چھپے نوٹس دیکھیں۔
"نظیر اکبر آبادی نے کیا خوب تصویر کھینچی ہے۔
آگا بھی کھل رہا ہے، پیچھا بھی کھل رہا ہے
یاں یوں بھی واہ واہ ہے، اور ووں بھی واہ واہ ہے
" کھل رہا ہے" کی بجائے "جل رہا ہے " پڑھا جائے تو اس شعلہ بدنی پر لفظ بہ لفظ اور نظر بہ نظر صادق آئے گا! لیکن ہم اس پر واہ واہ نہیں کریں گے۔ واہ واہ تو ہم "ووں" کے استعمال پر کریں گے جس کو ظالموں نے متروک تو قرار دے دیا، لیکن لاکھ سر ماریں اس کا متبادل نہ لا سکیں گے۔ ہم تو ابھی "تئیں" اور "تس پر" ہی کے ماتم سے فارغ نہیں ہوئے! ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا، کہیں جسے۔
مرزا نے ہمیں" عزادارِ archaic اور، " سجادہ نشین درگاہِ متقدمین و محافظ و متولی متروکات" کے ناقابل رشک لقب سے، یونہی تو نہیں سرفراز فرمایا۔ "
اب دونوں بیانات کو دیکھیں، ایک میں ووں بہت ہی گرے ہوئے انداز میں کھلتے ہوئے پیچھے کی طرف گھٹیا اشارہ ہے اور تحریر میں یوسفی ووں، تئیں اور تس سے جڑی ادبی اور تہذیبی روایت کا مرثیہ پڑھ رہے ہیں۔
اس کے بعد ان اعتراضات پر بھی بات ہو سکتی ہے کہ ادب عالیہ معاشرے کی جو تصویر کشی کرتا ہے کیا اسے gender اور tradition کے نام پر سنسر کرنا ضروری ہے۔ قدیم عربی ادب سے لے کر قبانی تک، ڈی ایچ لارنس، فرائیڈ، عصمت چغتائی، منٹو اور جدید سائنس نے جو لکھا کیا وہ سب کچھ ہماری فکرکے ارتقا کو آگے لے کر گیا یا ہمارے جستجو کی تشنگی کے لئے زہرِقاتل ثابت ہوا۔ فرائیڈ کے قول کہ مرد کے اعصاب پر عورت سوار ہے پر منٹو نے گرہ لگائی تھی کہ مرد کے اعصاب پر عورت سوار نہیں ہوگی تو کیا ہاتھی گھوڑے سوار ہوں گے؟
قدرت نے انسان اور تمام جانداروں میں جنسی کشش کے ذریعے سے اس کائنات کے نظام کی بنا ڈالی ہے۔ ذرا ایسی دنیا کا تصور کریں جہاں تمام انسان تمام وقت اپک unisex روپے میں رہیں اور جس میں صنف کی ادا اور جاذبیت صرف منکوحہ زوجین پر مناسب وقت پر عیاں ہوں۔ ظاہر ہے کہ ہمارے تمام تر puritan ارادوں کے باوجود کائنات کا نظم، اصناف میں باہمی رغبت کا شاخسانہ ہے جس کی ابتدائی صورت دیکھنے اور سننے سے متعلق ہے۔ یہی رویہ پھول کی رنگت میں نہاں ہے جس کے باعث تتلیاں، پرندے، بھنورے اور شہد کی مکھیاں ان پودوں کی Cross pollination کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ مور اور birds of paradise کا مادہ کو رجھانے کا رقص اور اہتمام انہیں یوسفی نے تو نہیں بتایا۔
یہ درست ہے کہ ہمارا مذہب اور اخلاقیات ہمارے اس جذبے کو discipline کرنے کا راستہ بتاتے ہیں۔ چیخوف بھی اپنے بھائی کے نام خط میں اسے اپنے sexual instinct کو ennoble کرنے کا کہتا ہے مگر حسن اور جمالیات کے تصورات کو صنفی کشمکش کے لینز سے مکمل طور پر عاری کرنا کم از کم ہمیں تو سمجھ نہیں آتا کہ اس کے بغیر تو چنگیزی بھی باقی نہیں بچتی۔ اتنا ضرور ہے کہ ادب اور تہذیب ملحوظ خاطر رہے مگر اس بات پر بحث ممکن ہے کہ فزیالوجی کی کتابوں میں لکھے سائینسی اسرار اور ایک متجسس ذہن کے مشاہدات اور تجزیہ ایک ادبی تحریر میں کس طور سے بیان ہو سکتے ہیں اور کہاں اس پر قدغن لگا دینا چاہئیے۔
باقی رہے یوسفی تو ان کے ادبی قد کو کم کرنا آسان نہیں۔ میری نظر میں اردو ادب میں ان سے زیادہ گہری اور اچھی نثر کسی نے نہیں لکھی۔ ہم ایسے بہت سوں ان کی چاروں کتابوں کے بیشتر حصے ازبر ہیں اور ان میں بہت سی خواتین بھی شامل ہیں۔ ہماری نسل کے علم، بات کو دیکھنے کے زاویوں اور جبر کے زمانوں میں زندہ رہنے میں یوسفی کی wit، جملے کی بنت، مطالعے کی وسعت، صحبت کی بوقلمونی، خیال کی ندرت اور مشاہدے کی طاقت نے جو کردار کیا ہے وہ یوسفی کا اردو زبان اور ہماری تہذیب پر احسان عظیم ہے۔ باقی یوسفی بھی ہماری طرح کے انسان تھے اور ان سے بھی لغزش اور خطا ممکن ہے مگر یاد رہے کہ مشتاق یوسفی کا اردو لکھنا اس زبان کی بڑی خوش قسمتی ہے۔ خدارا! جن لوگوں نے انہیں نہیں پڑھا انہیں یوسفی سے متنفر نہ کیجئے۔ انہیں غیر متعلق اقتباسات کی بجائے کتاب پڑھ کر خود فیصلہ کرنے دیجئے۔