Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Tama Ka Ghaat

Tama Ka Ghaat

طمع کا گھاٹ

قلم مزدوری ہی روٹی روزی کا ذریعہ ہے، لگ بھگ نصف صدی سے، چند برس زائد ہی ہیں لیکن نصف صدی ہی سمجھ لیجئے۔ نصف صدی کے اس سفر میں بہت کچھ دیکھا سنا، مسافر آنکھیں کھلی نہ رکھے تو ٹھوکر لگنے کا اندیشہ رہتا ہے۔

ویسے ٹھوکریں لگیں بھی۔ کبھی خود سے سنبھلے کبھی دوست دست گیری کو آئے۔ وقت گزرگیا، یہ جو لمحہ موجود ہے اگلی ساعت کے ساتھ گزرے وقت میں شمار ہوگا۔

دوستیاں ہیں، کچھ دشمنیاں بھی، اختلاف رائے ہوتا ہے، کچھ لوگ ہمیں اور کچھ کو یقیناً ہم بھی پسند نہیں۔ زندگی اسی کا نام ہے۔

کبھی آراء کا اختلاف حُسنِ زندگی قرار دیا جاتا تھا، آج کل منہ بھر کے گالی دینا "زندگی" ہے۔ یہ گالم گلوچ کا چلن عدم برداشت کی کوکھ سے پیدا ہوا۔ عدم برداشت کو کس نے ہوا دی؟

اس سوال کے جواب میں ہر شخص کی اپنی رائے ہے۔ مجھ طالب علم کی رائے یہ ہے کہ اس کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو روز اول سے خود کو اس ملک کا "اصل" مالک اور "نجات دہندہ" سمجھتے ہیں۔ لازم نہیں کہ آپ مجھ سے اتفاق کریں۔ یہ میری رائے ہے تجربات و مشاہدات سے بنی رائے۔

قلم مزدوری کی اس نصف صدی میں درجنوں بار زبردستی کے مالکان، نجات دہندہ و مسیحائوں سے ملاقاتیں رہیں ان کی باتیں توجہ سے سنیں اور اپنی بات بھی جی جان سے کہی۔

سادھو سنت یا پارسا ہرگز نہیں مگر ہمیشہ سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کا یہ ارشاد پیش نظر رہا "سچ وہی ہے جو وقت پر بولا جائے"۔

گزرے ماہ و سال کے دوران ایک سے زائد بار ایسا ہوا کہ دوستوں یا اہل دانش کی مجلس میں "سچ کیا ہے" پر مکالمہ ہوا۔ ہمارے بہت سارے دوستوں اور اہل دانش کی رائے یہ رہی کہ ہر آدمی کا اپنا سچ ہوتاہے۔ ہم نے ہمیشہ اس رائے سے ادب کے ساتھ اختلاف کیا۔

وجہ یہی ہے کہ سچ اپنے عصر کا ہوتا ہے ذات کا نہیں۔ سچ اگر فرد یعنی ہر شخص کا اپنا ہو تو پھر عصری شعور ایک ایسا پھانسی گھاٹ ہوگا جہاں ہر شخص دوسرے کے سچ کے ساتھ اسے بھی پھانسی چڑھانے میں لمحہ بھر کی تاخیر نہیں کرے گا۔

ہمارے عصر کا سچ کیا ہے، یہی انسان افضل ہے۔ علم لازوال ہے۔ حقیقت جانیئے پوچھئے تو یہ ہر دور کے سچ ہیں۔ انسان ہی افضل ہے اور علم لازوال۔

آپ تاریخ کے اوراق الٹیں یا چار اور نگاہ دوڑائیں، سب سے زیادہ مشکل میں انسان ہے اور سب سے زیادہ ملاوٹ علم میں ہوئی۔ انسان کی مشکل یہ ہے کہ وہ ذات پات، نسل، رنگ اور علاقے کی تقسیم کے تعصبات میں گندھ گیا۔ اپنے ہونے کا "تعصب" بری بات نہیں، بری بات یہ ہے کہ دوسرے کے وجود اور شناخت سے انکار کردیا جائے۔

علم میں ملاوٹ یہ ہے کہ مروجہ نصابی تعلیم کو علم سمجھ لیا جائے یہ ایسے ہی ہے جیسے درس نظامی پڑھے شخص کو عالم مان لیا جائے۔ نصابی تعلیم (جدید و قدیم) دونوں دروازۂ علم کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ورنہ ایک سے کلرک بنالیجئے اور دوسرے سے مسیتڑ مولوی۔ دونوں کی اپنی اپنی جگہ ض، رورت تو ہے مگر محدود۔

ان کے کرداروں میں وسعت نہیں ہے۔ وسعت ہو بھی کیسے سکتی ہے۔ علم آگاہی ہے روزگار نہیں "ورنہ تلوار جلاد کی بجائے سرمد کے ہاتھ میں ہوتی"۔

بس یہی فرق ہے علم میں اور روزگار میں۔ گردن مارنا جلاد کا روزگار تھا، گردن کٹوانے کی منزل تک پہنچاسرمد سارے بھید جانتا تھا۔

معاف کیجئے کچھ بوجھل باتیں نہیں ہوگئیں بالائی سطور میں۔ سیاست ہائے عصر پر روز لکھنا مشکل بالکل نہیں۔ بس آج جی آمادہ نہیں ہوا۔ کبھی کبھی دل کی بات بھی ماننی چاہیے۔

اس دل کی جس میں "یار" رہتا ہے۔ آپ اپنے دل میں کس یار کا قیام پسند کرتے ہیں یہ آپ پر منحصر ہے۔ ہاں یار ہر دل میں ہوتا ہے کچھ لوگ طمع کے گھاٹ پر اترنے کی خواہش کو یار کی طرح دل میں بسالیتے ہیں۔

کچھ کے لئے تلسی داس کی یہ بات کافی ہوتی ہے "مورکھ ایک چوتھائی روٹی سے جیا جاسکتا ہے تو پوری پیٹ کے دوزخ میں کیوں ٹھونستا ہے"۔

سامت سے تلسی داس تک اور حسین بن منصور حلاج سے سیدی بلھے شاہ تک کے صاحبان کمال و علم مجھے ہمیشہ اچھے لگے۔ آج بھی وقت اور سفر کا وسیلہ میسر ہو تو میں سیدی بلھے شاہؒ کی خانقاہ تک پہنچوں، دیوار سے ٹیک لگاکر بیٹھوں اور ان سے جی بھر کے باتیں کروں۔

میں جب کبھی اپنی امڑی کے شہر ملتان جاتاہوں تو امڑی کی تربت کے علاوہ سیدی شاہ شمسؒ کی خانقاہ پر بھی حاضری دینے کو ترجیح دیتا ہوں۔ یہ دونوں مقامات ایسے ہیں جہاں بلاخوف میں وہ سب عرض کرسکتا ہوں کہ اگر وہی چار اور کے لوگوں کے درمیان عرض کردوں تو انجام پتہ نہیں کیا ہو۔

کچھ دوست اکثر سوال کرتے ہیں تمہیں شاہ حسین، بلھے شاہ، رحمن بابا، سچل اور شاہ لطیف، خواجہ غلام فرید و شاہ شمسؒ سے اتنی الفت کیوں ہے؟

ان کے سوال پر کبھی حیران نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک خانقاہوں پر پھول چڑھانااور فاتحہ پڑھنا کافی ہے یوں کہہ لیجئے ثواب ہے۔

میرے نزدیک صاحبِ خانقاہ سے دل کی باتیں کرنا مقصد حاضری ہے۔ جب بھی وقت ملے اور جتنی مسافت طے ہوسکے اس خانقاہ تک جاتا ضرور ہوں۔

باتیں کرنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے۔ سیدی بلھے شاہؒ کے حضور حاضری کے لئے اگر روزانہ کی بنیاد پر سہولت میسر ہو تو میں ہر شام انہیں گزرے دن کی ساری باتیں سنائوں۔

کچھ حالات ہیں کچھ علالت اس لئے اب سال بھر ہونے کو ہے اپنی لائبریری تک محدود ہوکر رہ گیا ہوں۔

یہیں (لائبریری میں) بیٹھ کر قلم مزدوری کرتاہوں۔ اخبارات، کتب اور جرائد پڑھنے کے ساتھ سوشل میڈیا پر دوستوں سے ہلکی پھلکی نوک جھونک ہوجاتی ہے۔ کبھی کبھی دوست ملنے چلے آتے ہیں تو رونق لگ جاتی ہے۔

دنیا جہان کے موضوعات پر ان سے باتیں کرلیتا ہوں۔ دوستوں کے معاملے میں ہمیشہ خوش قسمت رہا۔ دوستوں کو ہمیشہ سندھی شاعر سامی کی طرح سندھوندی کے ٹھنڈے اور میٹھے پانی کی طرح سمجھا۔

بار دیگر معذرت کہ آج کے کالم میں چٹ پٹی چٹخارے دار سیاسی باتیں، قصے اور کہانیاں نہیں ہیں۔ یہ ایک بور کالم ہے ہوسکتا ہے اکثر پڑھنے والے ابتدائی چند سطور کے بعد اخبار کو تپائی پر رکھتے ہوئے منہ ہی منہ میں بڑبڑابھی دیں یہ شاہ نے آج کیا لکھ دیا ہے۔

کوئی بات نہیں روزانہ آپ کے لئے لکھتا ہوں ایک کالم اپنے لئے بھی سہی۔ اتنا تو میرا مجھ پر حق بنتا ہے۔

ان سموں مجھے حسین بن منصور حلاجؒ یاد آرہے ہیں۔ اپنے عصر کےاس صادق انسان نے کیا خوب کہا تھا "یہ جو آج سب وقت اور حاکم کی خوشنودی کے لئے مجھے مارنے پر تلے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں پیش پیش ہیں کل یہ میرے ہونے کا اقرار کریں گے"۔

سچ یہی ہے منصور کو پھانسی گھاٹ پر ہر سزا کا سزا وار سمجھنے والوں کو کون جانتا ہے۔ طالبان علم حسین بن منصور حلاج کو ضرور جانتے ہیں۔

ہمارے ایک استاد گرامی سیدی عالی رضوی مرحوم و مغفور کہا کرتے تھے "کچھ بھی ہو شب و روز کے معاملات سے وقت نکال کر مطالعہ ضرور کیا کرو اور مکالمے کے لئے بھی وقت ضرور ہونا چاہیے"۔

کوشش تو کرتا رہتا ہوں دونوں کام ہوتے رہیں آدمی صرف کوشش ہی کرسکتا ہے۔ ہمارے چار اور جو حالات ہیں اور جس طرح کا عہد نفساں ہم پر مسلط ہے یہ بھی کسی امتحان سے کم نہیں۔ مسائل کا سورج ہمہ وقت سوا نیزے پر رہتا ہے۔

پھر بھی شکر گزاری میں عافیت ہے۔ سیدی بلھے شاہؒ فرماتے ہیں "جو ہے اس پر اترانا اور جو نہ ہو اس کے لئے خواہش پالنا دونوں دیمک کی طرح آدمی کو چاٹ جاتے ہیں"۔

یہی کڑوا سچ ہے۔ لکھت یہاں تک پہنچی تھی کہ فقیر راحموں نے کاندھا ہلاتے ہوئے کہا "شاہ، ہونے پر اترانے والوں کے ظرف کا پیمانہ چھلک جاتا ہے اور خواہشیں پالنے و الے منہ کے بل گرتے ہیں "

بات تو درست ہے۔ سانسوں کی سواری طمع کے گھاٹ پر نہ لیجا پھینکے باقی سب خیر ہے۔

Check Also

Akbar The Great Mogul

By Rauf Klasra