Swat, Mastung Aur Saraiki Waseb
سوات، مستونگ اور سرائیکی وسیب
خیبر پختونخوا کے علاقے سوات میں اس وقت بہت نازک صورتحال ہے۔ اس پر اور سیلاب سے متاثرہ دوسرے علاقوں کے مسائل پر بات کرتے ہیں۔ پہلے مستونگ کی خبر لیجئے۔
سی ٹی ڈی نے گزشتہ روز مستونگ میں گورنمنٹ ڈگری کالج مستونگ کے سابق پرنپسل پروفیسر صالح محمد شاد کے گھر چھاپہ مارا اس دوران ہونے والی فائرنگ سے (سی ٹی ڈی کے مطابق) پروفیسر شاد کے دو بھائی جاں بحق ہوگئے۔
پروفیسر شاد اور ان کے ایک زخمی بھائی کو ٹراما سنٹر منتقل کردیا گیا ہے۔ سی ٹی ڈی نے صالح محمد ایڈووکیٹ، عطاء اللہ بلوچ ایڈووکیٹ اور نجیب اللہ سمیت خاندان کے 6افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔
چھاپے ہلاکتوں اور گرفتاریوں کے خلاف پروفیسر شاد کے خاندان کی خواتین اور اہل علاقہ نے کوئٹہ کراچی شاہراہ کو "جنگل کراس" کے مقام پر آٹھ گھنٹے تک بند رکھا۔ سی ٹی ڈی کے مطابق چھاپہ کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں اس کے 11 اہلکار بھی زخمی ہوئے۔
دوسری طرف پروفیسر صالح محمد دلشاد کے خاندان کا موقف ہے کہ وردیوں کے بغیر اہلکاروں کے مارے گئے چھاپے کی وجہ یہ سمجھا گیا کہ ڈاکو آگئے ہیں۔
پروفیسر شاد کوئی سڑک چھاپ آدمی نہیں صاحب علم و کمال اور ڈگری کالج کے سابق پرنسپل تھے ان کے دو بھائی ہائیکورٹ کے وکیل ہیں۔ علاقے کی اس معزز فیملی سے اگر سی ٹی ڈی یا کسی اور محکمے کو کسی بھی حوالے سے جواب طلبی کی خواہش تھی تو ان سے بات کی جاسکتی تھی جو طریقہ اپنایا گیا وہ درست نہیں ہے۔
پروفیسر صاحب کے اہل خانہ کے الزامات اور موقف کو یکسر رد نہیں کیا جاسکتا۔ بہت مناسب ہوگا کہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ اس سارے معاملے کی انکوائری کے لئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا اعلان کریں یا پھر بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ازخود نوٹس لیں کیونکہ معاملہ بہت گھمبیر اور افسوسناک ہی نہیں بلکہ اس کے منفی اثرات مرتب ہونے کا خطرہ بھی موجود ہے۔
ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں سوات میں دریا کے طوفانی اور بلند سطح کے سیلابی پانی کی وجہ سے صورتحال ہر گزرنے والے دن کے ساتھ خراب تر ہوتی جارہی ہے۔
دریائی پانی کی گزرگاہ کا وہ حصہ سیلاب کے دنوں کے علاوہ میدانی صورت میں خالی رہتا ہے اس پر بلندوبالا قیمتی عمارتیں، مساجد اور گھر تعبیر کرنے والے بھی اتنے ہی مجرم ہیں جتنا جرم ان سرکاری اہلکاروں کا ہے جنہوں نے خیبر پختونخوا ہائیکورٹ کے حکم کے باوجود دریا کے پاٹ کے خشک حصے میں عمارتوں کی تعمیر رکوانے اور پہلے سے موجود عمارتوں کو گرانے کا کام سیاسی دبائو پر مکمل نہیں کیا تھا۔
اصولی طور پر ان تعمیرات کے مالکان اور فرائض سے غفلت برتنے والے اہلکاروں کے خلاف قوانین کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ پانی کی قدرتی گزرگاہوں پر عمارتوں کی تعمیر یا سڑکوں کی تعمیر کے وقت نکاسی آب کی ضرورت ہر دو کو نظرانداز کرنا سنگین جرم ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہم عام شہری ہوں یا سرکاری اہلکاران دونوں ایک دوسرے کی "ضرورت" پوری کرکے آفت کو دعوت دیتے ہیں۔ سوات کے علاقے میں دریا کے خشک پاٹ میں تعمیر کی گئی ایک مسجد گزشتہ روز سیلابی پانی کی زد میں آکر منہدم ہوگئی۔ کیا علاقے کے اکابرین و عمائدین نے گزشتہ دوبار مسجد کے منہدم ہونے سے سبق نہیں سیکھا تھا؟ مسجد کی تعمیر کے لئے ایمانی جذبہ کے ساتھ تعاون کرنے والوں نے کیوں نہ دریا سے باہر زمین خرید کر ثواب دارین کے حصول پر غور کیا؟
فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ سوات اور وہ ملحقہ علاقے جہاں سے دریا گزرتا ہے آفت کی زد میں ہیں۔ درجنوں عمارتیں نجی و کاروباری جو دریا کے خشک پاٹ پر قبضہ کرکے بنائی گئی تھیں، طوفانی پانی کے سیلابی ریلے کے سامنے چند لمحے بھی نہ ٹھہر سکیں۔ اس صورتحال پر حکومت کو دوش دیا جائے گا۔ یقیناً حکومت کی کوتاہی ہے اور کوتاہی یہ کہ اس نے ہائیکورٹ کے اس حکم پر عملدرآمد نہیں ہونے دیا تھا جو ناجائز تجاوزات کے خاتمے کے لئے تھا۔
ڈیرہ اسماعیل خان سے روجھان تک انڈس ہائی وے کی ابتدائی تعمیر کے برسوں (1970ء کی دہائی) میں نکاسی آب کا خیال رکھا گیا تھا بعد کے عشروں میں اس سڑک کی تعمیرومرمت کے دوران "بچت پروگرام" یا "جیب گرم" کرنے کے شوق میں ماضی کے ان درجنوں راستوں کو بند کردیا گیا جہاں سے بارشوں اور سیلاب کا پانی نکل سکتا تھا۔
2010ء کے بدترین سیلاب کے دوران ہوئی تباہی کے بعد حکمت عملی کے ذریعے نہ صرف انڈس ہائی وے کو محفوظ بنانے کی ضرورت تھی بلکہ اس امر کی بھی کہ ڈی آئی خان سے روجھان تک انڈس ہائی وے کے اطراف کی بستیوں اور قصبوں و شہروں میں نکاسی آب کی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر تعمیرات کی منظوری دی جاتی۔
ایک عام شخص کو بھی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ طوفانی بارشوں سے جنم لینے والے سیلابی ریلے اگر صدیوں کی گزرگاہوں سے نہیں گزرپائیں گے تو نتیجہ کیا نکلے گا۔
امید تو نہیں کہ حالات بہتر ہونے کے بعد حکومت اور متعلقہ محکمے اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دیں گے۔ کیوں نہیں دیں گے یہ جاننے کے لئے بدھ اور جمعرات کو ڈیرہ غازی خان میں سرکاری امداد کے ٹینٹوں، تمبوئوں اور راشن کی پسندیدہ گودوں، سرداروں اور دوسرے با اثر لوگوں کے "کامداروں" میں تقسیم کی شکایات و شواہد کا جائزہ لے لیجئے۔ پھریہ بات سمجھ میں آجائے گی۔
تیسری بات یہ ہے کہ ابھی بدترین سیلابی صورتحال ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے اضلاع میں ہزاروں خاندان بے یارومددگار پڑے ہوئے ہیں۔ کچھ سیاسی رہنمائوں کی گاڑیوں کی دوڑ بھاگ سے لوگوں کی آنکھیں"تازہ" ہورہی ہیں۔
متاثرین تک تھوڑی بہت جو مدد پہنچ رہی ہے وہ رضاکارانہ طور پر کام کرنے والے نوجوانوں کے گروپوں کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ حکومت کی آس پر رہتے تو اب تک ایک ایسا انسانی المیہ جنم لے چکا ہوتا جس کی لیپاپوتی بھی نہ ہوپاتی۔ ادھر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بتایا ہے کہ سندھ میں 25لاکھ گھر سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔
اِدھر سرائیکی وسیب میں ٹانک سے روجھان تک خدمت خلق میں مصروف رضاکار نوجوانوں اور کچھ تنظیموں کی جمع کردہ معلومات کے مطابق وسیب کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اڑھائی سے تین لاکھ گھر ملبے کا ڈھیر بنے جبکہ پچاس ہزار گھروں کو نقصان پہنچا ہے ان پچاس میں سے تیس ہزار گھروں کو ازسرنو تعمیر کرنا پڑے گا۔
سیلاب اترنے کے بعد یقیناً حکومت نقصانات کا سروے کروائے گی (کروائے گی بھی یا ستو پی کر سوتی رہے گی جیسے اب سورہی ہے) دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومت (پنجاب کی) کرتی کیا ہے۔ اس وقت بظاہر پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویزالٰہی ہیں مگر حقیقت میں وزارت اعلیٰ ان کے صاحبزادے مونس الٰہی چلارہے ہیں اور اس کا سارا زور مخالفین کو "دھر رگڑا" دینے پر ہے۔
چلیں اس موضوع پر الگ سے بات کرلیں گے۔ فی الوقت یہ ہے کہ ملک بھر کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مسائل گھمبیر تر ہوتے جارہے ہیں۔ پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں نے سیلاب متاثرین کو اللہ اور سیلاب کے سپرد کردیا ہے۔
سندھ کی حکومت ہاتھ پائوں تو مارتی دیکھائی دے رہی ہے لیکن سوال اس سے بھی پوچھے جانے چاہئیں معصوم فرشتے یہ بھی نہیں ہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ سرائیکی وسیب کے سیلاب زدہ علاقوں کو سیاسی جماعتوں نے جس طرح نظرانداز کیا اس کا بدلہ چکانے کے لئے وسیب زادوں کو متحد ہونا چاہیے۔
اداروں سے کیا شکوہ کریں وہ سرائیکیوں کا "آخری مورچہ" قرار پانے والی پیپلزپارٹی اور اس کی وسیبی قیادت ہی دستیاب نہیں۔ چند ورکرز انفرادی طور پر سرگرم عمل ہیں باقی کی پارٹی لگتا ہے دوسری جماعتوں (ن) لیگ، پی ٹی آئی کے ساتھ سیلاب میں بہہ گئی ہے۔