Siasat Ka Lucky Irani Circus
سیاست کا لکی ایرانی سرکس
امریکی غلامی سے ملک کو آزاد کروانے کی تحریک کے قائد عمران خان کے آئیڈیل فیلڈ مارشل ایوب خان ہی رہے۔ وہی ایوب خان جنہوں نے سوویت یونین کی جاسوسی کے لئے باضابطہ طور پر امریکیوں کو اڈے فراہم کرکے غلامی کا طوق اس ملک کے گلے میں ڈالا خود ساسہاسال حق خدمت وصول کرکے شکر گزاروں میں شامل رہے۔
خان صاحب کے مشیروں میں کتنے غیرملکی شہری تھے؟ اس پر بحث اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ اسد عمر نے پارٹی کے سیکرٹری جنرل کے طور پر جن صاحب کو پارٹی کا چیئرمین کا چیف آف سٹاف مقرر کیا ہے وہ امریکی گرین کارڈ ہولڈر ہے۔
قومی سلامتی کا مشیر معید یوسف کون تھا، ان سطور میں ہفتہ بھر قبل تفصیل سے عرض کرچکا۔ امریکہ دشمنی کا منجن فروخت کرنے کی وجہ عارف نقوی اہراج گروپ والے کے معاملات میں ساجھے داری ہے۔
زیادہ بہتر یہ ہوتا کہ وہ عوام سے اپنے خطابات میں انہیں بتاتے کہ ان کی حکومت نے تین سال، سات ماہ بائیس دن اور آٹھ گھنٹے کے دوران عوام اور ملک کے لئے کیا کیا۔ اعدادوشمار کے گورکھ دھندے، چرب زبانی، الزام تراشی، اوئے توئے کے علاوہ۔
آخری سانس تک عمران خان کے ساتھ کھڑا رہنے کے دعویدار مشیر احتساب مرزا شہزاد اکبر اندھیری رات کے آخری حصے میں جہاز پر سوار ہوئے اور ملک چھوڑ گئے۔ عمار مسعود، مخدوم خسرو بختیار کے بھی براستہ پشاور نکل لینے کی خبر دے رہے ہیں۔ لال حویلی والا عمرے پر روانہ ہوگیا ہے۔
چلیں ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔ ساعت بھر کے لئے رکئے۔ گزشتہ روز خان صاحب کے دیوانوں نے اسلام آباد میں دو تین صحافیوں کے گھروں کے باہر مظاہرے کئے۔ یہ مناسب طرز عمل نہیں اگر جوابی طور پر اُس لشکر کے گھروں پر مظاہرے شروع ہوئے جو ان کے دور میں بھاری بھرکم معاوضوں پر "تبدیلی کے کچے راگ" الاپتا رہا تو کیا ہوگا؟
سیاست کو سیاست رہنے دیا جائے تو اچھا ہے۔ مصطفی ٹاور یا دوسرے مقامات لوگوں کے دیکھے بھالے ہیں۔ ویسے لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کے پاکستانی رشتہ دار اینکر پر وہ اپنے دور اقتدار میں مہربان کیوں رہے اور اب بھی ہیں؟
خیر سے اب انہوں نے کراچی میں فرمادیا ہے کہ میں اینٹی انڈیا، اینٹی یورپ اور اینٹی امریکہ بالکل نہیں ہوں۔ یہ بھی کہہ چکے کہ جتنا پروٹوکول مجھے امریکہ میں ملا وہ پہلے کسی وزیراعظم کو نہیں ملا۔
ایک سوال انہوں نے پوچھا وہ یہ کہ وزیراعظم میں تھا یہ امریکی کس کو کہہ رہے تھے کہ "اسے نکال دو"؟ پتہ نہیں امریکی کس سے کہہ رہے تھے خان صاحب کو پتہ ہے تو ضرور عوام کو اس کا نام بتادیں اور ساتھ ہی اگر وہ ہمت کر کے 2019ء میں دورہ امریکہ کے دوران مقبوضہ کشمیر والے معاملے میں کیا طے پایا تھا یہ بھی بتادیں تو "سب کی خیر سب کا بھلا"۔
ان کے محبین کو یقیناً یہ بات ناگوار گزرے گی مگر عرض کرنا ضروری ہے کہ جس تقسیم کو وہ تیزی سے بڑھارہے ہیں اس کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے۔ نفرت کی سیاست نے اس ملک کو کچھ دیا تو وہ چار فوجی حکومتیں ہیں۔ ان میں سے دو فوجی حکومتیں، ایک ان کا آئیڈیل ہے اور دوسری (پرویز مشرف والی) کے وہ کئی برس تک پرجوش حامی رہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ صرف انہوں نے ڈرون حملوں کے احتجاج کیا۔ یہ دعویٰ درست نہیں، وہ ڈرون حملوں کے خلاف این جی اوز سپانسرڈ مہم کا حصہ بنے اور اس کا حق خدمت لیا۔ اصل بات جو انہیں عوام کو بتانی چاہیے وہ یہ کہ انہوں نے پونے چار سال بطور وزیراعظم عوام اور ملک کے لئے کیا کیا؟
غربت کتنی کم ہوئی، مہنگائی کتنی، سرکاری اور نجی شعبہ میں روزگار کے کتنے مواقع پیدا کئے گئے۔ یہ بھی ضرور بتائیں کہ ڈاکٹر عشرت حسین والی کمیٹی کی سفارش پر وفاقی محکموں اور اداروں کی 71ہزار کے قریب ملازمتیں ختم کیوں کی گئیں۔ گریڈ ایک سے سولہ تک کی یہ ملازمتیں 2021ء میں ختم کی گئی تھیں۔
چینی، گندم، ادویات، سیمنٹ، راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈلز کا کیا ہوا۔ اپنے ہم خیال معاشی ماہرین کے مشورے کے برعکس مصر میں آئی ایم ایف کے کنٹری چیف رضا باقر کو بلواکر اسٹیٹ بینک کا سربراہ کیوں لگایا۔ اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کیوں ضروری تھی؟
وہ اینٹی امریکہ نہیں ہیں تو عوام میں امریکہ مخالف جذبات کو بھڑکا کیوں رہے ہیں۔ یہاں یہ عرض کردوں غدار غدار کے شوروغل نے پچھتر برسوں میں اس ملک کوکچھ نہیں دیا سیاسی فضا ضرور متاثر ہوئی اس طرح کے الزامات سے۔
وہ اقتدار سے محرومی کو امریکی سازش قرار دے رہے ہیں۔ کبھی ان پر بھی الزام تھا کہ وہ امریکی آشیرباد اور اعانت سے ڈی چوک پر ہنگامہ اٹھائے ہوئے ہیں تاکہ سی پیک منصوبہ کو سبوتاژ کیا جاسکے۔
آج اگر ان کا الزام درست ہے تو ماضی میں ان پر جو الزام تھااسے درست کیوں نہ مان لیا جائے؟
انہیں اعتراف کرنا چاہئے کہ انہوں نے اقتدار میں آنے سے قبل جو خواب دیکھائے تھے یا سینکڑوں ماہرین کی موجودگی کا دعویٰ کیا تھا وہ زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ غلطیاں انسان ہی کرتے ہیں، بڑا انسان وہ ہوتا ہے جو غلطیوں کا اعتراف کرکے اصلاح احوال کا وعدہ کرے۔
انہیں اپنے قول و فعل میں موجود تضادات کے خاتمے پر توجہ دینی چاہیے اسی میں ان کی بھلائی ہے۔
اب چند باتیں پنجاب کےسیاسی و آئینی بحران اور وفاقی حکومت کے حوالے سے۔ حمزہ شہباز شریف پنجاب اسمبلی میں جس طرح وزیراعلیٰ منتخب ہوئے وہ پوشیدہ راز نہیں۔ پی ٹی آئی کے منحرفین پر ان کی وزارت اعلیٰ کھڑی ہے کیا 26منحرف ارکان کی حمایت سے حاصل کی گئی وزارت اعلیٰ کی کوئی جمہوری اخلاقی اور سیاسی ساکھ ہے؟
صرف عمران خان کی مخالفت میں آہو نی آہو کا گیت الاپتے رہنا کسی کے لئے بھی آسان نہیں ہوگا سچ بہر طور کڑوا ہے۔ حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ کے لئے ووٹ دینے والے پی ٹی آئی کے 26 ارکان فلور کراسنگ کے مرتکب ہوئے ہیں اسی طرح (ن) لیگ کے 6ارکان سابق حکمران اتحاد کا ساتھ دے کر فلور کراسنگ کے مرتکب ہوئے۔
اصولی طور پر اب یہ 34ارکان 26پی ٹی آئی کے اور 6(ن) لیگ کے فلور کراسنگ کے قانون کی زد میں ہیں اور ان کے مستقبل کا فیصلہ الیکشن کمیشن کو کرنا ہے۔ فلور کراسنگ کے قانون پر عمل ہوا تو حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ کی قانونی حیثیت کیا ہوگی؟ یہ نہ سمجھ میں آنے والی بات ہرگز نہیں۔
پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے انتخاب والے دن جو کچھ ہوا وہ لائیو دیکھا کروڑوں افراد نے۔ چودھری پرویزالٰہی کی اداکاری بھی غضب کی تھی انہیں تو آسکر ایوارڈ ملنا چاہیے اس پر۔
ان کی جانب سے اسمبلی کے ایوان میں اپنے ذاتی ملازمین بھجوانے کی ویڈیو بطور شہادت موجود ہے۔ چودھری صاحب اس ویڈیو گواہی سے انکار نہیں کرسکتے کیونکہ لابی میں کھڑے جس طرح وہ اپنے "بندوں " کی رہنمائی کررہے ہیں وہ حقیقت ہے۔
خیر اب تازہ صورتحال یہ ہے کہ گورنر پنجاب سرفراز چیمہ نومنتخب وزیراعلیٰ سے حلف لینے کو تیار نہیں۔ وزیراعظم نے گورنر کو ہٹانے کااعلان کیا بعدازاں سمری صدر کو بھجوائی گئی۔ صدر اور گورنر پنجاب دونوں تحریک انصاف کے پرجوش رہنما ہیں۔
پنجاب میں دو ہفتوں سے حکومت نام کی کوئی چیز نہیں۔ امور حکومت جوں کے توں ہیں۔ اس بحران کا سنجیدگی سے حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ تماشا بنا ہوا ہے۔ اور سیاست کے ساتھ ساتھ پنجاب اسمبلی لکی ایران سرکس، وفاق میں ان سطور کے لکھے جانے تک کابینہ تشکیل نہیں پاسکی۔ اس حوالے سے جتنے منہ اتنی باتیں ہیں۔
سول سپر میسی کے حامی سابق افغان مجاہد و جماعتی اور حاضر صحافی دور کی کوڑیاں لارہے ہیں۔ ان ساری باتوں کے بیچوں بیچ کہا جارہاہے کہ رانا ثناء اللہ کو وزیر داخلہ بنایا جارہا ہے۔
(ن)لیگ کو فیصلہ کرنے کا حق ہے لیکن یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ عالمی شہرت یافتہ ماہر امراض چشم ڈاکٹر علی حیدر بخاری کے قاتل کو محفوظ طور پر لاہور سے باہر بھجوانے کے الزام کے ساتھ ان پر چند دیگر سنگین الزامات بھی ہیں۔
(ن) لیگ یہ ضرور مدنظر رکھے کہ اگر رانا ثناء اللہ وزیر داخلہ بنائے جاتے ہیں تو اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ سانحہ ماڈل ٹائون کا تذکرہ دانستہ نہیں کیا کیونکہ پونے چار سال مدعیان لمبی تان کر سوتے رہے۔ ہم "سُتے پیاں دا منہ کیوں چُمیں"؟