Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Multan Aur Multanio Ki Kuch Aur Yadein

Multan Aur Multanio Ki Kuch Aur Yadein

ملتان اور ملتانیوں کی کچھ اور یادیں

ملتانی ملتان سے رخصت ہوا لیکن ملتان سے نہیں۔ دل و دماغ اور آنکھوں میں ہمہ وقت ملتان ہی بستا ہے۔ ملتانی مٹی سے اٹھے کسی شخص سے کہیں مل لیجئے، پہلا سوال یہی ہوگا، ملتان کیسا ہے، تم کب آئے۔

مجھے ملتان یاد آئے تو یہی سوال خود سے پوچھتا ہوں۔ یادیں تازہ کرنے امڑی کے شہر اور دوستوں کے ساتھ شہر کے گلی کوچوں سے جڑی پرانی یادوں کو تازہ کرنے کا اس سے اچھا طریقہ اور کیا ہوسکتا ہے۔

اس بار کی ملتان یاترا میں کبیروالہ، خانیوال اور عبدالحکیم جانے کی آرزو تھی، بدقسمتی سمجھ لیجئے نہیں جاسکا۔ بدقسمتی کی تفصیل صرف فقیر راحموں ہی پوچھ سمجھ سکتا ہے۔ خیر زندگی رہی تو ملتانی پھر ملتان آئے گا۔ یہ شہر ہے ہی ایسا، ہزار حوالے اور ضرورتیں ہیں شہر میں واپسی کے لئے۔ سب سے بڑا حوالہ یہ شہر خود ہے۔

برادر عزیز سید انجم رضا ترمذی نے یاد دلایا آپ نے نواں شہر سے چند قدم آگے پائلٹ سیکنڈری سکول کی سمت بابا آئس کریم کا ذکر نہیں کیا۔ یقیناً غلطی ہوئی، جان بوجھ کر بالکل نہیں۔ بابا ہوٹل یا بابا آئس کریم، انجم رضا نے کیا یاد دلادیا۔ انہوں نے جس بلند آہنگ شاعر سید حیدر گردیزی مرحوم کا ذکر کیا ان کی قدم بوسی کی سعادت ہمیں بھی نصیب ہوئی تھی ایک سے زائد بار اسی بابا ہوٹل میں۔

یہ مقام عشروں تک ملتان کے شعراء، ادیبوں اور اہل دانش کا ٹھکانہ تھا۔ گاہے کچھ سیاسی کارکن بھی ڈیرہ ڈال لیتے تھے۔ سوکھے سیاسی کارکنوں کی شام کی محفلیں ہوٹل شبروز میں جمتی تھیں۔ ڈیرہ اڈا چوک سے حسن پروانہ روڈ پر واقع ہوٹل شبروز ملتان کے سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کا ٹھکانہ یا یوں کہہ لیجئے محفل آرائیوں کا مقام تھا۔

اس سے چند قدم آگے اپنے عہد کے ترقی پسند اخبار روزنامہ "امروز" کا دفتر تھا۔ امروز سے منسلک صحافی یہاں بیٹھتے تھے پھر سیاسی کارکن بھی بیٹھنے لگے۔ 1970ء کی دہائی میں ہم بھی ملتان میں موجودگی کے باعث یہاں منعقدہ نشستوں میں شرکت کرچکے کیا شاندار ماہ و سال تھے۔

ان گزرے ماہ و سال کی اصل خوبی یہ تھی کہ ایک ہی مقام پر ترقی پسندوں اور قدامت پرستوں کی محفلیں منعقد ہوتیں ایک دوسرے پر ہلکے پھلکے جملے بھی اچھالے جاتے مگر کیا مجال کبھی بات توتکار تک پہنچی ہو یا گریبانوں تک۔

بھلا وقت تھا سماجی جڑت کا شعور دوچند تھا۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ان ماہ و سال میں کراچی کے مختلف مقامات سے ملتان، حیدر آباد، سکھر، لاہور وغیرہ کے جن مقامات پر مختلف الخیال سیاسی کارکن، ادیب و شاعر، دانشور جمع ہوکر رونقیں لگاتے تھے اور دنیا جہاں کی باتیں آزادانہ طور پر کرتے تھے ویسا اب کیوں نہیں ہوتا؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اب سماجی جڑت کا شعور انتہا پسندی کا رزق ہوا۔ اُن دنوں سر تن سے جدا، کے نعرے نہیں ہوا کرتے تھے۔

تب آپ ترقی پسند دانشور سید سبط حسن کی غالب لائبریری والی مجلس میں قدامت پسندی میں ڈوبے ہوئے غازی انعام نبی پردیسی کو بھی دیکھ سکتے تھے۔ ایک دوسرے کی محفلوں میں شرکت اور مکالمے سے نکاح فسخ نہیں ہوتے تھے تب۔

ہم ملتان واپس چلتے ہیں ابھی بہت سارا ذکر رہتا ہے بہت سارا کیا سچ کہوں میرے اندر آباد ملتان کو جتنا میں نے دیکھا اس پر فخر کیا فقط اسی پر حرف جوڑے جائیں تو کئی دفتر لکھے جاسکتے ہیں۔

کینٹ میں واقع بالی کے چائے والے ہوٹل کو یاد کیجئے ہر شام جہاں مسجد کے پہلو سے تاحد نظر کرسیاں بچھ جاتی ہیں کہیں نوجوانوں کا گروپ دن بھر کے قصوں سے قہقہے اچھالتا ہوگا کہیں ہماری عمر سے کچھ آگے بزرگ بیتے دنوں کی یادوں کو تازہ کرتے دیکھائی دیں گے۔

ایک وقت تھا جب ملتان کے ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر 2پر بھی محنت کش سیاسی کارکنوں اور ریلوے مزدور یونینوں والے انقلاب کے انتظار میں بزم آرائی کرتے تھے۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب شہر کے سفید پوش خاندانوں کے نوجوانوں کے چند گروپ کچہری روڈ پر واقع فاران ہوٹل کے لان میں محفلیں سجاتے اور پرعزم جدوجہد سے الگ نہ ہونے کی ایک دوسرے کو یقین دہانیاں کراتے تھے۔

فاران ہوٹل والی جگہ پر اب موبائل مارکیٹ ہے۔ ایک سے زائد دلچسپ کہانیاں اس ہوٹل کے حوالے سے تاریخ کا حصہ ہیں۔ سعد خاکوانی، سید علی بخاری، سید ناصر عباس گردیزی مرحوم، فیاض خاکوانی اور بہت سارے دوست فاران ہوٹل کے لان میں برپا ہونے والی شام کی محفلوں کے مستقل رکن تھے۔

کبھی کبھار عزیز نیازی ایڈووکیٹ اور سید حسن رضا بخاری (رضو شاہ) بھی آن موجود ہوتے ان دونوں دوستوں کی آمد ان دنوں زیادہ ہوتی جن دنوں میں یہ تحریر نویس ملتان میں ہوتا۔ تب مرحوم لالہ عمر علی خان بلوچ کے ماہنامہ "سرائیکی ادب" کے دفتر اور بالائی کمرہ پر ہمارا قبضہ رہتا یہی قیام ملتان کا مستقل ٹھکانہ تھا۔

امڑی کے حضور دوپہر کے کھانے پر حاضری ہوتی تھی۔ کسی دن نہ جاتا اور کوئی پوچھتا آج جاوید نہیں آیا دوپہر کے کھانے پر تو میری امڑی مسکراتے ہوئے کہتیں "آج اس کے کسی دوست کے گھر آلو گوشت پکا ہوگا"۔

ویسے یہ غلط بھی نہیں۔ آلو گوشت، زردہ، ہاتھ سے بنی ملتانی سویاں اور ایک آدھ دوسرے سالن کی دعوت پر اب بھی لاٹھی ٹیک کر ایک دو کلومیٹر کا سفر طے کیا جاسکتا ہے۔

ملتان میں اگر ملتانی ڈولی روٹی اور دال مونگ کے ناشتے کی دعوت ہو پھر پوری شب اس ناشتے کے انتظار میں جاگ کر گزاری جاسکتی ہے، چوک خونی برج سے ٹی بی ہسپتال روڈ کی طرف چاچا یارو کی فالودے کی دکان، صبح کے وقت میں دودھ دہی اور دوپہر سے شام تک فالودہ خوروں کا ہجوم رہتا تھا۔

سردیوں میں سوہن حلوہ بھی ہوتا۔ چوک میں چاچے باری حلوائی کی دکان تھی۔ حاجی یارو کی دکان سے کچھ آگے جگ ماما، مامے مودی کے دال مونگ، صبح صبح ملتانیوں کی لائن لگی ہوتی۔ ماما مودی فٹ پاتھ پر اپنا دال مونگ کا چھابہ لے کر بیٹھتے تھے نماز فجر کے فوراً بعد اور لگ بھگ ساڑھے سات آٹھ بجے تک دکان بند سردیوں میں ماما مودی توے پر بنی مچھلی بھی فروخت کرتے تھے۔

فٹ پاتھ پر ہی کھجور کے پتوں کی بنی دو تین چٹائیاں کچھ لکڑی کی چھوٹی چھوٹی چوکیاں رکھی ہوتیں جہاں وہ گاہک بیٹھتے تھے جنہوں نے ناشتہ کرنے کے بعد کام پر روانہ ہونا ہوتا تھا۔

ناشتہ پاک دروازے کا بھی مشہور تھا اور ہے۔ گھنٹہ گھر چوک پر کیفے شاہد اور نیشنل بینک کے درمیان صبح دال مونگ، چنے چاول کا پھٹہ لگتا لوگ ناشتہ گھر لے جانے کے لئے لائن میں لگے ہوتے تھے۔

کچہری روڈ پر جماعت اسلامی کے پرانے چوبارے والے دفتر سے کچھ پہلے ایک دکان ہے اب صبح یہاں حلوہ پوڑی بھی دستیاب ہوتی ہے مگر اس وقت صبح کا ناشتہ سری پائے ہوتا تھا۔

حرم دروازہ کی النگ پر بوہڑ گیٹ کی سمت چانپوں والی ایک دکان ہوتی تھی شام کے بعد خریداروں کا رش دیکھنے والا ہوتا۔ اسی طرح بوہڑ دروازے کے باہر قیمے کی ٹکیاں فروخت ہوتی تھیں جو ملتان بھر میں مشہور تھیں۔

بات سیدی انجم رضا کے تبصرے سے شروع ہوئی بیتے ماہ و سال قطار اندر قطار اتر آئے۔ سب لکھا نہیں گیا کالم کے دامن میں گنجائش ہی اتنی ہے۔ آجکل دولت دروازے پر کھانے پینے کی درجنوں دکانیں اور ہوٹل ہیں، جدید معنوں میں فوڈ سٹریٹ۔ رب سوہنا ملتان اور ملتانیوں کو شادو آباد رکھے۔

Check Also

Quwat e Iradi Mazboot Banaiye

By Rao Manzar Hayat