Khwab Sarab
خواب سراب
بظاہر یہی لگتا ہے کہ سیاسی عمل میں رائے دہندگان پر اعتماد سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کو دوام حاصل ہے۔ مختصر عرصے کے لئے انقلابی لیڈر بننے والے جونہی اقتدار کو قریب دیکھتے ہیں نہ صرف انداز تکلم تبدیل ہوجاتا ہے بلکہ وہ سب بھی بھول جاتے ہیں جن سے ان کی سیاست کو رزق ملتا ہے۔
بنیادی طور پر یہی ہماری سیاست کا المیہ ہے بالخصوص اس سیاست کا جو نظریہ سے زیادہ شخصی وفاداری سے عبارت ہے۔ سیاسی کارکنوں کی جگہ دیہاڑی داروں کی بن آئی ہے ہر سو یہی چلن ہے اس پر ستم یہ ہے کہ خود کو سیاسی کارکن کہلوانے والے مخالفین کے لئے ایسے القابات اور الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ سسننے پڑھنے والوں کے سرشرم سے جھک جاتے ہیں۔
یہ ماحول اور سوچ دونوں کب تبدیل ہوں گے۔ فی الوقت حتمی رائے دینا بہت مشکل ہے البتہ یہ عرض کیا جاسکتا ہے کہ دستیاب سیاسی جماعتیں اور قائدین واقعی ملک میں جمہوری نظام اور سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کے لئے سنجیدہ ہیں تو انہیں فوری طور پر دو کام کرنا ہوں گے اولاً اظہار خیال کے وقت الفاظ کے چنائو میں احتیاط کرنا ہوگی ثانیاً اپنے ہمدردوں، کارکنوں اور ملازمین کی اخلاقی تربیت کا بندوبست کرناہوگا تاکہ سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی بناکر منفی رویوں اور سستی جگت بازی میں مصروف لوگوں کو درست راہ پر لگایاجاسکے۔
مروجہ سیاست کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہر سیاسی جماعت کے ہمدرد خود کو حب الوطنی کے کوہ ہمالیہ پر کھڑا دیکھتے ہیں اور مخالف سیاسی جماعتوں کو ملک دشمنوں کی گود میں بیٹھا بتارہے ہوتے ہیں۔
اس پر ستم فرقہ وارانہ بنیادوں پر قائم مذہبی سیاسی جماعتیں ہیں جن میں ہر ایک کا دعویٰ یہی ہے کہ صرف وہی اسلام کی نشاط ثانیہ اور اسلامی نظام کے قیام میں مخلص ہے دیگر مذہبی سیاسی جماعتیں سامراجی طاقتوں اور بدی کی قوتوں کی حلیف ہیں۔
یہ سوچ راتوں رات پیدا نہیں ہوئی بلکہ پاکستان کی عمر سے زیادہ پرانی ہے لیکن اسے جس طرح قیام پاکستان کے بعد پروان چڑھایا گیا اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ اس اندھی شخصیت پرستی، سستی جگت بازی، نفرتوں کے بیوپار نے پاکستان، جمہوریت اورسیاسی عمل کو کچھ نہیں دیا ماسوائے عدم برداشت کے۔
ہمارے چار اور عدم برداشت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے غیرجمہوری قوتیں اس سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔
کیا یہ امر ہر کس و ناکس پر عیاں نہیں کہ غیرجمہوری قوتیں جب لُولے لنگڑے جمہوری نظام پر شب خون مارتی ہیں تو انہیں نجات دہندہ قرار دینے والے سیاسی جماعتوں کی صفوں میں سے ہی مل جاتے ہیں؟
پاکستان کی پچھتر برسوں کی تاریخ طالع آزمائیوں، کہہ مکرنیوں، دستور شکنی، نفرتوں اور فتوئوں کے بیوپار اور اسٹیبلشمنٹ کی چوبداری سے عبارت ہے۔ ستم یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا ہر چوبدار دوسرے پر انگلیاں تو اٹھاتا ہے اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتا۔
پاکستان اس وقت جن سنگین مسائل سے دوچار ہے اس کی تپش ہر عام و خاص محسوس کررہا ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے۔ معاشی ابتری کا دوردورہ ہے۔ بیروزگاری اور غربت ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔
ستم بالائے ستم شہریوں اور ریاست کے درمیان اعتماد کی کمی کی خلیج بڑھ رہی ہے ان حالات میں سب سے زیادہ ذمہ داری سیاسی قائدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف اس خلیج کو کم کرانے کے لئے کردار ادا کریں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان مسائل کے حل کے لئے بھی کوشش کریں جن کی وجہ سے عام شہری کا زندگی اور نظام پر سے اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ صرف سیاستدانوں کو ہی اپنی فہم اور جدوجہد کے انداز کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت نہیں بلکہ ان کے ساتھ ساتھ سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ، سرمایہ داروں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں اہمیت رکھنے والوں کے ساتھ اہل دانش کو بھی سوچنا ہوگا کہ اگر انہوں نے آج کے مشکل حالات میں عوام کی رہنمائی کا فرض ادا نہ کیا تو اس کے نتائج کیا نکلیں گے۔ 4 مارشل لائوں کی کوکھوں سے جنم لینے والی سوچوں نے ہماری سماجی روایات کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔
ایک فلاحی جمہوری مملکت کے قیام کا خواب پچھتر برسوں میں سراب ہی ثابت ہوا۔
دوسری جانب وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم اور اخراجات کے حوالے سے غیرفطری درجہ بندی کی بنیاد پر ترجیحات ان سب کی وجہ سے ہر طرف بگاڑ ہی بگاڑ دیکھائی دیتا ہے۔ یہ بگاڑ کیسے کم ہوگا اور کیسے شہریوں اور ریاست میں اعتماد سازی کا ماحول بنے گا اس بارے غوروفکر کی ضرورت ہے۔
صاف سیدھے الفاظ میں یہ عرض کردینا بھی ازبس ضروری ہے کہ ذاتی حب الوطنی کے ڈھکوسلوں اور مخالف کے لئے فتوئوں کی چاند ماری نے سیاسی عمل اور نظام کو جو نقصان پہنچایا اس کے سبھی ذمہ دار ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حالات میں ٹھنڈے دل سے یہ سوچا جائے کہ معاشرے میں جس نفرت و عدم برداشت کا دوردورہ ہے اس سے نجات کیونکر ممکن ہوگی نیز یہ کہ عام آدمی کے گلے میں پڑا مسائل کا طوق کون اور کیسے اتارے گا۔
اس بارے بھی سوچنا ہوگا کہ اگر سیاسی جماعتوں، ان کے قائدین اور ہمدردوں نے زمینی حقائق کا ادراک کرنے میں مزید تاخیر کی تو جو خطرات تیزی سے بڑھتے چلے آرہے ہیں ان کا مقابلہ کیسے ہوپائے گا؟
یہ عرض کرنے میں بھی کوئی امر مانع نہیں کہ فوری طور پر دو کام ہونا بہت ضروری ہیں اولاً یہ تاثر دور ہونا چاہیے کہ پاکستان ہمیشہ سکیورٹی سٹیٹ ہی رہے گا، فلاحی جمہوری ریاست کبھی نہیں بن سکتا۔
ثانیاً یہ کہ سیاسی جماعتوں کو عدم برداشت کے خاتمے کےساتھ اس امر کو یقینی بنانا ہوگاکہ دستور اور قانون سے کوئی بھی ماورا نہیں ہے۔
ہماری دانست میں اس کے سوا اصلاح احوال ممکن ہی نہیں کیونکہ جو بگاڑ ہیں یہ راتوں رات پیدا ہوئے نہ اس کا کوئی شخص، طبقہ اور جماعت تنہا ذمہ دار ہیں۔
اپنا اپنا حصہ سب نے حسب توفیق ڈالا ہے اس لئے اب اصلاح احوال کے لئے بھی سبھی کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا چاہیے تاکہ ایک ایسے دور اور نظام کی بنیاد تو رکھی جاسکے جو حقیقی قومی جمہوریت کے لئے ابتدائیہ ثابت ہو۔ امید ہے کہ سیاسی قیادت اور اہل دانش ان معروضات پر غور کریں گے۔