IMF Ke Muahde Ka Bojh
آئی ایم ایف کے معاہدہ کا بوجھ
آئی ایم ایف سے ملنے والی مالیاتی سہولت 9 ماہ کے لئے ہوگی اس سہولت (قرضے) کے حصول کی صورت میں پاکستان آئی ایم ایف سے قرضے لینے والے 4 بڑے ممالک میں شمار ہوگا۔ جولائی کے وسط میں آئی ایم ایف کا بورڈ آف ڈائریکٹر سٹاف لیول پر ہونے والے معاہدے کی من و عن منظوری دیتا ہے یا مزید شرائط کا نفاذ کرتا ہے فی الوقت کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا البتہ تین ارب ڈالر کے قرضے کی سٹاف لیول پر یقن دہانی کے بعد دادوتحسین کی صدائیں تھم کر نہیں دے رہیں۔
بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے سارے مسائل حل ہونے کو ہیں اور دودھ و شہد کی نہریں بہنے میں کچھ ہی دیر ہے۔ اس کے برعکس اس کے معاہدہ پر عمل کی صورت میں جو اقدامات ہوں گے ان کا بوجھ بہرطور عام آدمی پر ہی پڑے گا۔ 50 فیصد سوئی گیس مہنگی ہو یا بجلی کے یونٹ میں 4 روپے سے 5 روپے 75 پیسے تک کا نیا اضافہ، ہر دو کی وجہ سے مہنگائی کا ایک نیا سیلاب لوگوں کی زندگی اجیرن کردے گا۔
پٹرولیم لیوی میں فوری طور پر 5 روپے لٹر اضافہ کئے جانے کی اطلاعات ہیں۔ ادھر وزیر خزانہ اسحاق ڈار گزشتہ چند دنوں سے پنشن کو غریب ملک پر بوجھ قرار دیتے ہوئے جس طرح حقائق کو نظر انداز کررہے ہیں اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔
اشرافیہ کو ریلیف دینے کے لئے بجٹ میں اڑھائی ہزار ارب روپے کی رقم رکھنے والی حکومت کے وزیر خزانہ کو یہ تک معلوم نہیں کہ پنشن کس اصول پر دی جاتی ہے۔ سرکاری ملازم اپنی مدت ملازمت کے دوران ہر ماہ مخصوص رقم گریجویٹی فنڈ کے لئے ادا کرتا ہے۔ 25 سال کی مدت ملازمت یا 60 سال کی عمر مکمل ہونے ہر دو صورتوں میں ایک طویل عرصہ تک ادا کی گئی رقم ادا ہی اس امید پر کی جاتی ہے کہ جب ملازمت سے سبکدوش ہوں تو عزت کے ساتھ زندگی بسر ہوسکے۔
عجیب بات یہ ہے کہ سول ملازمین کی لگ بھگ 200 ارب روپے کی پنشن بوجھ لگ رہی ہے لیکن سول و ملٹری بیوروکریسی، وزیرو مشیروں، ارکان اسمبلی کی بھاری بھرکم تنخواہیں اور مراعات کے ساتھ اقتدار میں معاون بنے طبقات کے ریلیف کے لئے رکھی جانے والی رقوم ذمہ داری ہیں۔
افسوس کے ساتھ متوجہ کرنا پڑرہا ہے کہ سیاستدانوں کی اکثریت اپوزیشن کے زمانہ میں جو دکھڑے سناتی اور علاج بتارہی ہوتی ہے اقتدار ملنے کے بعد ہر بات اور کام یکسر الٹ ہوتا ہے۔
سال بھر تک آئی ایم ایف کے حوالے سے بڑھک بازی سے لہو گرمائے رکھنے کے بعد اب سٹاف لیول معاہدہ پر واہ واہ کاری سے آسمان سر پر اٹھالیا گیا ہے۔ اس سوال کا جواب کوئی بھی دینے کو تیار نہیں کہ اس معاہدہ پر عمل کی صورت میں عام آدمی کی جو درگت بنے گی اس کا مداوا کیسے ہوگا؟
پچھلے ایک برس کے دوران صبح و شام پلان بی کی نوید دی جارہی تھی اس عرصہ میں اس پر عمل کی صورت کیوں نہ بن پائی۔ پلان بی قابل عمل تھا تو آئی ایم ایف کے ترلے کرنے اور بعض دوست ممالک سے مالیاتی اداروں کے بڑوں کو سفارشیں کروانے کی ضرورت کیا تھی۔
حکمران اتحاد کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے کہ اس کے معاشی ماہرین معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور بحران سے نکالنے میں ناکام رہے سو وہ سال قبل اس حوالے سے جس غیرذمہ دارانہ طرزعمل کا الزام تحریک انصاف کی حکومت پر لگایا جاتا تھا ویسا ہی غیرذمہ دارانہ طرز عمل موجودہ حکومت کی سابق و حاضر معاشی ٹیموں کا رہا۔
معیشت میں بہتری لانے کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اس عرصہ میں عوام پر جو بیتی وہ کسی سے مخفی نہیں ماسوائے حکومت کی معاشی ٹیم کے۔ سوا سال کے دوران مہنگائی نے پچھتر برسوں کا ریکارڈ توڑدیا۔
محض یہ کہہ دینا کافی نہیں ہوگا کہ اس عرصے میں سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ سابق حکومت کے بعض رہنمائوں اور بیرون ملک مقیم حامیوں کے منفی پروپیگنڈے سے مسائل پیدا ہوئے۔ یہ مسائل کی ایک وجہ ضرور ہوگی مگر حتمی ہرگز نہیں۔ حکومت عوام کو بتائے کہ روس سے پٹرولیم مصنوعات کے حصول کی صورت میں پٹرولیم کی قیمتوں کو اعتدال میں لانے کے دعوے کیا ہوئے؟
وزیر خزانہ نے ایک سے زائد بار ڈالر کو 200 روپے تک رکھنے کا وعدہ کیا اس پر عمل کیوں نہ ہوا۔ حکومت روزانہ کی بنیاد پر افغانستان ڈالر کی سمگلنگ کو کیوں نہ روک پائی۔
تین ارب ڈالر کے حصول کیلئے آئی ایم ایف کے سامنے ڈھیر ہونے والی تجربہ کاروں کی معاشی ٹیم اس امر سے لاعلم تھی کہ عوام کی قوت خرید دن بدن دم توڑ رہی ہے؟
اندریں حالات یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بودے معاشی پروگرام کے یہی نتائج نکلنا تھے زمینی حقائق اور معاشی ابتری کی بنیادی وجوہات کو سمجھے بغیر ہوائیاں چھوڑی گئیں اب ان کے نتائج کا سامنا بھی کرنا ہوگا۔ وقتی طور پر ڈیفالٹ سے بچ رہنے کی صورت گری پر تالیاں بجاتے ہوئے یہ ضرور سوچا جانا چاہیے کہ ڈیفالٹ کے خطرات سے مستقل نجات کی صورت کیا ہوسکتی ہے۔
آئی ایم ایف سے وعدے کے مطابق ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی ہوگی۔ اسی طرح عوام کو دی جانے والی اونٹ کے منہ میں زیرہ قسم کی سبسڈی میں بھی کمی کرنا لازمی ہے۔ پٹرولیم، سوئی گیس اور بجلی کے نرخ آئی ایم ایف کے احکامات پر بڑھانا ہوں گے۔ ان احکامات پر عمل کرنے کی رضامندی دیتے وقت اپنے لوگوں کی ماہانہ آمدنی اور قوت خرید کو مدنظر رکھنے کی زحمت کیوں نہیں کی گئی؟
کیا حکومتی ذمہ داران اس امر سے لاعلم ہیں کہ تقریباً 9 روپے فی یونٹ بجلی پر فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز دینے والا صارف بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 4 یا 5 روپے 75 پیسے فی یونٹ اضافے کا بوجھ اٹھاپائے گا۔
ہماری دانست میں ارباب اختیار کو زبان زدعام سوالات سے آنکھیں چرانے یا انہیں منفی پروپیگنڈہ قرار دینے کی بجائے سیدھے سبھائو عوام کو اطمینان دلانا چاہیے، اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف کا انتظام عبوری ہے یہ 9 ماہ کی مدت کے لئے ہے اس میں تین ماہ نگران حکومت کے بھی شامل ہیں۔
نومبر میں اگر انتخابات ہوتے ہیں جوکہ اصولاً ہونے چاہئیں تو ان کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو کسی تاخیر کے بغیر آئی ایم ایف سے رجوع کرنا ہوگا۔ اس طور یہ سوال حقیقت پر مبنی ہے کہ حکمران اتحاد نومبر کے عام انتخابات میں اپنی معاشی پالیسی کے بوجھ سے متاثر رائے دہندگان سے کہے گا کیا اور اس کے پاس انہیں دینے کے لئے ہوگا کیا؟
امید واثق ہے کہ ان سوالات پر غور ہی نہیں کیا جائے گا بلکہ عوام کو جواب سے بھی آگاہ کیا جائے گا۔