Dushnam Aur Lath Bazi Nahi Daleel Se Mukalma Kijye
دشنام اور لٹھ بازی نہیں دلیل سے مکالمہ کیجئے
آنے والے دنوں میں منعقد ہونے والے عام انتخابات کا عین ممکن ہے کہ سوشل میڈیا پر جاری سرائیکی پنجابی بحث سے کوئی تعلق ہو کیونکہ سرائیکی قوم پرستوں کی غالب تعداد شعوری طور پر مسلم لیگ (ن) کے خلاف ہے۔
گزشتہ الیکشن میں سرائیکی وسیب سے 100 دن میں صوبے کا روڈ میپ دینے کے اعلان پر لوگوں اور قوم پرستوں نے بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا۔ 100 دن میں صوبے کا روڈ میپ کی لہر میں بھی پیپلزپارٹی نے سرائیکی وسیب سے قومی اسمبلی کی سات نشستیں لیں اس الیکشن سے قبل اور بعد میں قوم پرستوں کی اکثریت پیپلزپارٹی کو آڑے ہاتھوں لیتی رہی جواباً پی پی پی کے ہم خیال سرائیکی قوم پرست پیپلزپارٹی کو سرائیکی وسیب کا آخری موچہ قرار دیتے رہے۔
ان دنوں جب طرفین گتھم گتھا تھے اس موضوع پر مسلسل کئی کالم لکھے بعض کالموں میں قوم پرستوں اور پیپلزپارٹی کے ذمہ داران کے خطوط بھی شامل کئے۔
فی الوقت ہمارا موضوع سرائیکی قوم پرست اور پیپلزپارٹی نہیں کیونکہ آجکل دونوں کو ٹھنڈ پڑی ہوئی ہے۔ بلکہ آجکل تو سرائیکی قومی شناخت کے سوال پر پنجابی قوم پرستوں کا ایک طقبہ بڑا جذباتی ہوا کشتوں کے پشتے لگانے میں مصروف ہے۔
چند دن قبل اس مسئلہ پر میں نے اڑھائی سطری پوسٹ اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر لکھی تو کمنٹس میں ایک پنجابی قوم پرست نے تفصیل کے ساتھ جوابی موقف کا اظہار کیا۔ میں نے عرض کیا بہت شکریہ آپ نے دلیل سے بات کی یہی مناسب طریقہ ہے۔ جواباً انہوں نے وہی توں تڑاخ کے ساتھ عربی النسل قبضہ گیر تمہاری اخلاقیات کی ایسی تیسی اور وہ سب کچھ کہا جو اس طبقے کا وطیرہ ہے۔
ایک اور قوم پرست دوست سے شکوہ کیا یہ گالم گلوچ اچھی بات نہیں۔ انہوں نے کہا کہ "میں کوئی بہت بڑا لیڈر نہیں ہوں کہ لوگ میری بات سن مان لیں"۔
چند برس قبل ہمارے اسی دوست نے سرائیکی پنجابی مکالمے کا اہتمام کیا تھا۔ لاہور میں ہونے والی اس نشست میں مرحوم ارشاد امین اور مجھے سرائیکی وسیب کی نمائندگی کرنا تھی ارشاد امین اچانک علیل ہوگئے پھر اس نشست میں میں تنہا شریک ہوا۔ لگ بھگ سات گھنٹے تک بڑے خوشگوار ماحول میں یہ نشست منعقد ہوئی۔ طرفین میں سے ایک پنجابی دوست قدرے جذباتی رہے دیگر نے کھلے دل کے ساتھ مکالمہ کیا۔
اس نشست میں طے پایا تھا کہ اگلی نشست ملتان میں منعقد ہوگی۔ بعض مسائل اور وجوہات کی بنا پر یہ دوسری نشست منعقد نہ ہوپائی۔ مکالماتی نشستوں کا سلسلہ جاری رہتا تو مجھے یقین ہے کہ حالیہ عرصہ میں سرائیکی زبان، قوم اور عوامی تحریک کے خلاف جو بازاری زبان بعض پنجابی قوم پرست کہلانے والے استعمال کررہے ہیں اس کی نوبت نہ آتی۔
میری اب بھی دیانتدارانہ رائے ہے کہ مسئلہ کا حل صرف اور صرف مکالمہ ہے۔ لٹھ بازی اور دشنام طرازی سے مسائل پیدا ہوں گے فقط مسائل ہی نہیں بلکہ نفرت بھی۔ سرائیکی وسیب نفرتوں کا متحمل نہیں ہوسکتا صرف یہی نہیں بلکہ کوئی بھی وسیب نفرتوں کا بوجھ نہیں اٹھاسکتا۔
حالیہ سرائیکی پنجابی بحث میں جو سوشل میڈیا پر جاری ہے، سنجیدگی کا عنصر نہیں ہے۔ سستی جذباتیت، گالم گلوچ اور پھران دونوں کا دفاع اس سے حاصل وصول کچھ نہیں ہونا۔
مثال کے طور پر سرائیکی زبان اور قومی شناخت پر معترض حضرات بالخصوص پنجابی قوم پرست اگر باروں کی بولیوں کاایک مشترکہ نام پنجابی رکھ سکتے ہیں رنجیت سنگھ کے عہد کی جغرافیائی حیثیت پر پنجابی شناخت منوانے پر مُصر ہیں تو دونوں ان کے ذاتی و علاقائی معاملات ہیں۔
پنجابی دوست آج کل جسے پنجابی کا رچناوی لہجہ قرار دے رہے ہیں صرف ڈیڑھ دو عشرے قبل اس لہجے کو حقارت کے ساتھ جانگلی زبان کہا کرتے تھے۔
ایک طنز یہ ہے کہ سرائیکی قومی تحریک اور زبان و شناخت کے سوال پر سرگرم لوگوں کی اکثریت قبضہ گیر ہے۔ یعنی باہر سے آئے ہوئے لوگ۔
ہم پہلے اسی نکتہ پر بات کرلیتے ہیں۔ دنیا میں ہمیشہ تین طرح کی انتقال آبادی ہوتی آئی ہے۔ اولاً کسی حملہ آور لشکر کی فتح کےبعد قائم کردہ مملکت میں حملہ آور لشکرکے آبائی علاقوں سے مفادات کے حصول کے لئے خاندانوں اور گروہوں کی مفتوحہ علاقوں کی طرف نقل مکانی
انتقال آبادی کی دوسری صورت یہ ہے کہ مختلف خاندان اور گروہ اپنے آبائی علاقوں میں خود سے روا رکھے جانے والے ناروا سلوک قتال اور دوسری وجوہات پر ہجرت کرکے کسی ایسے علاقے میں جاکر آباد ہوں جہاں جان و مال کے تحفظ کے ساتھ زندگی کے معاملات میں آزادی حاصل ہو۔
انتقال آبادی کی تیسری قریب ترین صورت برصغیر کے بٹوارے کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ برصغیر کا بٹوارہ کیوں ہوا اور انتقال آبادی کیوں ہوئی یہ ہمارا موضوع نہیں۔ اس بٹوارے کی وجہ سے لاکھوں خاندان صرف اور صرف مذہبی شناخت کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور کئے گئے۔ آج کے پاکستان کی جغرافیائی حدود سے لاکھوں ہندواور سکھ خاندان نقل مکانی کرکے بھارت گئے اور بھارت کے اس وقت کے صوبوں سے لاکھوں خاندان اپنی مسلم شناخت کی وجہ سے نقل مکانی کرکے موجودہ پاکستان کی جغرافیائی حدود میں آ کر آباد ہوئے۔
ہمارے ہاں ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ایک ہی کاسٹ (ذات) کے مہاجرین (تینوں طرح کے مہاجرین) میں سے ایک طبقہ خود تو ایک مقامی قومی شناخت کا حامی و علمبردار ہے لیکن اپنے ہی طبقے کے دوسرے گروہ کو کسی دوسری مقامی قومی شناخت اپنانے کا حق دینے پر آمادہ نہیں بلکہ بعض حالتوں میں تو گریبانوں سے الجھنے لگتا ہے۔
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر باہر سے آنے والے کسی حالت و حالات میں بھی آئے ہوں، پناہ گیر ہوں یا مذہبی شناخت پر نقل مکانی کرنے والے قبضہ گیر اور غلط ہیں تو پھر تینوں طرح کے وہ گروہ جو مختلف حالات میں نقل مکانی کرکے آئے اسی قبضہ گیر شناخت کے حامل ہی ٹھہریں گے۔
یہ نہیں ہوسکتاکہ مہاجرین کاایک طقبہ مہاجرین کے دوسرے طبقے کو قبضہ گیر ہونے کی گالی دے اور شانت ہو۔
مثال کے طور پر بالائی سطور میں ایک پنجابی قوم پرست کے کمنٹس اس کے جواب اور پھر ان کے دشنام سے بھرے جواب بارے عرض کیا۔
میں ان سطور میں تکرار کے ساتھ عرض کرتا رہا ہوں کہ ہمارے بزرگ لگ بھگ ساڑھے آٹھ صدیاں قبل بلاد عرب سے پہلے آج کی وسط ایشیائی ریاستوں بالخصوص ثمرقند و بخارا پہنچے۔ وہاں حالات موافق نہیں تھے۔ سندھ کی جانب ہجرت کی یہاں سکھر کے قریب پہلے سے مقیم عزیزوں کے تعاون سے قیام کیا اور پھر اوچ شریف منتقل ہوگئے تب اوچ شریف کی علاقائی شناخت پنجاب بہرطور نہیں تھی۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ساڑھے آٹھ سو سال پہلے پناہ لینے کے لئے ہجرت کرکے آنے والے ہمارے بزرگوں کو جس سرزمین نے پناہ دی بعد اور آج کی نسلیں اگر اسی سرزمین زبان اور قومی شناخت سے خود کو جوڑتی اور فخر کرتی ہیں تو یہ قبضہ گیری نہیں بلکہ اس احسان کا شعوری حق ادا کرنے کی کوشش ہے جو اس وسیب کے اس وقت کے بزرگوں نے ہمارے بزرگوں پر کیا۔
ثانیاً یہ کہ ساڑھے آٹھ سو برس قبل نقل مکانی کرکے اوچ شریف میں پناہ گیر کے طور پر آباد ہونے والوں یا کسی دوسرے قدیم مہاجر خاندان کی آج کی نسل کو قبضہ گیر ہونے کا طعنہ دینے والوں کے پاس اس کا اخلاقی سماجی جواز کیا ہے۔
کیا یہ صرف اس لئے گالی کے حقدار ہیں کہ اس وسیب اور زبان کی وفادری کا دم بھرتے ہیں جس نے ان کے بزرگوں کو پناہ دی؟ اس وقت ساڑھے آٹھ سو سال پہلے تو ہند تھا اور سندھ دونوں میں چھوٹی بڑی درجنوں ریاستیں اور صوبے۔ مغل ایمپائر اس سے بعد کی بات ہے رنجیت سنگھ کا پنجاب اور برطانوی راج دونوں اس کے بعد آئے بنے قائم ہوئے۔ بٹوارہ 1947ء میں ہوا۔
حاصل گفتگو یہ ہے کہ سرائیکی زبان وسیب اور قومی شناخت پر اعتراض کرنے والے شائستگی اور دلیل کے ساتھ مکالمہ اٹھائیں دشنام طرازی اور نفرت کے بعد جو نتائج نکل سکتے ہیں اس سے کون کتنا متاثر ہوگا یہ راز ہائے درون سینہ ہرگز نہیں۔
قوم پرستی بری چیز نہیں بری چیز یہ ہے کہ آپ دوسروں کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے گالم گلوچ پر اتر آئیں اور بضد ہوں کہ تمہاری ولدیت ہم طے کریں گے۔
کسی کو کسی بھی طرح ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے فساد کا دروازہ کھلے امید ہے کہ ٹھنڈے دل سے ان معروضات پر غور کرنے کی زحمت کی جائے گی۔