Darsi Kutub Ke Ghotale
درسی تاریخ کے گھٹالے
ہمیں پڑھایا گیا کہ "کانگریس اور مسلم لیگ نے سائمن کمیشن کا بائیکاٹ کیا تھا"۔ سائمن کمیشن (انڈین آئین کمیشن، یہ اصل نام ہے) 26 نومبر 1927ء کو برطانوی حکومت نے قائم کیا۔ کمیشن نے2مرتبہ ہندوستان کا دورہ کیا۔ 1928ء اور پھر 1929ء میں، آل انڈیا مسلم لیگ سائمن کمیشن کے معاملے پر دوحصوں میں بٹ گئی۔ جناح صاحب کی مسلم لیگ نے کمیشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا جبکہ شفیع لیگ (سر محمد شفیع) "مسلم لیگ" نے تعاون کیا۔
جماعت ہفتم کی کتاب میں طلبا کو پڑھایا گیا کہ "علامہ اقبال نے سید امیر علی کے ساتھ مل کر لندن مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی"۔ لندن مسلم لیگ کے دستیاب ریکارڈ میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
اقبال اس کمیٹی کے محض ایک رکن تھے عہدیدار نہیں۔ امیر علی اس کے صدر۔ سی اے لطیف نائب صدر، ابن احمد اعزازی سیکرٹری، ظہور احمد جوائنٹ سیکرٹری، عبدالعلی اعزازی خازن، مسعودالحسن اسسٹنٹ سیکرٹری اور نائب خزانچی تھے۔
اسی طرح لکھنو پیکٹ کی دھوم مچانے والوں کے پاس بھی اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ اجلاس میں پنجاب، بنگال، این ڈبلیو ایف وغیرہ کی نمائندگی کا کیا تناسب تھا۔ یہ کیسے ہوا کہ پنجاب کی نمائندگی کے بغیر ہی اس کی قسمت کا فیصلہ کردیا گیا۔
قرارداد لاہور جسے اب قرارداد پاکستان کہا جاتا ہے (سرکاری طور پر 23 مارچ اسی سے منسوب ہے) اس کامعاملہ بھی دلچسپ ہے۔ پہلی بات یہ کہ قرارداد پاکستان نہیں بلکہ قرارداد لاہور تھی۔ اسے عوامی اجتماع نے نہیں آل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی تنظیم نے منظور کیا تھا۔
قرارداد 23کو نہیں 24مارچ 1940ء کو منظور کی گئی۔ قرارداد میں پاکستان کے قیام کا مطالبہ نہیں بلکہ مسلم ریاستوں کی بات کی گئی۔ مسلم ریاستیں انڈین یونین کے وفاق میں یا الگ وفاق کا انڈین یونین سے الحاق؟ اس پر مکمل سکوت ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے حوالے سے درسی کتب کا مواد صریحاً غلط ہے۔ بتایا گیا کہ مارشل لاء ناگزیر تھا۔ کیسے ناگزیر تھا، پی این اے تو حکومت سے مذاکرات کررہا تھا۔ پروفیسر غفور احمد نے اس حوالے سے اپنی کتاب میں تفصیل کے ساتھ لکھا۔ خود پی این اے کی تشکیل کے جو محرکات مارشل لاء کے حامی اور پی این اے کی جماعتیں بتاتی تھیں ان کے بر عکس معلومات بھی لوگوں کے سامنے آچکی تھیں۔
پی این اے کی مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف تحریک کے 32 نکات میں نفاذ اسلام یا نظام مصطفی کی بات ہی نہیں کی گئی۔ نظام مصطفی کی بات "اسلامی ٹچ" تھا لوگوں کے جذبات بھڑکانے کے لئے یہ اسلامی ٹچ علامہ شاہ احمد نورانی نے دیا۔ پی این اے کی دوسری مذہبی سیاسی جماعتوں جماعت اسلامی، جے یو آئی، خاکسار تحریک وغیرہ نے اسے احتجاجی سیاست کا حصہ بنالیا۔
مسلم لیگ ہائوس ڈیوس روڈ لاہور میں جہاں دسمبر 1976 اور جنوری 1977ء کے اوائل میں پی این اے کے قیام کے لئے اجلاس ہورہا تھا (یہ اجلاس اصل میں پہلے سے موجود اپوزیشن اتحاد یو ڈی ایف کو وسیع کرنے کے لئے تھا) تو ڈیوس روڈ پر ہی واقعہ ایک ہوٹل میں ایک خفیہ ادارے کے سربراہ امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے سفارتکاروں کی موجودگی سے اخبار نویس اور سیاستدان دونوں باخبر تھے۔
جنرل ضیاء الحق دور کی درسی کتب (نویں جماعت سے بی اے تک) میں اس دور کی 5 شاندار خوبیاں گنوائی گئیں۔ 1۔ ناگزیر وجوہات کی بنیاد پر انتخابات کو مسلسل ملتوی کرنا درست تھا۔ 2۔ انہوں نے ایمانداری سے اسلامی نظام جس کا قائداعظم نے وعدہ کیا تھا کو نافذ کرنے کی کوشش کی۔ 3۔ ان کے جاری کردہ اسلامی آرڈیننس نے پاکستان کی تخلیق کا حقیقی حق ادا کردیا۔ 4۔ انہیں ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے تقدیر نے چن لیا تھا۔ 5۔ وہ ہمارے (قوم) کے شکریہ کے مستحق ہیں۔
کے کے عزیز کی کتاب کے صفحہ 185 پر یہ پانچوں عظیم خوبیاں درج ہیں۔
ہم ان پر بات کرلیتے ہیں۔ مارشل لاء کا نفاذ ناگزیر ضرورت تھی لیکن اس کی وجہ مقامی حالات یا پی پی پی، پی این اے کشمکش اور خانہ جنگی کا خطرہ ہرگز نہیں۔ وجہ جولائی تا ستمبر 1976ء میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے امریکی سفیر کی ملاقاتیں تھیں۔
ان ملاقاتوں میں امریکی سفیر نے ذوالفقار علی بھٹو کو خطے کے معروضی حالات خصوصاً افغانستان اور ایران میں حکومت مخالف گروہوں کے منظم ہونے اور تبدیلیوں کی بنیاد پڑنے کے امکانات کے حوالے سے سی آئی اے کی رپورٹس اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کی خواہش سے آگاہ کیا۔
امریکی خواہش مند تھے کہ افغانستان اور ایران میں منظم ہوتی تحریکوں کے حوالے سے پاکستانی پشتونوں اور اہل تشیع کے ساتھ ان گروپوں پر نگاہ رکھی جائے جو دونوں ملکوں کے حکومت مخالف دھڑوں سے روابط رکھیں۔
صاف سیدھی بات یہ تھی کہ پاکستان خطے میں چھوٹے امریکی تھاندار کا کردار سنبھال لے۔ بھٹو نے اس سے کاملاً انکار کردیا۔ ستمبر 1976 کے بعد ہی امریکی اور مغربی سفارتی حکام نے بھٹو مخالف اتحاد یو ڈی ایف کی مذہبی اور سیاسی جماعتوں سے رابطے کئے۔
قارئین میں سے جنہوں نے اس دور کو بچشم خود دیکھا ہو تو یاد کیجئے کہ تحریک استقلال، جے یو پی اور جماعت اسلامی ہوا کے کن گھوڑوں پر سوار تھے۔ آگے چل کر جب یو ڈی ایف، پی این اے (پاکستان قومی اتحاد) بنا تو امریکہ و برطانیہ کے ساتھ ایک بڑی ملکی ایجنسی پی این اے کی پشت بان ہوئی۔
جنرل ضیا کے سامنے ناگزیر وجہ فقط ایک تھی الیکشن ملتوی کرتے جانے کے حوالے سے اور وہ تھی صاف سیدھا پیپلزپارٹی کا واضح اکثریت کے ساتھ جیتنے کا امکان۔
مارشل لاء نافذ ہونے کے بعد گو چند دن جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلباء نے لاٹھی بردار جلوس نکال کر پیپلز پارٹی کے حامیوں کو خوفزدہ کرنے کی کوششیں کیں لیکن یہ کوششیں کامیاب اس لئے نہ ہوپائیں کہ عوامی سطح پر لاٹھی بردار جلوسوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔
اسی عرصہ میں خان عبدالولی خان نے "قبر ایک اور مردے دو" والی بات بھی کردی۔ تیسری وجہ بہرطور یہ رہی کہ مارشل لاء امریکی ایجنڈے کے تحت آیا تھا۔ فوجی حکومت نے پی این اے کو استعمال کیا اور ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا۔ بعد میں اسی پی این اے کی بعض جماعتیں جنرل ضیاء الحق کے خلاف بننے والے سیاسی اتحاد ایم آر ڈی کا حصہ بن گئیں۔
قائداعظم محمدعلی جناح نے کبھی بھی ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کی بات نہیں کی۔ 11اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے کیا گیا ان کا خطاب بہت واضح ہے اسی طرح ان کی اولین کابینہ بھی۔
اسلامی ریاست، مذہبی قومیت اور نفاذ اسلام یہ پھلجھڑیاں قرارداد مقاصد نے چھوڑیں اس قرارداد کی منظوری کے پشت بانوں میں خود وزیراعظم لیاقت علی خان شامل تھے کیونکہ اسلامی تصور قومیت کے بغیر وہ نئے ملک میں اجنبی ٹھہرتے۔ وجہ اس وقت کے مغربی پاکستان میں آباد قوموں کی قدیم تاریخ و تہذیب وغیرہ تھیں دوسری جانب بنگالی بھی اپنے قومی شعور سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھے۔
جنرل ضیاء کے اسلامی آرڈیننسوں نے ایسی گہری اور خطرناک سماجی تقسیم کی بنیاد رکھی جس نے نفرتوں کے دھندے کو عروج پر پہنچادیا۔ ان کی وفات کے 45 برس بعد بھی اہل پاکستان اس کا، "منافع " کھارہے ہیں۔
تقدیر نے انہیں اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے چن لیا تھا۔ کیا تقدیر امریکی سی آئی اے نے لکھی تھی کیونکہ بعد کے برسوں میں تو واضح ہوگیا کہ امریکی 1976ء سے ہی اس امر سے واقف تھے کہ افغانستان میں سوشلسٹ انقلاب کے لئے بہت منظم انداز میں کام ہورہا ہے۔
امریکیوں کی خواہش پر ہی جنرل ضیاء نے افغان انقلاب ثور کے بعد پاکستان کو امریکی برانڈ اسلامی جہاد کے لئے فرنٹ لائن سٹیٹ بنادیا۔ کڑوا سچ یہی ہے کہ پاکستان کی بربادی کی تقدیر امریکیوں نے لکھی جنرل ضیاء فقط ایک مہرہ تھے۔
پانچواں نکتہ، وہ (جنرل ضیاء) ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں۔ سبحان اللہ، نسلی و مسلکی منافرتیں جہادی کاروبار، مسلح جتھوں کے قیام کی ریاستی سرپرستی، اسلام کے نام پر جاری کئے جانے والے بعض آرڈیننس جنہوں نے ایک اچھے بھلے نیم ترقی پسند سماج کو جنونیت سے بھردیا اس پر شکریہ ادا کریں یا پھر دستور شکنی، بھٹو کی پھانسی، جمہوریت پسندوں کو کوڑے مارنے، شاہی قلعہ اور دوسرے بوچڑخانوں میں تشدد کرنے، سزائیں دینے، حلف سے عبارت وعدہ کرکے مکر جانے میں سے کس کس بات کا شکریہ بنتا ہے؟
جناب خورشید کمال عزیز کی کتاب "پاکستانی تاریخ کا قتل" کے مندرجات پر نقدونظر جاری ہے۔ اگلے کالموں میں علامہ اقبال کے تصور یا خواب پاکستان، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے ہند کی سیاسی حکمت عملیوں کے ساتھ انتقال آبادی کی بنیادی وجوہات پر بات کریں گے۔