Chand Meharbano, Doston Aur Buzurgon Ki Yaadein
چند مہربانوں، دوستوں اور بزرگوں کی یادیں
خاصی دیر ہوگئی سگریٹ اور چائے کے کئی کپ "پھڑ کا" چکا، کچھ لکھنا چاہتا ہوں لیکن فقیر راحموں کہہ رہا ہے، یار شاہ چھوڑ اس نگوڑی سیاست کو کچھ اور باتیں کرتے ہیں۔
عین ان سموں مجھے ایک مرحوم صاحب علم دوست سید یوسف عباس بہت یاد آئے۔ ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن میں اچھے منصبوں پر رہے، درویش آدمی تھے۔ "زمانہ گیری" سے محفوظ کتابوں کے رسیا۔ وسیع مطالعہ، ان سے تعارف 1990ء کی دہائی میں ہوا تھا۔ بعد ازاں درجنوں ملاقاتیں ہوئیں ہر ملاقات میں انہوں نے اپنے وسیع مطالعے کے نقوش ہمارے قلب و ذہن پر چھوڑے۔
ان سے چند برسوں کی دوستی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ہم نے عقیدے کو لٹھ بنانے کی بجائے یہ سمجھ لیا کہ انسانی فہم کی معراج تحقیق و جستجو ہے۔ وہ بھی اسی ملک میں جئے بسے اور سفر حیات طے کرکے رخصت ہوگئے جہاں ذاتی شرف، علم و تحقیق کے مقابلہ میں عقیدوں کے کاروبار اور کھانے پینے کی دکانیں زیادہ چلتی ہیں۔
سید یوسف عباس نے متعدد کتابیں تحریر کیں ان کی یہ کتابیں عقیدوں کی متھ توڑتے ہوئے فہمیدہ انداز میں سوچنے کی دعوت دیتی ہیں۔ "طلاق"، "حلالہ"، "لونڈی" اور "مُتعہ"۔ ان کی وہ کتب ہیں جو تھوڑی بہت کوشش سے اب بھی مل جاتی ہیں۔
ایک بار شیخوپورہ میں ان کے دفتر میں بہت تفصیلی نشست ہوئی تب انہوں نے بتایا تھا کہ وہ اسرائیلیات کے ورودِ اسلام پر کتاب تحریر کررہے ہیں۔ طالب علم چونکہ ان کی پہلی چاروں تصانیف پڑھ چکا تھا اس لئے قوی یقین ہوا کہ اب وہ جو لکھیں گے وہ مذہبی مکاتب سے فیض پانے والوں اور ان کے لئے بھی شاندار کتاب ہوگی جنہوں نے روایتی متھوں سے بیزاری اختیار کرلی۔
بدقسمتی سے رزق سے بندھی ہجرتوں کے باعث رابطے کمزور ہوتے چلے گئے پھر ایک دن ان کے سانحہ ارتحال کی اطلاع ملی تب وہ غالباً لاہور میں ملتان روڈ کی ایک معروف آبادی میں مقیم تھے۔ پھر یہ علم نہ ہوسکا کہ انہوں نے اسرائیلیات والے کام کے ساتھ چند دیگر ادھورے کام بھی مکمل کرلئے تھے کہ یا نامکمل چھوڑ کر رخصت ہوگئے۔
یوسف عباس نے اپنی کتب میں ان فکری مغالطوں پر خاصی گرفت کی جنہیں فرنچائزی اسلامی تعلیمات کے نام پر صدیوں سے فروخت کرتے آرہے ہیں۔ انہوں نے "مدونین فقہ" پر بھی بہت سارے سوالات اٹھائے۔ معاملات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھا اور اپنی رائے دی۔
مجھے ہمیشہ ان کی اس بات نے متاثر کیا کہ "ہم تو طالب علم ہیں ہمارا کام رد کرنا نہیں بلکہ سوال اٹھانا ہے اور جن سوالات کے جواب شعور کی کسوٹی پر پورے اترے انہیں ترتیب وار پڑھنے والوں کے سامنے رکھنا ہے"۔
یہاں ساعت بھر کےلئے رکئے مجھے استاد مکرم سید عالی رضوی مرحوم یاد آگئے۔ استاد شاگرد مشرق لاہور اور پشاور کے ماہ سال میں اداریہ نویسی اور ادارتی صفحہ کی دیگر ذمہ داریوں سے فراغت پاتے ہی باقی ماندہ دفتری اوقات میں اپنی دنیا سجالیتے تھے زیادہ تر طالب علم ہی سوال کرتا اور عالی صاحب جواب دیتے۔
پاکستان کی اردو صحافت میں ان سے بڑا اداریہ نویس اگلی کئی صدیوں میں بھی جنم نہیں لے پائے گا۔ وسیع مطالعہ تو تھے ہی تقابلی مطالعہ اتنا شاندار تھا کہ کسی بھی موضوع پر دلائل کے انبار لگا دیتے اور سننے والے عش عش کراٹھتے۔
میں جب برادرم سید ناصر نقوی کی مہربانی سے مساوات کی کالم نگاری چھوڑ کر مشرق لاہور پہنچا تو بزرگ صحافیوں کی بڑی تعداد گولڈن شیک ہینڈ کرکے رخصت ہوچکی تھی۔ عزیز مظہر، سید سرفراز شاہ اور دیگر بزرگ عالی صاحب کو ملنے اکثر تشریف لاتے۔
سید فرہاد زیدی جب کبھی لاہور آتے تو ایک دو دن قبل سیدی کو فون کرکے ملاقات کا وقت جوکہ عموماً دوپہر میں ہی ہوتا طے کرلیتے تھے۔ زیدی صاحب سے بھی استاد مکرم سید عالی رضوی کی بدولت چند ملاقاتیں ہوئیں۔
ان بزرگوں کی استاد مکرم سے ملاقاتیں اس لئے یادگار ہوا کرتی تھیں کہ وہ چند ہی لمحے بعد تاریخ، فلسفے، سیاست، تقابلی ادیان یا کسی اور موضوع پر لقمہ دیتے۔ عالی صاحب حسب دستور مخصوص جملہ اچھالتے اور اس موضوع پر بے تکان بولتے چلے جاتے۔ اپنے دوستوں سے گفتگو کے دوران سانس لینے کے لئے رکتے تو یہ ضرور کہتے "یار اس میرے ذاکر نوں سمجھائو قلم مزدوری لئی مطالعہ اور ضبط دونوں لازمی ہیں"۔
بلاشبہ بعد کے برسوں میں ان کی یہ بات نہ صرف بہت کام آئی بلکہ کئی بار ضبط نے حوادث سے محفوظ رکھا۔
ریاض بٹالوی مرحوم کبھی کبھی عالی صاحب سے کہتے، عالی صاحب یہ آپ حیدر پر کچھ زیادہ توجہ نہیں دیتے، چہرے پر سجی عینک کو کچھ نیچے کی طرف کھسکا کر مشرق میں ضرب المثل بن چکا اپنا جملہ اچھال کر کہتے "مریں بُڈھے ویلے دی اولاد تے شاگرد بہت عزیز ہوندے نے"۔
عالی صاحب شاندار انسان تھے۔ مشرق میں چیف ایڈیٹر کے منصب تک پہنچے۔ بنیادی طور پر اداریہ نویس تھے اردو صحافت میں انہوں نے اداریہ نویس کے طور پر ہی عملی صحافت کا آغاز کیا تھا۔ اس سے قبل چند ہفتے ضلع کچہری راولپنڈی میں وکالت بھی کی لیکن وکالت ان کے مزاج سے لگا نہ کھاسکی۔
لکھنے پڑھنے کو حصول رزق کا ذریعہ بنایا۔ ترقی پسند شعور کے حامل سیدی عالی رضوی ان چند محدود لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے صرف عزت کمائی۔ وہ بھلے وقت تھے خود بھی بھلے مانس انسان تھے۔ ایک شاگرد کی حیثیت سے ان کی شفقت و محبت کے ساتھ بے پناہ اعتماد بھی پایا۔
یہ استاد مکرم کا اعتماد ہی تھا کہ محض پندرہ بیس دن کی تربیت اور نگرانی کے بعد آنکھوں کا آپریشن کرانے کے لئے ایک ماہ کی چھٹی لے لی۔ سید ممتاز شاہ اور ریاض بٹالوی نے کہا "عالی صاحب آپ کی چھٹی سے بہت مسائل پیدا ہوں گے بالخصوص اداریہ نویسی کے حوالے سے " انہوں نے شفقت کے ساتھ میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگے آپ دونوں فکر نہ کریں یہ میرا مجاہد سنبھال لے گا۔
سید یوسف عباس مرحوم کے علم و فہم کی باتیں ہورہی تھیں درمیان میں استاد مکرم سید عالی رضوی کا ذکر خیر آگیا۔ آپ یادوں کی دستک پر پابندی نہیں لگاسکتے۔ زندہ انسان کو ماضی کی ملاقاتیں، شخصیات اور باتیں یا واقعات کب بھولتے ہیں۔
ہمارے مرحوم دوست سید حسن رضا شاہ بخاری المعروف رضو شاہ بھی کمال کے انسان تھے۔ حافظہ بہت اچھا تھا۔ تاریخ اور بالخصوص انڈس ویلی میں آباد قوموں کی تاریخ اور قوم پرستی کی سیاست پر گفتگے کرتے تو ایسا لگتا تھا کہ رضو شاہ موتی لٹارہے ہیں۔ رضو شاہ اور اسلم جاوید کا "ملاکھڑا" دیکھنے سننے والا ہوتا تھا۔
گزرے ماہ و سال کے دوران میں نے جو چند برس ملتان میں بسر کئے ان برسوں میں ہم تقریباً روزانہ ملتان پریس کلب میں اکٹھے ہوتے خوب مجلس جمتی۔ پرانی یادوں، دوستوں کی باتوں، سیاست اور سرائیکی تحریک پر ڈھیروں باتیں ہوتیں۔ رضو شاہ بھی مطالعے کے رسیا تھے۔
گزری شب اور شب بیداری کے بعد جو پڑھتے ملاقات میں اسے ضرور زیربحث لاتے۔ کبھی کبھار اس مجلس میں منصور کریم سیال، محمود نظامی مرحوم، اسلم جاوید اور کچھ دیگر دوستوں کے آجانے سے رونق بڑھ جاتی۔ تب گفتگو ایسے مرحلے طے کرتی جو عام زندگی میں اس لئے ممکن نہیں کہ ایک تو لوگوں کا ہاضمہ اچھا نہیں دوسرا تنگ نظری ہر شخص کے اندر اتنی رچ بس گئی ہے کہ وہ اپنی بات کو حتمی سمجھتا ہے۔ اس زعم نے ایسی خرابی پیدا کی ہے کہ اب بات کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔
سید یوسف عباس مرحوم نے اپنی تصانیف میں بعض اسرائیلی روایات کا بے رحمی سے پوسٹ مارٹم کیا۔ برصغیر کے اردو دان طبقے میں سے جو لوگ آقائے سید مرتضیٰ عسکری سے ان کی تصانیف کی معرفت متعارف ہوئے وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ سید مرتضیٰ عسکری نے بھی اسرائیلیات سے تعمیر کئے گئے بتوں کو تحقیق کے نشتروں سے پاش پاش کر کے رکھ دیا۔
یہ سطور لکھتے ہوئے یاد آیا کہ آج اردو کے بلند قامت شاعر اور نثر نگار سیدی جون ایلیا مرحوم کا یوم وفات ہے۔ انہوں نے تصوف، اسماعیلی فہم، تاریخ، حسین بن منصور حلاجؒ اور دیگر موضوعات پر بے پناہ کام کیا۔ بدقسمتی سے بہت سارا کام کتابی صورت میں مرتب نہیں ہوسکا۔ بالخصوص حسین بن منصور حلاج، تصوف اور اسماعیلی مکتب کی تفہیم و فہم پر۔
ان کی شاعری کے مجموعے مرتب کرنے والوں کے پاس اگر ان تاریخی تحاریر کے مسودے ہوں تو انہیں ضرور شائع کروائیں، پڑھنے والے "فرنود" کی طرح انہیں بھی ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ لیجئے، فقیر راحموں کی بات پوری ہوئی آج کچھ مختلف باتیں ہوگئیں۔ اساتذہ، بزرگوں اور دوستوں کا تذکرہ، ان کی یادیں بھی سرمایہ حیات ہیں۔