Azadi e Izhar Madar Pidar Azadi Nahi Hai
آزادی اظہار مادر پدر آزادی نہیں ہے
پچھلے آٹھ دس دن بخاری کو بخار نے یوں دبوچے رکھا کہ رہے نام خدا کا۔ بخار اتارنے کی ادویات نے جو نئے مسائل پیدا کردیئے۔ وہ بخار سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئے۔
اس عرصہ میں فقط اداریہ نویسی کی ذمہ داریاں مشکل سے ادا کرپایا۔ یہ مشکل سے زیادہ مجبوری رہی۔ ذرائع ابلاغ اور خصوصاً اخبارات کی دنیا سے متعلق دوست اس مجبوری کا اندازہ کر سکتے ہیں۔
ہفتہ بھر سے اوپر کی غیرحاضریوں پر کچھ دوست احباب نے ٹیلیفونک رابطوں کے ذریعے خیریت دریافت کی اس عرصہ میں گزشتہ ایک کالم کے مندرجات پر چند دوستوں کے سوالات بھی ہیں۔ ان سے یہی عرض ہے کہ اپنی زندگی کے اتار چڑھائو (سفر حیات) پر اکثر لکھتا رہتا ہوں۔ اب جو سوال ہیں ان کا جواب قبل ازیں لکھے گئے کالموں میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔
مکرر عرض کرنے کا فائدہ کوئی نہیں۔ کچھ انتظار کیجئے آپ بیتی لکھ رہا ہوں وہ پڑھ لیجئے گا۔
سیاست کا ماحول ویسا ہی ہے جیسا علالت سے قبل تھا اس دوران "نیا فلسفہء شرک" مارکیٹ میں آیا ہے اس لئے اب بعض باتیں کرتے ہوئے احتیاط واجب ہوگی کہ کہیں شرک سرزد نہ ہوجائے۔
طبیعت اب پہلے سے کچھ بہتر ہے ہمت جمع کرکے کالم لکھنے بیٹھا ہوں لیکن لکھا کیا جائے۔ اس بارے کافی دیر سے سوچ رہا ہوں۔ آپ روزانہ لکھ رہے ہوتے ہیں تو قلم رواں اور موضوعات حاضر، وقفہ آجائے تو پھر "یک" سے شروع کرنے والی بات ہی ہے۔
ویسے بھی آج اتوار ہے۔ خیر مزدور بندے کا اتوار کیا اور جمعہ کیا جس نے تازہ کرکے چولہا جلانا ہو اس کے لئے ہر دن کیا کوئی دن بھی عید نسیت۔ یہی محنت کشوں کی زندگی کاالمیہ ہے۔ دو دن محنت مزدوری کرتے اور دو دن مزدوری تلاش کرتے ہوئے کٹتے ہیں۔
ویسے تو ہجری سال کے سارے مہینے اپنی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں لیکن چند ماہ ایسے بھی ہیں جن میں دین داروں کے ساتھ دینداروں کا بھی رزق لگ جاتا ہے اور کمرشل لبرل خواتین و حضرات کو بھی اصلاح معاشرہ کا جوش چین نہیں لینے دیتا سو وہ ان چند مہینوں کے آغاز کے ساتھ جی کی بھڑاسیں نکالنے کے لئے ایسے ایسے قصے گھڑ کے لاتے ہیں کہ آدمی حیران ہوتا ہے کہ ایسی چنگاریاں بھی "دامن کمرشل دانش" میں تھیں اور ہمیں پتہ ہی نہیں چلا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قصے گھڑنے والوں میں زیادہ تر وہ ہوتے ہیں جو عام زندگی میں مذہب و عقیدے کو فرد کا نجی معاملہ قرار دیتے ہیں لیکن اپنے اندر موجود دوسرے عقیدوں کے لئے جماندرو بغض سے نجات حاصل نہیں کرپاتے۔
پچھلے دس بارہ برسوں سے سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے تقریباً ہر سال ایسی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے تو تب مجھے موداں مصلن کا بیٹا شیدو یاد آجاتا ہے جس نے اپنی اماں سے وستی میں مشہور ہونے کا نسخہ دریافت کیا تھا۔ چلیں موداں اور شیدے کا قصہ رہنے دیجئے۔
سچ یہی ہے کہ مذہب و عقیدہ فرد کا نجی معاملہ ہے لیکن یہ تب تک جب کوئی شخص حدود سے تجاوز کا مرتکب نہ ہو۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ دوسروں کے عقائد کا تمسخر اڑاتے پھریں اور جواب ملنے پر کہیں کہ یہ کیا بات ہوئی؟
آزادی اظہار مادر پدر آزادی کو ہرگز نہیں کہتے آزادی اظہار کا سادہ سا مطلب ہے وہ یہ کہ احترام کیجئے احترام پایئے۔ سنگ زنی کے جواب میں غالب و میر کا کلام کوئی نہیں سناتا۔
ہمیں بہت پہلے اساتذہ نے یہ سمجھادیا تھا کہ زندگی جانوروں کی طرح ٹکریں مارتے رہنے کو نہیں بلکہ عصری شعور کے ساتھ بسر کرنے کو کہتے ہیں۔ فرد کے نجی معاملات میں ٹانگ اڑانے (عقائد ان میں شامل ہیں) سے دوطرفہ تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔ تعلقات کا حسن ادب آداب، احترام اور برداشت ہے۔ یہ نہ ہوں تو اچھا بھلا سماج جہنم کا نمونہ بن جاتا ہے۔
اس پر بحث نہیں کہ سماج ہے یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ سماج کی شعوری تشکیل میں آپ کا اور میرا حصہ کیا ہے؟ ہم میں سے ہر شخص کو اس سوال پر غور کرنا چاہیے تبھی جواب حاصل کرپائیں گے۔
میری دانست میں سماج کی شعوری تشکیل کے لئے علم اور مکالمہ کی اہمیت ہے مگر اس سے قبل برداشت بہت ضروری ہے۔ برداشت مطلب دوسرے کے وجود کو اس کی فہم کے ساتھ قبول کرنا۔ تبھی تو لوگ آپ کو اپنے درمیان قبول کریں گے ورنہ تنہائی کا عذاب مسلط ہوگا۔
ہمارے استاد مکرم سید عالی رضویؒ فرمایا کرتے تھے "فقط مطالعہ کرتے رہنا کافی نہیں ہے، اصل امتحان یہ ہے کہ جو آپ نے پڑھا سمجھا اس کی جھلک آپ کی زندگی میں بھی دیکھائی دے"۔
دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ اگر مطالعہ بدہضمی پیدا کردے تو آپ کی یہ بیماری اپنے چار اور کے ماحول کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ یعنی ہمیں یہ بات بطور خاص سمجھنا ہوگی کہ معاشرے کی تشکیل اور اقدار کا تحفظ ہر شخص کی ذمہ داری ہے خاص و عام کا معاملہ بالکل نہیں۔
تواتر کے ساتھ ان سطور میں عرض کرتا رہتا ہوں کہ نظام ہائے حکومت کی تشکیل اگر غیرمذہبی بنیادوں پر ہو تو انصاف و مساوات کے اعلیٰ اصولوں کی پاسداری میں کوئی امر مانع نہیں۔ مذہبی ریاست کا مطلب جانبداری ہے۔ ہم اورآپ جس معاشرے کا حصہ ہیں یہاں موجود تقسیم در تقسیم کسی سے پوشیدہ نہیں مسالک کی بنیاد پر تقسیم مسلمہ حقیقت ہے۔ اسی طرح مصنوعی قومیت کے مقابلہ میں ہزاریوں سے موجود قدیم قومی شناختیں زندہ حقیقت کے طور پر موجود ہیں۔
اس معاشرے کی یکجہتی کو برقرار رکھنے کے لئے ایک ایسے عادلانہ نظام کی ضرورت ہے جو تعصبات و امتیازات سے محفوظ ہو۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انکار نے تقسیم کی بنیاد رکھی۔ ایک عقیدہ دوسرے عقیدے کے انکار پر قائم ہوتا ہے۔ اس صورت میں جو ریاست اعتدال و توازن اور انصاف کو برقرار نہیں رکھ پائے گی اس کی جغرافیائی حدود میں مسائل تعصبات کا رزق بنتے رہیں گے۔
اختلاف رائے سماج کے ارتقائی مراحل میں معاون بنتا ہے لیکن اختلاف رائے اگر دلیل سے عاری ہو تو عذاب بن جاتا ہے۔
انسانی سماج کی وحدت برداشت سے مشروط ہے۔ معاف کیجئے گا کچھ نہیں بلکہ پورا کالم ہی بوجھل بوجھل سا ہوگیا لیکن کیا ہمیں اور آپ کو ان باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں؟
بالکل ہے وہ باتیں بھی کرنی چاہئیں جن سے لوگ دامن بچاکر گزرجاتے ہیں۔ باتیں کرنی چاہئیں لاٹھی چارج ہرگز نہیں۔
ان دنوں دوسرے مسائل کے ساتھ سب سے سنگین مسئلہ طوفانی بارشوں اور سیلاب سے پیدا ہوئی ابتری ہے۔ سرائیکی وسیب اور بلوچستان کے بڑے حصے کے ساتھ سندھ اور دوسرے علاقوں میں اب تک (آج تک) تقریباً 3سو افراد بارشوں سے متاثرہ علاقوں میں جاں بحق ہوچکے، ہزاروں مکانات اور سینکڑوں بستیاں مٹ گئیں۔ ہزاروں خاندان بے یارومددگار کھلے آسمان کے نیچے پڑے ہیں۔ این ڈی ایم اے نامی "کمائو" ادارے کا دور دور تک پتہ نہیں۔ فقیر راحموں کے بقول یہ ادارہ تب "جان" پکڑتا ہے جب یہ پتہ ہو کہ امداد ڈالروں میں ملنی ہے۔
مقامی کرنسی کی چونکہ ویلیو نہیں ہے اس لئے این ڈی ایم اے آرام فرمارہا ہے۔ طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلے سے متاثرہ علاقوں میں لوگوں پر کیا گزر رہی ہے یہ وہی جانتے ہیں جو متاثرین میں شامل ہیں۔ درخواست ہی کی جاسکتی ہے کہ حکومت اور مخیر خاندانوں کو آگے بڑھ کر اپنے تباہ حال بہن بھائیوں کی مدد کرنی چاہیے۔