America Ki Chakri Se Fashioni Mukhalfat Tak
امریکہ کی چاکری سے فیشنی مخالفت تک
یہ ایکس سروس مین سوسائٹی (عسکری محکموں کے سابق ملازمین) اب ہمیں سمجھارہے ہیں کہ ملک کے خلاف امریکہ نے بہت بڑی گھنائونی سازش کی ہے اس سازش کو ناکام بنانے کے لئے عمران خان کا ساتھ دیا جائے۔
پچھلے دنوں چند سابق جنرل صاحبان کی کچھ ویڈیوز سوشل میڈیا کی زینت بنیں۔ بہت شور سنا پہلو میں دل کا پھر ان صاحبان نے تردیدی ویڈیو پیغام سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر کے بتایا کہ پہلی ویڈیوز جعلی اور ملک دشمنوں کی کارستانی تھی۔ ایک صاحب تو اپنی پرانی ویڈیو کو سازش ثابت کرنے کے لئے دور کی کوڑی لائے اور بولے "یہ سب بھارتی خفیہ ایجنسی کا کیا دھرا ہے"۔
صدقے بلکہ اشکے، سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہوتے ہی بندہ کیسے فرفر بھارتی سازش کو بے نقاب کرتا ہے۔ یہ ایکس سروس مین سوسائٹی والے پتہ نہیں ابھی تک اس زعم سے جان کیوں نے چھڑاپائے کہ روئے زمین پر صرف وہی عقل مند و محب وطن ہیں اور انہوں نے ہی پاکستان کی قومی سلامتی کو کاندھوں پر اٹھارکھا ہے۔
یہ نہ ہوتے تو پتہ نہیں کیا ہوجاتا۔ ہونا ہوانا کچھ نہیں، سارے مسائل نہ ہی سہی 90فیصد مسائل ان کے ہی پیدا کردہ ہیں۔
جولائی سے ستمبر 1976ء کے درمیان اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے اسلام آباد میں امریکی سفیر لگ بھگ تین بار ملے دو بار ون ٹو ون ملاقات ہوئی اور ایک بار سی آئی اے کے اس وقت کے سربراہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔
ان تینوں ملاقاتوں میں بھٹو صاحب کو خطے میں تبدیلیوں کے امکانات اور اطلاعات پر بریف کیا گیا۔ امریکی تعاون کے طلبگار تھے۔ بھٹو صاحب نے انہیں کورا جواب دیا اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کے لئے تاریخ موجود ہے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے۔
جولائی 1977ء میں بھٹو صاحب کا تختہ الٹ کر جنرل ضیاء نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ ان کے دور میں پاکستان آزاد روی ترک کرکے ایک بار پھر امریکی کیمپ کا پرجوش اتحادی بلکہ فرنٹ لائن اسٹیٹ بن گیا۔
امریکی ڈالروں اور اسلحہ سے ہوئے افغان جہاد میں مغرب اور عرب دنیا ہمارے جذبہ ایمانی کی معترف رہی۔ ایک وقت آیا امریکہ پتلی گلی سے نکل گیا۔
جنیوا معاہدہ کے تحت سوویت یونین افغانستان رخصت ہوا، جنرل ضیاء جنیوا معاہدہ نہیں چاہتے تھے۔ وہ خود کو محمود غزنوی ثانی سمجھنے لگے اور دریائے آمو کے اُس پار ٹینک دوڑانے کی آرزووں کے اسیر تھے۔
اسی عرصہ میں اوجڑی کیمپ سانحہ ہوا۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو نے تحقیقاتی کیمشن قائم کیا۔ کمیشن کی رپورٹ کی کاپی وفاقی وزیر اسلم خٹک نے جنرل ضیاء الحق تک پہنچادی۔ وزیراعظم جونیجو نے چین کے دورہ سے واپسی پر اس رپورٹ کی بنیاد پر جن لوگوں کو رخصت کرنا تھا جنرل ضیاء نے ان کے مشورہ پر جونیجو حکومت رخصت کردی۔
وزیراعظم چین کے دورہ سے واپس اسلام آباد پہنچے تو انہیں برطرفی کا بتادیا گیا۔ اگست 1988ء میں جنرل ضیاء طیارے کے ایک حادثے میں رخصت ہوگئے۔
اٹھاسی سے ننانوے کے درمیان دوبار پیپلزپارٹی، دو بار نواز لیگ اقتدار میں آئے۔ ان دس برسوں کے دوران افغانستان میں خانہ جنگی ہوتی رہی پھر ملاراکٹی سے شروع ہوئی بھتہ خوری کی کوکھ سے طالبان نے جنم لیا اور بالآخر وہ افغانستان پر قابض تو ہوئے لیکن خانہ جنگی کسی نہ کسی صورت جاری رہی۔
9/11 کے بعد امریکہ افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ ہمارے یہاں اکتوبر 1999ء میں جنرل پرویز مشرف اقتدار پر قبضہ کرچکے تھے۔ لگ بھگ 20سال جو لوگ ہمارے لئے مجاہدین تھے اب وہ دہشت گرد قرار پائے۔
یہ تمہید اس لئے ضروری تھی کہ افغان پالیسی کے دونوں ادوار امریکہ نوازی بلکہ یوں کہہ لیجئے امریکہ کے لئے معاوضہ پر خدمات کے ادوار میں۔ (یہ ایکس سروس مین سوسائٹی والے زیادہ تر انہی دو ادوار کے لوگ ہیں) ایک وقت تھا جب جنرل ضیاء الحق کی جہادی پالیسی کو پاکستان کے اجتماعی مفادات کے خلاف قرار دینے والے ان عسکری دانشوروں کے نزدیک غدار اور اسلام دشمن سوویت یونین کے پٹھو تھے پھر دوسرا دور آیا جب جنرل مشرف کی افغان پالیسی سے اختلاف کرنے والے ان عسکریوں کے نزدیک امن و انسانیت اورپاکستان کے دشن قرار پائے۔
دوران ملازمت ان میں سے کچھ نے امریکہ نواز افغان پالیسی کا ایک دور اور کچھ نے دونوں دور دیکھے اور خدمات بھی سرانجام دیں۔ ان میں سے کسی ایک شخص نے کسی بھی سطح پر ریاست کی پالیسی سے اختلاف کی جرأت نہیں کی بلکہ معاشرے کے مختلف طبقات میں سے جس کسی نے ریاستی پالیسیوں کی مخالفت کی وہ ان کے نزدیک زندیق، غدار اور نجانے کیا کیا ٹھہرے۔
آج یہی پرانے امریکی خدمت گار ہمیں سمجھارہے ہیں کہ امریکہ نے پاکستان کے خلاف بڑی گہری اور گھنائونی سازش کی ہے اس لئے عمران خان کا ساتھ دو۔
اس تحریر نویس کا تعلق پاکستانی ریاست کی افغان پالیسی کے متاثرین میں سے ہے اس لئے یہ حق حاصل ہے کہ ان سابق عسکریوں سے یہ سوال کیا جائے کہ کیا ان میں سے جنہوں نے افغان پالیسی کے "ثمرات" وصول پائے وہ ان "ثمرات" سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں۔
کیا ان میں سے جن کے بچے اور بہن بھائی امریکہ وغیرہ میں "آباد" ہیں یہ انہیں واپس بلوارہے ہیں تاکہ وہ بھی یہاں امریکہ مخالف جہاد میں شامل ہوں؟ کیا ہر دو ادوار کی افغان پالیسی کے فیض و کرم سے امریکہ میں جائیدادیں بنانے والے ان جائیدادوں کو بیچ کر رقم ملکی خزانہ میں جمع کروانے پر تیار ہیں؟
نہیں تو کیا ہمارا ہاتھ چکی میں آیا ہوا ہے کہ پہلے ان کے جہادی مشن اور انسداد دہشت گردی کی جنگ میں ہم نے اپنے پیارے مروائے اب پھر ان کی باتوں میں آکر امریکہ مخالف تحریک کا حصہ بنیں۔ عیش یہ کریں اور ہر حال میں مریں ہمارے بچے اور پیارے۔
اس لئے پیارے عسکری دانشورو جس کو امریکہ مخالفت کا "وارے کا بخار" چڑھا ہوا ہے وہ جذباتی ویڈیو پیغام نشر کرنے کی بجائے نکلے خود میدان میں مگر اس سے پہلے امریکیوں کے "فیض و کرم" سے حاصل کی گئی ہر چیز قومی خزانے میں جمع کروائے۔ چالیس سال تک امریکہ کی تابعداری کرنے اور اس ملک کے بچے پہلے جہاد میں اور پھر دہشت گردوں کے ہاتھوں مروانے پر معافی مانگے۔
گو ان کی معافی سے ہمارے پیارے زندہ ہوکر گھروں کو واپس نہیں آجائیں گے پھر بھی یہ تسلی تو ہوگی کہ ہمارے عسکری دانشوروں نے اپنی غلطیوں کا برملا اعتراف کیا۔
اب آیئے اس فیشنی امریکہ مخالف تحریک پر بات کرتے ہیں جن پر عسکری دانشوروں کے جذبات قابو میں ہی نہیں آرہے۔ اس وقت معاشرےمیں تین طرح کے لوگ امریکہ مخالفت میں پیش پیش ہیں ایک تو یہی سابق عسکری ملازمین، دوسرا انصافی طبقہ جن کا خیال ہے کہ امریکہ نے سازش کرکے عمران خان کو اقتدار سے نکلوایا ہے۔ تیسرا ایک مخصوص فہم کا حامل طبقہ جسے امریکہ دشمنی کا بخار پچھلے چالیس برسوں سے "پرائی" محبت میں چڑھا ہوا ہے۔
تینوں طبقات کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ ان تینوں سے سوال کیجئے کہ چلیں امریکہ سے نجات حاصل کرلی پھر کیا ہوگا؟ یہ جو مومن ہے بغیر تلوار کے لڑتا ہے سپاہی والی بات ہے یہ کتابوں اور نعروں میں ہی اچھی لگتی ہے۔
کرہ ارض کے سارے ممالک ایک دوسرے سے معاشی و سیاسی مفادات پر تعلقات رکھتے ہیں۔ ہمیں بھی امریکہ اور دوسروں کے ساتھ معاشی اور سیاسی مفادات پر مبنی تعلقات رکھنے چاہئیں۔ چالیس برس ہم نے امریکہ کی تابعداری میں خود کو برباد کیا "فیض و کرم" مخصوص لوگوں کے حصے میں آیا۔
اب ہم ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر خود کو امریکہ کی مخالفت میں جھونک دیں، آخر کیوں؟
چار میں سے دو پڑوسیوں سے ہمارے تعلقات سردمہری ایک سے "جماندرو نفرت" سے عبارت ہیں ایک (چین) نے پچھلے ساڑھے تین برسوں کے دوران ہماری اسٹیبلشمنٹ پر واضح کیا کہ سی پیک وغیرہ کا "حشر" امریکہ کی خوشنودی کے لئے کیا جارہا ہے۔
اس لئے بھلے لوگو اپنے بنگلوں اور مخصوص سوسائٹیوں میں آرام کرو ہمیں ہمارے حال پر چھوڑدو۔
ہمارے حصے کی عقل اور حب الوطنی تم ہی لے کر پیدا نہیں ہوئے۔ ہم بھی اپنا اچھا برا سمجھتے ہیں۔ اس ملک کو ایک قومی جمہوری ملک ہونا چاہیے، امریکہ یا کسی اور طاقت کا تابعدار نہیں اور ناہی اس ملک کی باگیں اب تمہارے ہاتھوں رہنی چاہیں، بس یہی ہماری خواہش ہے۔