Tuesday, 24 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Fakhar Alam Qureshi
  4. Gb Mein Aaj Bhi Jirga Ko Taqatwar Idara Samjha Jata Hai

Gb Mein Aaj Bhi Jirga Ko Taqatwar Idara Samjha Jata Hai

جی بی میں آج بھی جرگہ کو طاقتور ادارہ سمجھا جاتا ہے

گلگت بلتستان کا قبائلی نظام، خصوصاً جرگہ، آج بھی ایک معتبر اور مؤثر ادارہ ہے جو معاشرتی تنازعات کے حل، انصاف کے قیام اور امن و استحکام میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کے تناظر میں قبائلی تنازعات نے جس طرح سے یہاں کے امن و سکون کو متاثر کیا ہے، وہ اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ حکومتی ادارے بروقت اور موثر مداخلت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ زمینوں کے جھگڑوں اور قبائلی دشمنیوں نے علاقے کو عدم استحکام کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے، جہاں ہر لمحہ مسلح تصادم کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔

ان قبائلی تنازعات کی شدت اور پیچیدگی کو ختم کرنے کے لیے گزشتہ دنوں ڈپٹی کمشنر دیامر کی ذاتی دلچسپی اور اداروں کے تعاون سے ایک تین رکنی جرگہ تشکیل دیا گیا ہے، جرگہ اراکین میں دیامر سے معروف عالم دین، مولانا سید سرور شاہ، کوہستان سے مولانا عزیز الرحمن اور مولانا محمد وارث شامل ہیں۔ یہ جرگہ علاقے کے مسائل اور قبائلی تنازعات کو باہمی گفت و شنید اور مصالحت کے ذریعے حل کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر دیامر اور اداروں کے اس دانشمندانہ اقدام کو نہ صرف عوامی سطح پر سراہا گیا، بلکہ تمام قبائلی معززین اور اسٹیک ہولڈرز پرامید ہیں کہ اس تین رکنی جرگہ انصاف، دیانت اور قبائلی رسم و روایات کے مطابق اپنے فیصلے صادر کرےگا۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ جرگہ کا بنیادی فلسفہ اسلامی اصولوں، قبائلی روایات اور تجربات پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ ادارہ نہ تو عدالتی ضابطوں کا محتاج ہوتا ہے اور نہ ہی وکلاء یا ججوں کی ضرورت محسوس کرتا ہے، بلکہ یہاں فیصلے اجتماعی دانش اور تجربے کی روشنی میں کیے جاتے ہیں۔ جرگہ کی روایت صدیوں پرانی ہے اور اسے معاشرتی انصاف اور امن کے قیام میں مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ یہ ادارہ عوامی اعتماد کا مرکز ہے اور قبائلی تنازعات کے حل میں حکومت کے لیے بھی ایک اہم ذریعہ ثابت ہوا ہے۔

دیامر بھاشا ڈیم کا منصوبہ جہاں ملکی ترقی کے لیے اہم سنگ میل ہے، وہاں قبائلی تنازعات اور زمینوں کے جھگڑوں نے اس کی تعمیراتی رفتار کو سست کر دیا ہے۔ ان تنازعات میں تھور اور ہربن کے قبائل کے درمیان چلنے والا صدیوں پرانا سرحدی جھگڑا سب سے زیادہ نمایاں رہا ہے۔ کئی جانوں کی قربانیوں کے بعد بھی حکومتی مداخلتیں ناکام ثابت ہوئیں اور آخرکار جرگہ ہی نے اس مسئلے کو حل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

یہ 26 رکنی جرگہ، جس میں قبائلی معززین اور علماء شامل تھے، نے دونوں فریقین کو ایک معاہدے پر متفق کیا جس کے نتیجے میں نہ صرف خونریزی کا سلسلہ تھم گیا بلکہ تعمیراتی کام دوبارہ شروع ہو سکا۔ جرگے کی اس کامیابی سے یہ ثابت ہوا کہ باہمی گفت و شنید اور مصالحت سے مسائل کا حل نکالنا ممکن ہے، بشرطیکہ تمام فریقین نیک نیتی اور انصاف کے اصولوں پر عمل کریں۔

قبائلی معاشروں میں جرگہ کا مقام ہمیشہ بلند رہا ہے۔ یہ نہ صرف معاشرتی انصاف کا ضامن ہے بلکہ معاشرتی اتحاد اور استحکام کا محافظ بھی ہے۔ دیامر کے قبائل میں بھی جرگہ کی یہی حیثیت ہے، جہاں صدیوں پرانی دشمنیاں آج بھی موجود ہیں، لیکن جرگے کی مداخلت سے بڑے تنازعات کا حل ممکن ہو جاتا ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کے تناظر میں بھی جرگہ ہی وہ پلیٹ فارم ثابت ہوا جس نے علاقے میں امن اور استحکام کو بحال کیا۔

حکومتی ناکامیوں کے باوجود، جرگہ ہمیشہ سے عوامی اعتماد کا حامل رہا ہے اور اس کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جب حکومتی ادارے مسائل کے حل میں ناکام ہوتے ہیں، تو جرگہ ہی وہ ذریعہ بنتا ہے جو تنازعات کو باہمی گفت و شنید اور مصالحت کے ذریعے حل کرتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جرگہ آج بھی ایک طاقتور اور مؤثر نظام ہے جو نہ صرف عوام میں مقبول ہے بلکہ حکومتی فیصلوں کی کامیابی میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔ دیامر کے قبائلی مسائل کا حل جرگے کے ذریعے نکالنا ایک دیرپا حل ہے، جو نہ صرف عوامی اعتماد کو بحال کرتا ہے بلکہ علاقے میں ترقیاتی منصوبوں کی راہیں بھی ہموار کرتا ہے۔

Check Also

Jordan

By Sami Ullah Rafiq