Friday, 01 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Fakhar Alam Qureshi
  4. Diamer Mein Operation Kamyabi Ya Intishar Ka Beej

Diamer Mein Operation Kamyabi Ya Intishar Ka Beej

دیامر میں آپریشن کامیابی یا انتشار کا بیج

یہ بات طے ہے کل فوج سب کو نہیں مار سکتی، اگر بروقت مذاکرات کامیاب ہوتے تو آپریشن کی نوبت نہیں آتی! اس فکر انگیز جملے میں دیامر کی صورتحال کا عکاس جھلکتا ہے۔ کہاں پر امن مذاکرات کی اہمیت کو نظرانداز کیا گیا، اور کہاں غیر سنجیدگی نے صورتحال کو اس مقام پر پہنچا دیا جہاں آج ہم کھڑے ہیں۔ جرگوں کا سلسلہ جاری رہا، لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات رہا۔ نہ تو طالبان نے خود کو سرنڈر کیا اور نہ ہی مذاکرات نے کوئی ٹھوس راستہ نکالا۔

ابتداء سے ہی اگر ایک مضبوط اور مستقل جرگہ قائم کیا جاتا، تو شاید امن کی کوئی راہ نکل آتی۔ مگر تاخیری حربوں نے دیامر کی زمین پر طالبان کی تعداد کو پندرہ سو تک پہنچا دیا۔ اب فوج کس کس کو مارے گی؟ اگر آپریشن کا دائرہ وسیع کیا گیا تو کیا انتشار کم ہوگا یا بڑھے گا؟ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ایسے حالات میں دشمن کے ساتھ ساتھ عام عوام بھی متاثر ہوتے ہیں۔

فورس کمانڈر گلگت بلتستان میجر جنرل کاشف خلیل کی شعلہ بیانی کہ "جو بھی آپریشن میں مداخلت کرے گا اسے اٹھا لیا جائے گا" اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ ہر حال میں آپریشن چاہتے ہیں، چاہے عوام سپورٹ کریں یا نہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ علماء دیامر ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں، لیکن اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو بھی فوج آپریشن ضرور کرےگی۔

امن کیلئے اگر آپریشن ضروری ہے، یا اگر مقامی طالبان میگا منصوبوں میں رکاوٹ بن رہے ہیں، تو یقیناً فوج کو ٹارگٹڈ آپریشن کرنے چاہئیں۔ تاہم، اس آپریشن کی آڑ میں بےگناہ لوگوں کو نشانہ بنانا یا تنگ کرنا اپنے لئے گڑھا کھودنے کے مترادف ہوگا۔ داریل میں فوجی آپریشن کے بعد عوام کا رویہ اور ردعمل اس بات کا گواہ ہے کہ عوام میں فوج کے خلاف کدورت بڑھ سکتی ہے۔

لہذا، آپریشن کے دوران انتہائی سنجیدگی اور احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھایا جائے تاکہ امن کی راہ ہموار ہو اور عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ امن کے نام پر کیے جانے والے اقدامات ہی امن کی راہ میں رکاوٹ بن جائیں۔

مذاکرات کی ناکامی کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، جن میں سب سے اہم دونوں فریقین کی غیر سنجیدگی اور عدم اعتمادی ہے۔ ہر روز نیا جرگہ تشکیل دینا، اور ان جرگوں کا بغیر کسی نتیجے کے اختتام پذیر ہونا، یہی ظاہر کرتا ہے کہ مذاکرات کے عمل میں سنجیدگی کی کمی تھی۔ طالبان کی جانب سے خود کو سرنڈر نہ کرنا، اور حکومت کی جانب سے مذاکرات میں تاخیری حربے استعمال کرنا، اس صورتحال کو بدتر بنا دیا۔

اگر فوج آپریشن کا دائرہ وسیع کرتی ہے تو اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟ کیا انتشار کم ہوگا یا بڑھے گا؟ فوجی آپریشنز کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ایسے حالات میں صرف دشمن ہی نہیں، بلکہ عام عوام بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس سے عوام میں فوج کے خلاف نفرت بڑھ سکتی ہے، جو کہ کسی بھی امن کی کوشش کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

امن کے لئے سنجیدگی اور احتیاط ناگزیر ہیں۔ آپریشن کے دوران ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھایا جائے، تاکہ نہ صرف امن قائم ہو بلکہ عوام کا اعتماد بھی بحال ہو سکے۔ بےگناہ لوگوں کو نشانہ بنانا یا تنگ کرنا اپنے لئے گڑھا خود کھودنے کے مترادف ہوگا۔

دیامر کی صورتحال ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ امن کے لئے سنجیدہ اور مستقل مذاکرات ضروری ہیں۔ ایک مضبوط اور مستقل جرگہ قائم کرنا، جو کہ حقیقت میں امن کی راہ ہموار کرے، ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ تاخیری حربے استعمال کرنے کی بجائے، حقیقی اور سنجیدہ مذاکرات کرنا ہی مسئلے کا حل ہے۔

دیامر کی زمین پر آج جو حالات ہیں، وہ ہمیں یہ باور کراتے ہیں کہ امن کی راہ میں سنجیدگی اور احتیاط ناگزیر ہیں۔ اگر امن کے نام پر کیے جانے والے اقدامات ہی امن کی راہ میں رکاوٹ بن جائیں، تو اس سے بڑا سانحہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ ہمیں امید ہے کہ مستقبل میں ایسے حالات سے بچنے کے لئے سنجیدگی اور احتیاط کا دامن تھامیں گے، تاکہ امن کی راہ ہموار ہو سکے۔

Check Also

Nasri Nazm Ke 10 Bunyadi Asool

By Farhat Abbas Shah