Maa Boli Ka Din
ماں بولی کا دن
آج ماں بولی کا دن منایا گیا، سارا دن سوشل میڈیا پر اسی حوالے سے اظہارِ خیال کیا گیا۔ سب کی دیوارِ مہربانی پر بھانت بھانت کی بولیوں سے ایک رونق کا سماں تھا۔ رنگ برنگی کھٹی میٹھی محبت میں گندھی علاقائی زبانیں، شعر و ادب، سچ پوچھیے تو تمام زبانیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم بحیثیتِ قوم و ملت بھی اسی طرح ایک دوسرے سے جڑے رہیں۔ ہماری قومی زبان اردو ہے اور اس کی سب سے خوبصورت بات یہی ہے کہ اس، میں انجذاب کی صلاحیت بہت، زیادہ ہے۔
دوسری زبانوں کے الفاظ بھی اتنی خوبصورتی سے جذب کر لیتی ہے کہ اجنبیت کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ یہ رابطے کی زبان ہے۔ سب کو جوڑ کے رکھا ہوا ہے۔ سچ پوچھیں تو جب کوئی علاقائی زبان بولنے والا اپنے مخصوص سندھی، سرائیکی، پنجابی، کشمیری یا پشتو لہجے میں اردو بولتا ہے تو اس کا حسن کچھ الگ ہوتا ہے۔ زبان کوئی بھی ہو لہجہ میٹھا اور پیغام محبت ہونا چاہیے۔ زبانیں ہیں ہی اس لیے کہ بولی جائیں اور قول امیرالمومنینؑ بھی یہی ہے کہ
"بولو۔ تاکہ پہچان لیے جاؤ کہ انسان اپنی زبان کے پیچھے پوشیدہ ہے۔ "
لیکن یہاں زبان سے مراد اظہار ہے۔ جو یقیناََ کسی نہ کسی زبان میں ہوگا۔
یہی نہیں یہ فرمان بھی ہے۔ زبان ایک ایسا درندہ ہے جسے اگر کھلا چھوڑ دیا جائے تو پھاڑ کھائے۔ "
بتیس دانتوں کے محافظ کھڑے کیے ہیں قدرت نے زبان کے آگے، تو بولی کوئی بھی ہو لیکن گوشت، کا یہ نرم لوتھڑا جو، قدرت نے ہمارے منہ میں رکھا ہے جو اکثر، اپنے سخت الفاظ یا لہجے سے اللہ کے بندوں کی دل آزاری کا باعث بنتا ہے۔ اس کی حفاظت کی جائے۔ ہمارا کہا ہوا ہر لفظ توانائی کی صورت محفوظ ہو رہا ہے۔ ریکارڈ ہو رہا ہے۔ اس کا حساب ہوگا۔ اور جب حساب ہوگا تو یہ نہیں ہوگا کہ زبان اردو، تھی یا انگریزی، عربی تھی یا فارسی، پنجابی یا سرائیکی، سندھی یا بروہی، پشتو یا افغانی۔ کہا کیا تھا۔ مفہوم کیا تھا۔ ارادہ کیا تھا عمل کیا تھا۔
دل توڑے یا دل جوڑے
پھول بانٹے یا پتھر
آنسو بخشے یا مسکراہٹ
لہجہ شیریں تھا یا تلخ
تلوار کی دھار، تھا یا شبنم کی خنکی
تو رچ کے بولیے۔
رچ کے لکھیے۔
لیکن صرف "محبت" کہ محبت کی تفہیم ہر زبان میں ہو جاتی ہے۔ سندھی، پنجابی، سرائیکی، پشتو، بلوچی، بروہی، کشمیری، ہندکو مجھے اپنی تمام علاقائی زبانوں سے پیار ہے۔ عربی بھی پسند ہے۔ فارسی بہت، شیریں لگتی ہے۔ اردو میری قومی زبان ہونے کے ساتھ میرا "عشق " بھی ہے۔ لیکن ایک بہت میٹھی زبان جو میرے لاشعور میں رچی بسی ہے۔ اور جین میں موجود ہے وہ یوپی کی پوربی زبان ہے۔
جس کی میٹھے لہجوں اور معصوم بولوں میں میرا بچپن بیتا۔ مجھے خود بھی نہیں پتہ چلا کہ کب اور کیسے یہ میرے اندر رچ بس گئی کہ اس زبان کا بھرپور اظہار میں نے اپنی کتاب "دوہا جل" میں کیا۔ خود میرے لیے حیران کن تھا۔ یہ زبان میرے ننھیال کی زبان تھی۔ کندھیا بہاؤالدین پور ضلع اعظم اور جونپور کی۔ دوہے لکھنے کی تحریک مجھے عالی جی نے دی لیکن اس کے پیچھے کار فرمائی اس نانی بولی کی تھی پاؤں۔
اردو زبان کے عشق میں چند پوربی دوہے آپ کے ذوقِ سخن کی نذر۔
دیس، دیس کی بھاشا سن کر اردو پر اتراؤں
پورب، پچھم، اتر، دکن اردو، بولی پاؤں
پریم ترانے
لکھنے والے نفرت کیوں پھیلائیں
اپنے پریم کی بھاشا ساری دنیا کو سنوائیں
سا گر، سر، سنگیت، کلا، اور کھیل تماشہ ہوئیے
روشنیوں کا شہر کراچی اس جیسا نہ کوئیے
تیرے پیار کے نغمے گائیں خیبر تا مکران
جیوے جیوے جیوے مولا میرا پاکستان
بڑے بڑے سُر شبدوں والے راجا دیس کا مان
میرے دیس کے لکھنے والے میرے دیس کی شان
ہجرت کے، دکھ جھیل کے لکھیں جیون کی آشائیں
روشن درد کے دیپ کیے ہیں یہ نہ بجھنے پائیں
نہ میں تلسی داس بنی اور نہ ہی میرا بائی
نہ میں بھگت کبیر کے جیسے دوہے لکھنے پائی
پھر بھی میرے من کو جانے کیوں ہے یہ وشواش
میرے دوہے میری رچنا گائے گا آکاش۔