Hukumat Awam Ki Jebon Se Hath Kab Nikale Gi?
حکومت عوام کی جیبوں سے ہاتھ کب نکالے گی؟
پارلیمان اگر تو واقعی اپنے آپ کو عوامی حکومت سمجھتی ہے تو پھر عوام کے حقوق کو بھی محفوظ کرنا ہوگا۔ کیا عوام محض ووٹ دے کر آپ کو اختیارات سونپنے کے لئے رہ گئی ہے۔ کب تک ان کے حقوق کی پامالی ہوتی رہے گی؟ پارلیمان عوام کی نمائندہ ہو اور عوام کی جیبوں میں ہر کسی نے ہاتھ ڈالا ہوا ہو اور عوام سے کوئی پوچھے بھی نہ اور اپنی مرضی سے جس کے ہاتھ جتنا لگتا ہے ہڑپ کرتا جا رہا ہے۔ آخر یہ سب کب تک چلے گا؟
کیا خزانے کی رکھوالی بیٹھے ہوؤں کا کوئی حساب بھی کرے گا؟ کب ایسا ممکن ہوگا کہ خزانے سے حاصل تنخواہیں، وظائف اور مراعات کا تعین عوام کی حالت زار کی مطابقت سے ہو۔ کب ریاستی اخراجات کا وسائل اور آمدن کی مطابقت سے تعین ہوگا۔ کب تک ہم عالمی مالیاتی اداروں سے عوام کے نام پر قرض لے کر انکی جیبیں گرم کرتے رہینگے۔
میرا سوال ہے ان تمام شخصیات سے جن کے پاس طاقت اور اختیار ہے۔ کیا ان میں سے کوئی ایسا بھی ہے کہ جو بینک سے قرض لے کر اپنے گھر کے ملازمیں کو تنخواہ دیتا ہو۔ یا اس نے کوئی ایسا ملازم رکھا ہوا ہو جس کی شان آن ان کی اپنی ذات سے بھی زیادہ ہو اور اس کے اخرجات ان کی جیبوں سے ادا کئے جا رہے ہوں۔ کیا ایسا کوئی ملازم ان کے گھر ہوگا جس کو انکی ہی اجازت کے بغیر رکھا گیا ہو اور ان کی تنخواہ ان کی جیب سے جا رہی ہو۔ کوئی ایک ایسا سرکاری ملازم مجھے دکھا دیں جن کی زندگی میں کوئی ایسی مثال موجود ہو۔
یہ تضاد اس ریاست میں کب تک چلے گا؟ کوئی ایک ایسا ملازم دکھا دیں جس کا مالک غریب ہو اور وہ اسے کہے کہ میں نے تو زبردستی بھی آپ کے ہاں ملازمت کرنی ہے خواہ تم قرض اٹھا کر ہی میری تنخواہ کا بندوبست کرو۔ بلکہ یہ اپنی تنخواہیں تو کیا اپنے ملازموں کی تنخواہیں بھی غریب عوام کی جیبوں سے نکالتے ہیں۔ زبردستی اپنی خدمت کے لئے بھی ملازم رکھے ہوئے ہیں اور ان کی تنخواہیں بھی عوام پر بوجھ ہیں۔ پھر اتنا ہی نہیں اپنے گھر والوں کے اخراجات بھی عوام کے خزانے پر ڈالے ہوئے ہیں۔ اخراجات تو اخراجات، زمینیں اور دو دو، تین تین پلاٹ ریاست کے اور جو لکھنے پڑھنے میں نہیں ان کی کوئی انتہا نہیں۔
سرکاری سکول ہوں یا ہسپتال ان میں سرکاری ملازمیں کا علاج بھی فری ہوتا ہے اور عوام کا انکے ذاتی خرچے پر۔
میں عوامی نمائندوں سے سوال کرتا ہوں۔ ان میں سے بہت سارے لینڈ لارڈ اور کاروباری بھی ہیں ان کی اپنی کمپنیاں ہیں۔ کیا انہوں نے کوئی ایسا مینجر رکھا ہو جو اس کی کمپنی کے وسائل اور آمدن سے بڑھ کر بجٹ بناتا ہو اور بینکوں سے قرضے لے کر اخراجات ادا کر رہا ہو؟
کوئی ایک ایسا ملازم دکھا دیں جس کو یہ اختیار دیا گیا ہو کہ وہ مالک کی اجازت کے بغیر خود ہی اپنی تنخواہوں، وضائف اور مراعات کا تعین کرتا ہو یا جب جی چاہے بڑھا لے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر ہمارے وطن عزیز میں ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ یہ سب کس کی مرضی سے ہو رہا ہے؟
ایسا سب پاکستان کمپنی کے ساتھ ہی کیوں ہو رہا ہے۔ کیوں کوئی ان کی ذاتی جیبوں سے ایسا نہیں کر رہا؟ کیونکہ وہ اجازت نہیں دیتے۔ جب تک جس کی جیب سے پیسے نکالے جا رہے ہیں وہ خود اپنی جیب سے ہاتھ نہیں روکے گا نکالنے والا اپنا ہاتھ کیوں کھینچے گا۔ جب تک عوام کو یہ احساس نہیں ہوگا کہ یہ ان کے ملازم ان کی جیبوں پر عیاشیاں کر رہے ہیں جب تک وہ بینکوں سے اپنے کھاتے بند نہیں کروائیں گے یہ عیاش خور تو مراعات حاصل کرتے رہیں گے۔
آج سے چالیس سال پہلے بھارت کے عوام اور سول سوسائٹی نے حکومت کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ ان کے نام پر کسی بھی عالمی ادارے سے قرض نہیں لے سکتے اور اگر قرض لیں گے تو اس کی ٹرمز اینڈ کنڈیشنز ہماری ہونگی نہ کہ اس بینک کی۔ ہم یہ فیصلہ کریں گے کہ ہم نے قرضے کا استعمال کہاں کرنا ہے۔ سول سوسائٹی نے ایک نغمہ بنایا تھا جس کا مفہوم کچھ یوں تھا، کہ ایک بندہ کشکول لئے ورلڈ بینک کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور راہگزر پوچھتا ہے کہ کون ہے تو؟ وہ کہتا ہے میں ہوں ہندوستاں میں ہوں ہندوستان۔ انہوں نے اپنی حکومت پر اتنا دباؤ ڈالا تھا کہ حکومت نے قرض کم کر دئیے تھے۔
ہمارا یہ حال ہے کہ ہمارا وزیراعظم اور وزیر خارجہ فخر سے پریس کانفرنس کرکے یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ ان کی کوششوں سے اتنے بلینز ڈالرز کا قرضہ منظور ہوگیا ہے۔ بلکہ پوری ریاستی مشینری قرض لینے کی کوششوں میں لگی ہوتی ہے۔ ملک کا عسکری ادارے کا سربراہ سفارشیں کروا رہا ہوتا ہے کہ قرض مل جائے۔ پوری قوم تعریفیں کر رہی ہوتی ہے کہ حکومت نے ان کے نام پر قرض لے کر اپنی عیاشیوں اور اپنے ملازمین کی عیاشیوں کا بندوبست کر لیا ہے۔ قوم اپنے حکمرانوں پر فخر کر رہی ہوتی ہے کہ ان کے نام پر قرض لے کر فضول خرچیوں کا بندو بست کیا جا رہا ہے۔ کتنی فراخدل ہے یہ قوم۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پیپلز پارٹی کی حکومت نے آٹھ ہزار ارب روپے قرضہ لیا۔ مسلم لیگ نے دس ہزار ارب روپے اور تحریک انصاف نے سترہ ہزار ارب روپے قرضہ لیا۔ ہماری قوم کو کب شعور آئے گا؟ جب یہ اس ریاست کی املاک کو اپنی املاک سمجھنا شروع کریں گے اور ان سے اپنی ملکیت کا احساس ان کے اندر اجاگر ہوگا۔ جب وہ اس ریاست کے اداروں، سکولوں، ہسپتالوں، سڑکوں اور جنگلوں کو اپنا سمجھیں گے۔ تب ان کے اندر اس کی ملکیت کا بھی احساس پیدا ہوگا اور اس کی اہمیت کا بھی۔ پھر یہ اس کی حفاظت بھی کریں گے۔
اس کی مثال میں یوں دیتا ہوں کہ اگر کسی کے گھر میں ٹوٹا ہوا لوٹا بھی پڑا ہو تو کسی کی جرات نہیں کہ وہ اس کو اٹھا لے۔ کیوں کہ اس گھر کے مالک کو پتا ہے کہ اگر وہ کباڑیے کو بھی دے گا تو دو چار روپے مل جائیں گے لہٰذا وہ اس کی حفاظت بھی کرتا ہے۔ اس کے اندر ایک تو اس کی ملکیت کا احساس ہے کہ وہ اس کا ہے اور دوسرا اس کو اس کی دو چار روپے کی اہمیت کا بھی اندازہ ہے۔ مگر نہیں تو اس ریاست کی املاک کی ملکیت اور اہمیت کا احساس نہیں۔ تو پھر ایسا ہی چلے گا۔
بڑھتے قرض، درآمدات اور بدحال معاشی پالیسیوں سے آج حال یہ ہے کہ پاکستانی روپیہ ڈالرکے مقابلے میں انتہائی نیچے جا چکا ہے۔ جس قدر ڈالر مہنگا ہوگا اسی قدر سے عوام کی اپنی ذاتی اور ملکی املاک کی قدر گھٹتی چلی جائے گی۔ اور دوسری طرف جتنا بھی حکومت قرضہ لے گی وہ ہر شہری پر اس کی نسبت سے تقسیم ہوتا چلا جائے گا۔ معاشی اور سیاسی عدم استحکام کی شکار حکومت کے پاس دو ہی طریقے ہیں اپنے اخراجات کو چلانے کے۔ ایک وہ چیزیں مہنگی کر رہے ہیں جتنا بھی قرضہ ادا کرنا ہوتا ہے اس کی قسطوں کو ٹیکسز اور قیمتوں کی مد میں ڈال دیتے ہیں اور کچھ قرض لے کے اس میں سے سابقہ قرض کی قسطیں بھی دیتے ہیں اور اپنے اخرجات بھی چلاتے ہیں۔
اگر تو عوام چاہتے ہیں کہ اس کو روکا جا سکے تو پھر عوام کو اپنے اپنے حلقے کے اندر اپنے نمائندے پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ ان کو قرضے کی قطعاً اجازت نہیں دینگے۔ ان پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ اخرجات کو کم کریں۔ پورے ملک میں تحریک چلانا ہوگی وگرنہ اگر اسی طرح چلتا رہا تو یہ سارا ملک بیچ ڈالیں گے۔ اب یہ عوام پہ ہے کہ وہ اسی طرح سے چلانا چاہتے ہیں یا پھر حکومتوں کو دباؤ ڈال کر اس روش کو ختم کرنے کے لئے کوشش کریں گے۔