Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Abrar Majid/
  4. Audio Leaks Baare Commission Qaim Karna Khush Aind Hai

Audio Leaks Baare Commission Qaim Karna Khush Aind Hai

آڈیو لیکس بارے کمیشن قائم کرنا خوش آئند ہے۔

آڈیو لیکس بارے کمیشن کی تشکیل انتہائی خوش آئند ہے کیونکہ تحقیقات کے بغیر الزامات سے چھٹکارہ کسی صورت بھی ممکن نہیں ہو سکتا۔ یہ بنچ انکوائری کمیشن ایکٹ 2017 کے تحت بنایا گیا ہے جو کمیشن کو وسیع اختیارات دیتا ہے جن میں ضابطہ دیوانی، فوجداری اور کسی بھی ریکارڈ کے منگوانے کا اختیار بھی ہے۔ کمیشن کسی کو بھی طلب کر سکتا ہے بشرطیکہ اسے کسی پاکستانی قانون کے تحت استثنیٰ حاصل نہ ہو۔ لہذا یہ کمیشن ججز کو تو طلب نہیں کر سکتا مگر ان کی فیملیز یا دوسرے ملوث لوگوں کو طلب کر سکتا ہے۔

اس کی رپورٹ شائع ہوگی اور حکومت کو بھی فراہم کی جائے گی جس کی بنیاد پر فوجداری کاروائی بھی ہو سکتی ہے۔ اور حکومت اس کی بنیاد پر، اگر ججز کسی مس کنڈکٹ میں ملوث پائے جاتے ہیں، جوڈیشل کمیشن کو ریفرنس بھی بھجوا سکتی ہے۔ حکومت نے آڈیو لیکس میں مبینہ طور پر ملوث ججز کے بعد سینئر ترین سپریم کورٹ کے جج اور دو ہائیکورٹس کے چیف جسٹسز کو کمیشن کا چئیرمین اور ممبرز مقرر کیا ہے لیکن اگر ان کی مصروفیت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ریٹائرڈ ججز کو کمیشن کا ممبر بنا دیتے تو بھی میرے خیال میں اس کی کوئی ممانعت نہیں تھی۔

آڈیو لیکس کے دو پہلو ہیں ایک تو یہ انسانی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور دوسرا پہلو اس کا کسی جرم کے خلاف شہادت کے طور پر استعمال ہے اور موجودہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں یہ ایک بہت ہی مضبوط ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کا قانون شہادت بھی اب اس کو قبول کرتا ہے۔

جہاں تک کسی کی پرائیویٹ زندگی میں دخل اندازی کا تعلق ہے تو یہ نہ صرف اسلامی اور اخلاقی نقطہ نظر سے ہی قبیح عمل نہیں بلکہ ہمارے آئین و قانون میں بھی جرم ہیں۔ لیکن جب کسی کی کوئی ایسی وڈیو زیا آڈیوز لیکس سامنے آ جائیں جن میں کسی جرم کے ارتکاب کے ثبوت مل رہے ہوں تو پھر پرائیویسی دوسرے درجے پر چلی جاتی ہے اور اس معاملے کی تحقیق اور اس کے نتائج بنیادی معاملہ بن جاتے ہیں۔ ہاں اگر اس آڈیو یا وڈیو میں ملوث کردار اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کر دیتے ہیں یا اس وڈیو یا آڈیو کو وہ جعلی ثابت کر دیتے ہیں تو پھر وہ اس بارے اپنی ساکھ متاثر ہونے پر ہرجانے کا حق بھی محفوظ رکھتے ہیں۔

اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر تو اس وڈیو یا آڈیو میں کسی شخص کی ذات سے بڑھ کر کوئی ملکی یا عوامی نوعیت کا معاملہ زیر بحث آ رہا ہو اور اس سے کوئی قومی یا ملکی سطح کا جرم سرزد ہونے کے شواہد مل رہے ہوں تو یہ ملکی یا قومی سطح کا جرم ہونے کا درجہ حاصل کر لیتا ہے اور ایسی صورتحال میں ریاست اور ریاست کے اداروں کی یہ ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ اس معاملے کی تفتیش کرکے اس کے حقائق کو سامنے لائیں اور اس میں ملوث تمام لوگوں کو قانون کے مطابق کٹہرے میں کھڑا کریں تاکہ مستقبل کے خطرات کا سدباب اور مجرموں میں احساس خوف پیدا کیا جا سکے۔

اور اگر حکومت یا ریاستی ادارے اس پر بے توجہی برتتے ہیں تو وہ اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں غفلت کے مرتکب ہو رہے ہیں اور مجرموں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ اسی طرح اگر ان وڈیو یا آڈیو لیکس میں کسی حکومتی عہدہ، ادارے کی سربراہی، یا کسی اور اہم جماعت یا ادارے کے متعلقہ اہم شخصیت بارے کوئی ملوث ہونے کے ابتدائی ثبوت مل رہے ہیں تو ان کو اپنے فرائض سے اس وقت تک سبکدوش ہو جانا چاہیے جب تک ان کی بے گناہی ثابت نہیں ہو جاتی۔

جو کہ نہ صرف اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے بلکہ یہ ایک قانونی اور قومی فریضہ بھی بن جاتا ہے تاکہ ان کی طرف سے تحقیق کے عمل پر متاثر ہونے کے خدشات ختم ہو سکیں اور شفافیت اور غیر جانبداری پر کوئی اعتراض نہ اٹھ سکے۔ اور اس بارے متعلقہ حکام کو بھی قانونی اور اصولی اقدامات اٹھانے میں کوئی لیل و لعت سے کام نہیں لینا چاہیے۔

جہاں تک اخلاقیات کا تعلق ہے ان وڈیو یا آڈیو لیکس کو سننے کے بعد یہ اندازہ بخوبی ہو سکتا ہے کہ ان شخصیات کی اخلاقی سطح کیا ہے یا ان سے کسی اخلاقی امر کی توقع بھی کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ اگر اخلاقیات کے عمل دخل سے اس کا کوئی حل ممکن ہوتا تو اس طرح کے بدعنوانی کے معاملات میں ملوث ہونے کا سوال ہی پیدا کیوں ہوتا یا ماضی میں اس طرح کے بدعنوانی کے الزامات پر کوئی احتساب کی اطمنان بخش مثال ہی موجود ہوتی۔

اور اگر یہ بے گناہ ہوتے تو اس پر اتنی پر اسرار خاموشی کے پیچھے چھپ کر کیوں بیٹھتے۔ کوئی تردید یا اپنی بے گناہی میں زبان کشائی ہی کرتے۔ موجودہ زیادہ تر آڈیو اور وڈیو لیکس میں تو ایسے کرداروں کے ملوث ہونے کے ثبوت مل رہے ہیں جن کے بارے ہر طرف سے تصدیقی واقعات بھی گواہی دے رہے ہیں اور وہ ایک عادی مجرم کی علامت کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ اب حکومت نے اگر قدم اٹھا ہی لیا ہے تو ہم توقع کرتے ہیں کہ اس رپورٹ کی بنیاد پر کوئی جامع کاروائی عمل میں لائیں گے تاکہ ان بد عنوان لوگوں کے اندر احساس خوف یا ذمہ داری پیدا کیا جا سکے۔

حکومت کو پاکستان کی تاریخ کی ایسی کالی بھیڑوں کی بھی ایک لسٹ شائع کرنی چاہیے کہ جن پر سنگین نوعیت کے جرائم یا بد عنوانی کے الزامات آئے اور انہوں نے اپنے آپ کو تفتیش اور تحقیق سے بچانے کی کوشش کی یا آج تک ان کے خلاف کوئی تحقیق نہیں کی جا سکی۔ اگر ان پر تازہ انکوائری شروع نہیں کی جا سکتی تو کم از کم یہ قوم کے سامنے بے نقاب تو ہو جائیں۔ حکومت کو چاہیے ایک قومی ہاؤس آف فیم بنا کر اس میں ایسے لوگوں کے نام آویزاں کر دے۔

تاکہ ایسے خاندانوں سے نہ صرف قوم ہوشیار رہے بلکہ ان کے خاندانوں میں سے کسی کو اہم ذمہ داریاں دینے سے پہلے ان بارے جانچ پڑتال کے لئے ممد و معاون ہو، چہ جائے کہ ان کی پردہ پوشی سے ان کی مزید حوصلہ افزائی کی جاتی رہے اور یہ ایک مافیا کے طور پر نسل در نسل اس ملک و قوم کو اپنے اثر و رسوخ اور گٹھ جوڑ کی بنیاد پر لوٹتے رہیں۔ جیسے ایک مبینہ آڈیو کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے موصوف ریٹائرڈ چیف جسٹس صاحب اپنے بیٹے کے ساتھ ملکر ایک سیاسی جماعت کی ٹکٹیں ایسے بیچ رہے ہیں جیسے کسی سینما کی ٹکٹیں ہوں۔

آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی اس طرح کے بدعنوانی میں ملوث الزامات اور ثبوتوں کے باوجود بھی تحقیقات کا کوئی نظام یا طریقہ کار کا نہ ہونا ایک قومی نااہلی، غفلت اور رسوائی نہیں تو کیا ہے۔ ہماری حکومت اور پارلیمان اپنے عوامی مینڈیٹ اور بالادستی کے حق کا دعویٰ تو کرتی ہے مگر عوام اور ملک و قوم کے حقوق اور اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے سے غفلت پر جوابدہی کے عمل سے بھاگتی ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ بلا تفریق ہر کسی کے لئے خواہ کسی بھی عہدہ، شعبہ یا ادارے سے تعلق ہو، سب کے لئے ایک جیسا، شفاف، غیر جانبدارانہ اور برابری کی بنیاد پر احتساب کا نظام متعارف کروائے اور کسی کو بھی اس سے استثنا حاصل نہ ہو۔ اور اب تو جس طرح روانی کے ساتھ آڈیوز لیک بننے لگ گئی ہیں اس بارے ایک علیحدہ سے خود مختار مستقل بنچ ہونا چاہیے جس میں جسٹس وجیہہ الدین، جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور مخدوم جاوید ہاشمی جیسے اچھی شہرت اور کردار کی حامل شخصیات کو تعینات کیا جائے۔

Check Also

Karakti Bijliyan

By Zafar Iqbal Wattoo