Thursday, 10 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Badar Habib Sipra
  4. Nelson Mandela Nijat Dahinda

Nelson Mandela Nijat Dahinda

نیلسن منڈیلا نجات دہندہ

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا

ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ انسانی تاریخ میں جب بھی جس معاشرے میں ظلم نے سراٹھایا، انسانی قدروں کو پامال کیا خدا نے اپنے بندوں کی حفاظت کی۔ اس بربریت کا قلع قمع کرنے اور اپنے بندوں کو نجات دلانے کے لیے ہمیشہ اسباب پیدا کیے۔

بیسویں صدی کے آغاز سے ہی جب جنوبی افریقہ میں ظلمت، بربریت اور تعصب پرستی کے سیاہ بادل منڈ لا رہے تھے۔ ہر طرف سفید فاموں کی سفاكیت اور ملوکیت کی فضا تھی۔ اس اندھیر نگری میں خدا نے ایک چراغ روشن کیا۔ اس تاریکی میں امید کی ایک کرن پیدا ہوئی۔ اس خزاں سے اجڑے چمن میں ایک سرسبزو شاداب کونپل نمودار ہوئی۔ یہ بجهی ہوئی راکھ میں ایک چنگاری تھی۔ جو بعد ازاں آزادی کی آگ کا موجب بنی۔ اس ننی سی روح کو روہیلا کا اسم ملا۔ جس کے معنی ہیں روکاوٹ پیدا کرنے والا۔ جو بعد ازاں آمریت اور سامراجیت کے خلاف نا سر ہونے والی رکاوٹ ثابت ہوا۔

سکول میں اسے نیلسن منڈیلا کا نام دیا گیا۔ خاندانی نصب کے اعتبار سے اس کی تربيت بادشاہ کے مشیر کے طور پر ہوئی۔ بچپن والد اور والدہ کے ساتھ گاؤں میں گزرا۔ والد کی وفات کے بعد ان کے ایک دوست نے یہ فریضہ سرانجام دیا۔ جس کی شخصیت و تربیت کا اثر ان پر نماياں رہا۔

غربت کی حمایت میں کچھ زیادہ نہیں کہا جا سکتا مگر اس سے سچی دوستياں جنم لیتی ہیں۔ جب آپ خوشحال ہوں تو بہت سے لوگ آپ سے دوستی کرتے ہیں۔ مگر غربت میں صرف اچھے لوگ ہی رفاقتوں کا بهرم رکھتے ہیں۔ غربت لوگوں میں فیاضی کے جذبے کو أبهارتی ہے۔ نیلسن کو اکثر و بیشتر پرخلوص، فیاض اور مخلص محسن ملے۔ جنہوں نے زندگی کے ہر موڑ پر اس کا ساتھ دیا۔

کوئی بھی شخص بڑے بڑے تجربات سے گزر کر دانائی حاصل کر سکتا ہے۔ اس کی خاطر اسے بڑے بڑے دریا عبور کرنا ہوتے ہیں۔ زندگی کے تجربات و متحرکات نے نیلسن کو مضبوط اور باعمل بنا دیا۔ اس نے خود کو اپنے نصب العین کی نظر کر دیا۔ وہ بحران میں بھی ہیجان کا شکار نا ہوتا۔ وہ الفاظ کے ساتھ دشمن کو زیر کرنا جانتا تھا۔

تعلیم ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے دنیا کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ اس سے ہر شخص ترقی کر سکتا ہے۔ تعلیم کے ذریعے ہی کسان کا بیٹا ڈاکٹر اور مزدور کا بیٹا مالک بن سکتا ہے۔ اس دور میں سیاہ فام افریقیوں کے ساتھ نصاب میں بھی تعصب پرستی کو روا رکھا گیا۔ جنوبی افریقہ کے سیاہ فام احساس کمتری کا شکار تھے۔ وہ تسلیم کر چکے تھے کہ سفیدفام ان سے اعلی و افضل ہیں۔ جس وجہ سے وہ ذلت کی چکی میں پس رہے تھے۔ نیلسن نے اس احساس كمتری کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ بقول شاعر

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

اس احساس نے ان میں ایک تحریک کو جنم دیا۔ جس کو منظم کیا گیا۔ اس تنظیم نے ان کے خیالات کا پرچار کیا۔ نیلسن بھی اس کا حصہ بنا۔ اس کو متحرک رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ جس کی بنیاد پر ان کو بہت سی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پابندياں جسمانی قید تنہائی کا نام نہیں ہوتیں بلکہ ان میں انسان کی روح بھی اسیر ہوتی ہے۔ اس سے ایک ایسی نفسیاتی گھٹن پیدا ہوتی ہے جس وجہ سے انسان آزادی کے لیے چیخ وپکار کرتا ہے۔ پابندی عائد کرنا زیادہ خطرناک کھیل ہے کیوں کہ اس میں انسان آزادی کے خواب میں گم ہو جاتا ہے۔

نیلسن منڈیلا نے اے۔ این۔ سی۔ میں شمولیت کی، جو جنوبی افریقہ کے سیاہ فاموں کی حقیقی ترجمان تھی۔ انہوں نے مہاتما گاندھی کے فلسفے ستیہ گرہ یعنی عدم تشدد کے اصول پر عمل پیرا ہونے کی ہر ممکن کوشش کی۔ سول نافرمانی کی تحریک بھی چلائی۔ نئے قوانین اور حکومتی ہتھکنڈوں نے احتجاج کے پرانے طریقوں، جلسوں اور آخباری بيانات وغیرہ کو خطرناک بنا دیا تھا۔ اس لیے پرانے طریقے آزمانا آپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا۔

اس تحریک سے سبق ملا کہ مسلح اور پر تشدد مزاحمت کے علاوہ کوئی متبادل راستہ نہیں۔ جب ظالم اور جابر حکمران کا سامنا ہو تو عدم تشدد کے اصول پر عمل نہیں ہو سکتا۔ آگ کا مقابلہ آگ سے ہی کیا جا سکتا ہے۔

کوئی بھی اصول یا طریقہ کار اس قدر اہميت نہیں رکھتا کہ ناکامی کے باوجود اسے گلے لگایا جائے۔

اس کے بعد انہوں نے مسلح جدو جہد کا آغاز کیا۔ پابندیوں کے باوجود انہوں نے ایک خفیہ منصوبہ بنایا۔ اور ایم۔ کے۔ تنظیم کا ڈھانچہ تشکیل دیا جو گراؤنڈ لیول سے اوپر والے منتظمین تک رسائی رکھتا تھا۔ رضاکاروں کو تربیت دی گئی۔ بہت سے حمایتوں نے مالی اور تربیتی معاونت کی۔

نیلسن منڈیلا ایک نظریے کا نام ہے۔ جس نے تمام عمر مستقل مزاجی اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ آزادی کی تگ ودو کے جرم کی پاداش میں اسے قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اپنی عمر کا بیشتر حصہ پابند سلاسل رہا۔ 27برس کی قید اور جزیرہ رابن کی مشکلات بھی اس کو اس کے نظریے سے نا ہٹا سکیں۔ اس کے برعكس وہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔

اس نے آزادی کا منشور پیش کیا۔ جس میں واضح کیا کہ جنوبی افریقہ، اس میں بسنے والے کالے اور سفید فام دونوں کی ملکیت ہے۔ عوام اس وقت تک خوشحالی نہیں دیکھ سکتے جب تک مساوات اور اخوت کو اپنا اوڑھنا بچھونا نا بنا لیں۔ انہوں نے اس منشور کے تحت اے۔ این۔ سی۔ کی شکل میں سیاسی اور ایم۔ کے۔ کی شکل میں پر تشدد مزاحمت کے ساتھ آزادی کی جنگ جاری رکھی۔

آخر کار وہ اپنی قوم کو تاریکی کے منڈلاتے ہوے سایوں سے نکالنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس نے ایسی رياست کی بنیاد رکھی جو رنگ و نسل کے تعصب سے مُبَرَّا تھی۔ جہاں سب برابر تھے۔ ہر کسی کو بنیادی حقوق حاصل تھے۔ انہوں نے سفید فام کو بھی باور کرایا کہ یہ ان کا اپنا وطن ہے اور اس کی تعمیر کے لیے ان کی بھی ضرورت ہے۔ ان پر واضح کیا کہ ان کو ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر بہتر مستقبل کے لیے مصروف عمل ہونا چاہئے۔

انکی انتھک محنت کی وجہ سے ان کو بین الاقوامی اعزاز "نوبل پرائز" سے نوازا گیا۔

انہوں نے اپنے آزادی کے اس طویل سفر کو نا ختم ہونے والا سفر قرار دیا۔ آزادی کی ایک چوٹی سر کرنے کے بعد ان پر عیاں ہوا کہ ابھی بہت سی چوٹیاں سر کرنا باقی ہیں۔ زندگی ایک جہد مسلسل کا نام ہے۔

نیلسن منڈیلا کی زندگی ان لوگوں کےلیے مشعل راہ ہے جو زندگی کے نشیب و فراز میں بوکھلا کر منزل کی جستجوکو ترک کر دیتے ہیں۔

Check Also

Bache Samajh Jaate Hain

By Saira Kanwal