Mumbai Ki Mafia Queen Ganga Jeevandas
ممبئی کی مافيا کوئین گنگا جیونداس
گزشتہ چند روز سے ایک تصویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں ایک مشہور سیاسی شخصیت کو ایک نائکہ کی طرح دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کنچی کون ہیں یہ میں بیان کر سکتا ہوں۔
دراصل اس تصویر میں جلوہ گر بھارت کی ایک مشہور اداکارہ عالیہ بھٹ ہیں۔ جنہوں نے اس فلم میں اداکاری کے جوہر دکھا کر اس کو چار چاند لگائے۔ سنجے لیلا بھنساری نے اس فلم کو ڈاریکٹ کیا ہے۔ سید حسین زیدی جو بھارت کے مشہور و معروف بلند پایا قلم کار ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب The Queen of Mumbai میں اس کہانی کو قلم بند کیا ہے۔
مشہور زمانہ ممبئی کی مافیا کوئین گنگو بائی کا جنم گجرات کاٹھیا واڑ کے ایک خاندان میں ہوا۔ ان کو ایک مشہور دریا گنگا کی نسبت سے گنگا جیون داس کا نام عنایت ہوا۔ روایات کو پس پشت ڈالتے ہوئے، ان کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی گئی۔ تاکہ وہ کسی اعلی عہدے پر فائز ہو سکیں۔ مگر شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ پچپن سے ہی اس ننی گنگا پر اداکاری کا جنون سوار تھا۔ وہ بالی وڈ میں بڑے پردے پر آنے کےلیے مرعوب تھیں۔ گرفتار محبت، یہ پھل جھڑی مریض عشق بن کر اپنے پیا رام نک لال کے ہمراہ ممبئی کی رہ پر چل دی۔
شادی سے چنداں بعد جب گنگا کے گھر سے لایا گیا مالِ غنیمت ختم ہوا، رام نک لال نے ایک چال چلی، گنگا کو دلاسا دیا کہ اب وہ چند روز اس کی ماسی کے ہاں قیام کرے، اس دوران وہ اس کے لیے ایک گھر ڈھونڈے گا۔ اس دلاسے کے ساتھ وہ اسے ایک ماسی کے پاس لے گیا اور وہاں چند کوڑیوں کی خاطر اپنے جیون ساتھی کو فریب دہی سے ایک کنتن خانے (وشیالے) پر فروخت کر دیا۔ گنگا کو جب اشارتاً بتایا گیا کہ وہ کہاں ہے تو اس نے اس حقیقت کو تسلیم نہ کیا اور بھوک ہڑتال سے کئی روز احتجاج کیا۔ ڈھارس باندھی رکھی کہ اس کا شوہر اس کو لینے ضرور آئے گا۔ رام نک کا اصلی چہرہ اس وقت بے نقاب ہوا جب ویشیالے کی مالکن شیلہ نے گنگا پر حقیقت کا گھڑا پھوڑا کہ رام نک کی وہ خالہ نہیں بلکہ کنتن خانے کی ماسی ہے۔ یہاں سے بھاگنا تمہارے لیے ممکن نہیں۔ یہ سنتے ہی اس کلیجہ جیسے منہ کو آ گیا ہو۔ اپنا سب کچھ تباہ کرنے کے بعد یہاں آنے والی لڑکی جب واپس جانے کو سوچتی تو طرح طرح کے خیالات اس سوچ کی نفی کرتے۔
وہ جاتی بھی تو کس منہ سے واپس جاتی۔ کس کے پاس واپس جاتی۔ اس باپ کے پاس جس کی ناک کٹوا کر آئی تھی۔ اس ماں کے پاس جس کو جیتے جی مار دیا تھا۔ واپسی کی راہ خود کشی سے کم نہ تھی۔ چنانچہ اس حقیقت کو تسلیم کیا۔ اس کام کے لئے تیار ہوگئیں۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ کہاں سے کہاں جا پہنچی۔ گنگا جیون داس کاٹھیواڑ سے گنگو بائی بن گئی۔ نا جانے کتنے چہرے روزانہ اس کی جسم کو نوچتے اور کھروچتے ہوں گے، درد دیتے ہوں گے، بولی لگاتے ہوں گے۔
زندگی کے بدترین اور مشکل ترین حالات میں بھی اس نے ہمت سے کام لیا۔ ہمیشہ اپنے حق کے لئے بات کی اور اپنے لئے ہی نہیں بلکہ اپنی ساتھیوں کےلیے آواز اٹھائی۔ ایک دفعہ جب ایک شوکت نامی شخص نے ظلم کی انتہا کر دی تو اس نے اپنے حق کی خاطر مقامی ڈون کریم لالا کی حمایت حاصل کی۔ اس حمایت کے بعد کماٹھی پورہ میں اس کی دھاک سی بیٹھ گئی۔ حالات اور زمانے کی ٹھوکروں نے اسے مضبوط سے مضبوط تر بنا دیا۔ اب حالات یکسر بدل گئے۔ اسے کماٹھی پورہ کی نمائندگی حاصل ہوئی اور وہ ان کی نمائندہ بنی۔ اس نے ہر مقام پر ان کی نمائندگی کرتے ہوے ان کے حقوق کی بات کی۔ بیسیوں دفعہ بڑے بڑے پلیٹ فارموں پر اپنی آواز بلند کی۔
سید حسین زیدی نے اپنی کتاب میں گنگو بائی کی زندگی کو بیان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ایک طوائف کو کن کن مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ بدنامی کا تاج اپنے سر پر سجائے معاشرے میں زندگی گزارنا کس قدر مشکل کام ہوتا ہے۔ حالات کی تنگی کے پیش نظر اور مجبورا گنگا جیون داس کا ٹھیواڑ گنگو بائی بن گئی اور پھر اپنی قابلیت کا لوہا منواتے ہوئے گنگو بائی سے گنگا ماں بنی۔ اُن سب کی ماں جو شاید زندگی کی کسی مجبوری سے یہاں آ بسیں اور واپس جانا اُن کے لیے ناممکن ٹھہرا۔ اُن کو ہر طوائف میں ایک سولہ سالہ گنگا دکھائی دیتی تھی۔ جو دھوکے سے وہاں لا کر قید کی گئی۔
گنگا ماں محض نام کی ماں نا تھی۔ بلکہ اس نے ہمیشہ ان سب لاچار اور بے کس عورتوں کا ماں کی طرح خیال رکھا۔ ان کی صحت پر توجہ دی کام کے اصول و ضوابط بنائے۔ کسی بھی عورت کو جبرا اس کام میں داخل نہ کیا جا سکتا تھا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی مرضی سے آئے۔ ان کے پیدا ہونے والے بچوں کی تعلیم کا بندوبست کیا۔ کماٹھی پورہ کی نمائندگی کی اور ان کو انصاف دلانے کی ہر ممکن کوشش بجا لائی۔ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کی روک تھام کی گئی۔ اپنے حقوق کی خاطر انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم جواہرلال نہرو سے ملاقات کی اور ان کو ان کے حقوق پر غور کرنے پر مجبور کیا۔
ایک ملاقات کے دوران جب نہرو نے ان کو یہ کام چھوڑنے کا کہا تو اس پرکہا جاتا ہے کہ بہادر گنگوبائی نے نہرو کو ایک تجویز پیش کی کہ اگر وہ اس کو مسز نہرو بنانے کے لئے تیار ہوتا، تو وہ اپنے کاروبار کو مکمل طور پر ترک کرنے کو راضی ہوتی۔ نہرو حیران ہوگئے اور اسے اس طرح سے بات کرنے کی وجہ سے سرزنش کی۔ لیکن ایک پرسکون خاتون نے مسکرا کر کہا، "غصہ نہیں ہونا پردھان منتری جی۔ مجھے بس ایک نقطہ ثابت کرنا تھا، دعوت دینا آسان ہوتا ہے عمل کرنے کے مقابلے میں۔ کوئی بھی بات کہنا آسان ہوتی ہے لیکن اس پر عمل پیرا ہونا مشکل ہوتا ہے۔ دوسروں پر تنقید کرنا آسان ہوتی ہے۔ جبکہ اپنی گریبان میں جھانکنا مشکل ہوتا ہے۔ بے شک دوسروں کو راہ دکھانے کی کوشش کرنا نیک کام ہے، لیکن خود اس پر عمل نہ کرنا ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے۔ خود کی اصلاح کرنا اور اپنے زندگی میں بدلاؤ لانے کی ضرورت ہے تاکہ آپ بھی ایک مثال بن سکیں اور دوسروں کو انتہائی متاثر کر سکیں۔
ہم ہر کسی کو غلط کام چھوڑ کر صحیح کام کی طرف دعوت ضرور دیتے ہیں۔ لیکن جب ایک انسان توبہ کرے، ہم ہی اس کو اپنانے سے کتراتے ہیں۔ یہ بہت ہی اہم اور عمیق مسئلہ ہے۔ انسانوں کو غلط راہوں سے دور کرنے کی دعوت دینا بہت اہم ہے، مگر جب کوئی شخص توبہ کرکے صحیح راہ پر آتا ہے، ہمیں انہیں ساتھ رکھنا اور انہیں حمایت دینا چاہئے۔ ان کی توبہ کو قبول کرنا اور ان کو دوسروں کے ساتھ محبت اور احترام کے ساتھ قبول کرنا بہت اہم ہے۔ اس طرح، ہم ان کی محنت اور ارادے کو سراہتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم معاشرے میں شخصی اصلاح پر زور دیں۔ ہم اپنے گریبان میں جھانکیں۔ اپنے آپ کو ٹھیک کریں۔ اپنے اندر کے رام نک کو مار دیں تو شاید یہ معاشرہ کبھی کسی اور عورت کو گنگا جیونداس سے گنگو بائی بننے پر مجبور نہ کرے۔