Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Ye Sahafi Hain Ya

Ye Sahafi Hain Ya

یہ صحافی ہیں یا۔۔

دلال معاشرے کا ایک شرمناک کردار ہے۔ اس کی ڈیوٹی یہ ہے کہ بازاری عورت اور بازاری مرد کے درمیان تعلقات پیدا کرے اور اس کے عوض میں پیسے لے۔ یہ مخصوص کمرے کے باہر بیٹھتا ہے۔ جوں ہی بازاری مرد فراغت کے بعد نکلتا ہے تو اس کے دام کھرے ہو جاتے ہیں۔ اگر عورت کو تین ہزار روپے ملیں تو اس میں سے پانچ چھے سو روپے اس کے ہوتے ہیں۔ یہ پیسے اس کی دلالی کہلائیں گے۔ کیونکہ یہ ایک دلال ہے۔ پنجابی میں ایک خاص گالی اسی دلال سے نکلی ہے۔

اس کی خاص پہچان یہ ہے کہ اس کے کندھوں پہ کپڑا ہوتا ہے۔ سٹیج ڈراموں میں اکثر دیکھا ہوگا کہ ایک ایکڑ دوسرے ایکٹر کے کندھوں پہ زبردستی کپڑا رکھ دیتا ہے۔ اس سے اس کی مراد اسے دلال ثابت کرنا ہوتا ہے۔ یعنی فاحشہ عورتوں کی کمائی کھانے والا۔

حیرت کی بات ہے کہ پیشہ صحافت میں بھی دلال پیدا ہو چکے ہیں۔ کام ان کا بھی دلالوں کا سا ہے، مگر انداز تھوڑا مختلف ہے۔ جنسی دنیا کا دلال غیر مہذب ہوتا ہے اور صحافت کا دلال ذرا مہذب ہوتا ہے۔ جنسی دنیا کے دلال کی بے غیرتی غیر مہذب ہوتی ہے۔ اس کی بے غیرتی ذرا تہذیب کے دائرے میں ہوتی ہے۔

جس طرح فاحشہ عورتوں کے دلال کی کمائی حرام ہے، ایسے ہی صحافت کے دلال کی کمائی بھی حرام ہے۔ جیسے بے غیرت عورتوں کا دلال بےشرم ہوتا ہے، ایسے ہی صحافت کا دلال بھی بےشرم ہوتا ہے۔ جیسے حلال حرام کی پروا کیے بغیر جنسی دنیا کے دلال کی نظریں صرف پیسے پہ ہوتی ہیں، ایسے ہی صحافت کے دلال کی نظریں بھی صرف ویوز، سبسکرائبرز اور ڈالرز پہ ہوتی ہیں۔

ہاں ایک اعتبار سے دیکھیں تو جنسی دنیا کے دلال کا جرم صحافت کے دلال کے جرم سے کہیں چھوٹا ہے۔ وہ یوں کہ مرد و زن کا جنسی عمل باہمی سمجھوتے سے ہوتا ہے اور یہ برا اثر سماج کو اپنی لپیٹ میں نہیں لیتا۔ مگر صحافت کے دلال کا جرم بہت سنگین ہوتا ہے۔ اس کے اثرات پورے سماج پہ پڑتے ہیں۔ یہ قوم کے ذہنوں میں زہر انڈیلتا ہے، انھیں بری طرح تقسیم کرتا ہے۔ اس کے زہریلے ویلاگز اور منفی تبصرے معاشرے میں نفرتیں تقسیم کرتے ہیں۔ اس کے مہلک تجزیے انسانی تعلقات میں دراڑیں پیدا کرتے ہیں۔

انصاف کی رو سے اگر دیکھیں تو صحافت غیر جانب داری کا نام ہے۔ صحافی کا کام بلا تفریق تمام سیاسی جماعتوں کی خوبیوں اور کمزوریوں کو اجاگر کرنا اور ہر سیاسی لیڈر کے خیر اور شر کو قوم کے سامنے رکھنا ہے۔ صحافی لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرتا اور اور سیاسی تجزیے کے وقت بےرحم ہوتا ہے۔ اس کے لغت میں معافی کا لفظ نہیں ہوتا۔ جیسے رؤف کلاسرا صاحب ہیں۔ ہر حکومت وقت کی کرپشن اور ہر سیاسی جماعت کی غیر جمہوری سرگرمیوں کو عیاں کرنا ان کا مزاج ہے۔ اسی باعث یہ ہر دور کی حکومت کے ناپسندیدہ ٹھہرے۔ خان صاحب کے دور میں تو انھیں چینلوں سے نکلوا کر بے روزگار کیا گیا۔ مگر اپنی روش سے یہ باز پھر بھی نہیں آئے۔ اس لیے کہ یہ صحافت کے پیشے کو مقدس سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں صحافت کا بھرم کچھ باقی ہے تو کلاسرا صاحب کے سے چند صحافیوں کی بدولت ہے۔ وگرنہ ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں صحافیوں کی اکثریت نے دلالی شروع کر دی ہے۔ اپنے اپنے یوٹیوب چینلز بنا رکھے ہیں انھوں نے۔ ہر ویلاگ ایک خاص سیاسی جماعت کے حق میں یا اس کے خلاف دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف کرنا ان کا مشن بن چکا ہے۔

جس طرح جنسی دنیا کا دلال موڈھے پہ صافہ رکھے کمرے کے باہر کرسی پہ بیٹھتا اور کسٹمر کی فراغت کے بعد اپنی دلالی لیتا ہے، ایسے ہی صحافی جب ویلاگ کرتا اور کسی خاص سیاسی جماعت کی کمپین چلاتا اور اس کے لیے قوم سے ووٹ مانگتا ہے، تو وہ بھی یہی کام انجام دیتا ہے۔ اس کی دلالی اسے یوں ملتی ہے کہ اسے ویوز اور ان کے بدلے میں ڈالرز ملتے ہیں۔ ضمیر بھی دونوں کا ایک سا ہے اور کام بھی۔ طریقِ کار میں تھوڑا فرق آ جاتا ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan