Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Ye Banda He Ya Dunya Ka Aathwan Ajooba (2)

Ye Banda He Ya Dunya Ka Aathwan Ajooba (2)

یہ بندہ ہے یا دنیا کا آٹھواں عجوبہ (2)

ٹھیک ایک سال کے بعد سابقہ خاوند نے پھر اسے حیران کرنے کی ٹھانی۔ یہی حرکت دوبارہ کر ڈالی۔ یوں کہ دوسری بیٹی پہ ڈورے ڈال لیے۔ وہ بھی بڑی کی طرح اس کے پیار کے جال میں آ گئی۔ وہ اس کے خوابوں کا شہزادہ بن گیا اور وہ اس کے خوابوں کی شہزادی بن گئی۔ فیصلہ کیا کہ یہاں تو یہ شادی ہو نہیں پائے گی۔ تیری ماں اور تیری بڑی بہن ہمارے درمیان ایک دیوار بن کے کھڑے ہو جائیں گے ہیں۔ کیوں نہ رفو چکر ہوا جائے۔ اپنی الگ ایک دنیا بسائی جائے۔ تاریخ پھر دہرائی گئی۔ ہمیشہ کے قرار کے لیے دونوں گھر سے فرار ہو گئے۔

گھر میں پھر رونا پیٹنا شروع ہوگیا۔ وہ پھر وکیل کے پاس گئی اور تھانے میں شکایت درج کروائی۔ سال ڈیڑھ سال کے بعد خبر ملی کہ بیٹی اور داماد کسی جگہ ہنسی خوشی رہ رہے ہیں۔ اس کے وکیل نے صبر کی وہی تلقین کی جو وہ پہلے کر چکا تھا۔ چنانچہ پھر انھیں پیغام بھجوایا گیا کہ تم دونوں آ جاؤ۔ کچھ نہیں کہا جائے گا۔ جب دونوں آئے تو اس کی بیٹی نے گود میں بچی اٹھا رکھی تھی۔ رو دھو کر پھر چپ ہو رہی۔

دن گزرتے رہے اور وہ پھر یقین کر بیٹھی کہ اب یہ ہمیشہ کے لیے سدھر گیا ہے۔ مگر وہ سدا کا ٹیڑھا، کب باز آنے والا تھا۔ اس کی تیسری بیٹی پہ بھی اس نے نظر رکھ لی۔ اسے بھی پیار کے جال میں پھنسا لیا۔ جواباََ اس کے دل میں بھی اس کے لیے جگہ بن گئی۔ پیمان باندھا گیا کہ فلاں تاریخ کو گھر سے بھاگ چلیں گے۔ کیونکہ گھر والے تو یہ رشتہ نہیں ہونے دیں گے۔ چنانچہ مناسب موقع پا کر دونوں فرار ہو گئے۔

اندازہ لگائیں! عورت اور مرد دونوں کی مستقل مزاجی کا۔ عورت اس کی ہر بیہودگی کو آخری بیہودگی سمجھ بیٹھتی اور وہ ہے کہ اس نے اسے ہر بار حیران کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ صرف وہی نہیں عورت کی بیٹیاں بھی اسی ڈگر پہ چل رہی ہیں۔ پہلے بڑی نے ماں سے اس کا خاوند چھینا۔ پھر اس سے چھوٹی نے اس سے چھینا۔ پھر اس سے چھوٹی نے اس سے چھینا۔ بیہودگی کی تالی دونوں اطراف سے بج رہی ہے۔ بندے کی طرف سے بھی اور اس کی بیٹیوں کی طرف سے بھی۔ ایک دلچسپ ڈراما ہے جو اس گھر میں چل رہا ہے۔ ایک عجیب کچھڑی ہے جو یہاں پک رہی ہے۔

خیر، خاموشی سے دونوں مفرور ہو گئے۔ اب ماں کے ساتھ بیٹیاں بھی رو پیٹ رہی ہیں۔ وہ حراماں نصیب پھر وکیل کے پاس گئی اور اسے پھر اپنی بپتا سنائی۔ وکیل نے بھی سابقہ ہدایات دے کر رخصت کر دیا۔ ڈیڑھ دو سال کے بعد خبر ملی کہ جوڑا فلاں مقام پہ گزر بسر کر رہا ہے۔ اس نے وکیل کو بتایا تو اس نے اسے پھر یہی راہ دکھائی کہ ماضی کو بھول جاؤ اور ان کے رشتے کو قبول کرکے دونوں کو لے آؤ۔ چنانچہ جب دونوں واپس آئے تو اس کی بیوی نے گود میں بچی اٹھا رکھی تھی۔ صبر کے گھونٹ اب وہ بھی بھر رہی ہے اور اس کے ساتھ اس کی دونوں بیٹیاں بھی۔ اب ماں کے ساتھ دونوں بیٹیاں بھی رنڈاپا کاٹ رہی ہیں۔

اب اس نے سوچا ہوگا کہ اس کے بعد اس نے کیا بے غیرتی کرنی ہے۔ چلو، چوتھی کی شادی میں کسی سے کر دوں گی جو کہ جوان ہو چکی ہے۔ مگر اسے کیا خبر تھی کہ اس کہانی نے پھر ایک نیا موڑ لینا ہے۔ سابقہ خاوند اسے پھر حیران کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ تھوڑا عرصہ نہیں گزرا کہ وہ چوتھی بیٹی کا عاشق بن بیٹھا۔ بدلے میں وہ بھی اسے دل دے بیٹھی۔ سابقہ روایت کی طرح وہ پھر غائب ہو گئے۔ اب عورت کے ساتھ تینوں بیٹیاں بھی رو رہی ہیں۔ وہ پھر وکیل کے پاس گئی اور اسے یہ رام کہانی سنائی۔ وکیل بھی حیران رہ گیا کہ بندہ کس مٹی کا بنا ہے۔ خیر، اس نے پھر اسے دلاسا دے کر رخصت کر دیا۔ ڈیڑھ دو سال کے بعد ان کی خبر ملی کہ ہنسی خوشی رہ رہے ہیں۔ وکیل کے کہنے پہ وہ پھر انھیں گھر لے آئی۔ جب دونوں آئے تو پرانی روایت کے مطابق اس کی چوتھی بیٹی نے بھی ایک بچی اٹھا رکھی تھی۔ اب چونکہ یہ اس کی آخری بیٹی تھی اس لیے اب اسے کوئی کھٹکا نہیں تھا۔

تصور کریں! بندے کی محبت ان بچیوں کی ماں سے شروع ہوتی ہوئی یکے بعد دیگرے اس کی چاروں بیٹیوں تک پہنچی۔ پیار نے پہلا پڑاؤ عورت کے پاس کیا۔ پھر اس کی بڑی بیٹی کے پاس اور پھر بالترتیب دوسری، تیسری اور چوتھی کے پاس۔ اس واقعے کو تو گنیز بک میں درج ہونا چاہیے۔

یہ واقعہ بالکل سچا ہے۔ معروف کامیڈین سجاد جانی صاحب کے لاہور کے دوست اس وکیل نے سنایا، جسے اس عورت نے اپنا وکیل کیا تھا۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali