Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Ye Banda He Ya Dunya Ka Aathwan Ajooba (1)

Ye Banda He Ya Dunya Ka Aathwan Ajooba (1)

یہ بندہ ہے یا دنیا کا آٹھواں عجوبہ (1)

اللہ نے سب سے زیادہ حیران کن صفات اگر کسی مخلوق میں پیدا کی ہیں تو وہ حضرت انسان ہے۔ سات ارب لوگ ہیں تو سات ارب ہی دنیائیں سمجھیں۔ ایسے ایسے لوگ زندگی میں آتے ہیں کہ حیران کر جاتے ہیں۔ بظاہر بہت بیبے، نیک اور شریف النفس مگر جب ان کے قریب ہوں تو پتا چلتا ہے کہ یہ موصوف تو بہت حضرت ہیں۔ اپنی اصل شخصیت انھوں نے کچھ ایسی ملفوف کر رکھی ہوتی ہے، اسے اس ڈھب سے ان دیکھے پردوں میں چھپا رکھا ہوتا ہے کہ وہ بظاہر نظر نہیں آتی۔

ایسے ہی ایک بندے کا ذکر آج مقصود ہے جس کی طبیعت میں خدا نے کچھ ایسی عجیب نفسیات رکھی تھی کہ وہ اپنے لوگوں کو ہر بار حیران کر دیتا۔ لوگ خیال کرتے کہ اس نے جو حرکت کی ہے، ممکن ہی نہیں کہ یہ اس سے بڑھ کر اور حرکت کرے۔ مگر وہ ہر بار ان کے اندازے غلط ثابت کر دیتا۔

بیوہ عورت اپنی چار بچیوں کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔ اب وہ باہر سے خود ہی کچھ کما لاتی اور گھر بھر کو چلاتی۔ کسی واقف نے اس کے رشتے کی بات کی تو اس نے ہاں کر دی۔ اس نے جانا کہ عزت بھی محفوظ ہو جائے گی اور کمانے کی ذلت سے بھی بچ جائے گی۔ شادی اس کی ہوگئی۔ اس کی سابقہ چار میں سے دو بیٹیاں جوان اور دوسری اور تیسری جوان ہونے کے قریب تھی۔ اب اس کی بڑی بیٹی پہ میاں کا دل آ گیا۔ محبت کا کچھ ایسا چکر چلایا کہ وہ اس کے بہکاوے میں آ گئی۔ باہم عہد وپیمان باندھے گئے، جینے مرنے کی قسمیں کھائی گئیں۔ میاں نے کہا کہ دو دلوں کے بیچ میں یہ ظالم سماج کھڑا ہے۔ کیوں نہ بھاگ چلیں اور اپنی ایک الگ دنیا بسائیں۔ اندازہ لگائیں! کہہ کون رہا ہے! سوتیلا باپ۔ کس سے کہہ رہا ہے! سوتیلی بیٹی سے اور کس روپ میں! عاشق کے روپ میں۔ آگے وہ بھی الٹی کھوپڑی کی۔ رشتہ بھلا کر ماں کے خاوند پہ قبضہ جمانے چلی ہے۔ پس ایک دن چپکے سے دونوں بھاگ گئے۔

پتا چلتے ہی گھر میں صف ماتم بچھ گئی۔ عورت ہکا بکا رہ گئی کہ سگی بیٹی ہی اس کا خاوند لے اڑی۔ کم بخت بھاگی بھی تو کس کے ساتھ اور وہ بدبخت بھاگا بھی تو کس کے ساتھ۔ اسے پتا ہی نہ چلا کہ گھر میں پیو دھی کا چکر چل رہا ہے۔ اس نے رونا پیٹنا شروع کر دیا۔ جا تھانے میں رپٹ درج کرائی۔ ایک وکیل کیا۔ ٹھیک ایک سال کے بعد پتا چلا کہ موصوف نے ایک جگہ پہ اپنا گھر بسا رکھا ہے۔ اس نے وکیل کو بتایا تو اس نے اسے سمجھایا کہ جو ہونا تھا ہوگیا۔ اب اسے جیل میں ڈلوانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اب وہ تیری بیٹی کا خاوند اور تیرا داماد ہے۔ ان دونوں کے رشتے کو قبول کر اور پیار سے، عزت سے دونوں کو گھر لے آ۔ وہ بے بس مان گئی۔ مانے بغیر چارہ بھی کوئی نہیں تھا۔ اس نے انھیں پیغام بھجوایا کہ آپ دونوں گھر آ جائیں۔ تمھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔

جب وہ میاں بیوی گھر آئے تو بیگم، یعنی اس کی بیٹی نے گود میں بچی اٹھا رکھی تھی۔ صبر کے گھونٹ بھر کر بےچاری چپ ہو رہی۔ تقدیر کا لکھا سمجھ کر اس نے قبول کر لیا۔ اس نے سوچا ہوگا کہ یہ اس کی پہلی اور آخری بیہودگی ہے۔ اب یہ اسی نہج پہ ساری زندگی گزارے گا۔ خیر، گھر میں ایک کمرہ دونوں کو دے دیا۔ سابقہ خاوند نے معافی مانگ کر اس کے دل میں اور گھر میں جگہ بنا لی۔ اب کل کی بیوی اس کی ساس ہے اور کل کی سوتیلی بیٹی اس کی بیوی ہے۔ وقت نے کیسا پلٹا کھایا! سگی دھی نے ہی کھسم کھو لیا۔ اب اس بے چاری کے دل پہ جو بیتتی ہے یہ وہ جانتی ہے یا اس کا خدا۔ اکیلی کمرے آہیں بھر بھر کروٹیں بدلتی ہے۔ اسے کیا خبر تھی کہ جو داستان شروع ہوئی ہے یہ اس کا ابھی پہلا باب ہے۔ ابھی اس پہ مزید حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹنے ہیں۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam