Waldain Bachon Ko Jinsi Shaoor Dein
والدین بچوں کو جنسی شعور دیں

دنیا میں بچے سب سے زیادہ والدین کے قریب ہوتے ہیں۔ جتنی قربت والدین اور بچوں کے رشتے میں ہوتی ہے اتنی قربت دنیا کے کسی رشتے میں نہیں ہوتی۔ اس اعتبار سے بچوں کی حفاظت کی ذمے داری بھی سب سے زیادہ والدین پہ عائد ہوتی ہے، خاص کر ماں پہ۔ ماں اگر بچے کے جسمانی تحفظ کی ذمے دار ہے تو اس کے جنسی تحفظ کی ذمے داری بھی اسے نبھانی چاہیے۔
ماں بچے کے کھانے پینے کا بر وقت اہتمام کرتی ہے۔ حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق اپنے بچے کو خوراک دیتی ہے۔ اسے لگے کہ بچہ کمزور ہو رہا ہے تو اپنی ساری توجہ اس پہ مرکوز کر دیتی ہے۔ اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاتی ہے۔ اسے قوت بخش خوراک دیتی ہے تاکہ اس کا جسم کمزور نہ پڑے، بچہ جسمانی طور پر صحت مند ہو۔ کیا ماں جنسی حوالے سے بھی بچے کی اسی طرح کیئر کرتی ہے! جواب نفی میں آئے گا۔
خود بتائیں بچے کو اگر کوئی رشتے دار، محلے دار، اس کا استاد یا استانی یا اجنبی جنسی طور پر استعمال کرے، اسے بیڈ ٹچ کرے، غلیظ سوچ کے ساتھ اس کے گالوں پہ یا اس کے جسم پہ ہاتھ پھیرے یا اسے گود میں بٹھائے یا چومے چاٹے، تو بچہ جان پائے گا کہ اس کے ساتھ کچھ برا ہو رہا ہے۔ بالکل نہیں۔ 50 بچوں کی کلاس ہو اور سب کے ساتھ باری باری یہی عمل دہرایا جائے تو میرے خیال شاید ہی کوئی بچہ محسوس کر پائے گا کہ وہ کسی کا جنسی ہدف ہے۔ وجہ؟ ماں کی جہالت، باپ کی نادانی۔
کس نے شعور دینا ہے بچے کو کہ اگر کوئی برے طریقے سے آپ کو چھوئے، آپ کے جسم کے نازک اعضا کو چھیڑے، تو فوراََ وہاں سے اٹھ آنا ہے کوئی بہانہ بنا کر اور سیدھا ہمیں بتانا ہے۔ بچوں کے حوالے سے والدین کو جنسی مغالطوں سے نکل آنا چاہیے۔ جنسی بے راہ روی کا شکار ایسے ایسے پڑھے لکھوں اور عمر رسیدہ لوگوں کو دیکھا ہے کہ اس باب میں ہر قسم کا مغالطہ دور ہوگیا ہے۔ کیا علما اور کیا جہلا، کیا شرفا اور کیا غیر شرفا، کیا تعلیم یافتہ اور کیا ان پڑھ، کیا استاد، قاری، حافظ، پیر اور مولوی اور کیا بزرگ، جنسی حوالے سے کسی کا بھی دماغ کسی بھی وقت خراب ہو سکتا ہے۔ اس ملک میں آپ اپنے بچوں کے معاملے میں کسی طبقے پہ اندھا اعتماد نہیں کر سکتے۔
جنسی بیہودگی اپنی ذات میں کسی شرط کی قائل نہیں۔ یہ جنسی علت اتنی نامراد ہے کہ یہ بعض اوقات نوعمری یا جوانی کے دور سے لگ جاتی ہے۔ جس طرح ہر طبقے اور ہر عمر کا مرد اس کا شکار ہو سکتا ہے، اسی طرح ہر طبقے اور ہر عمر کی عورت اس کی لپیٹ میں آ سکتی ہے۔ ہمارے ہاں جب بچی یا بچہ جنسی زیادتی کا شکار ہوتا ہے اور اس کے بعد واویلا مچتا ہے تو اس کے بعد جو کہا جاتا ہے وہ کچھ اس طرح ہے: ہمیں کیا پتہ تھا کہ یہ اس قدر درندہ نکل آئے گا یا یہ اس قدر غلیظ عورت نکل آئے گی۔ یہ کیوں ہوتا ہے؟
جنسی مغالطوں کی وجہ سے۔ یہ مغالطے والدین کا ذہن ماؤف کر دیتے ہیں، یہ والدین کو اندھے اعتماد کی طرف لے جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ پھر حادثات کی صورت میں نکلتا ہے۔ حادثہ صرف زیادتی کی صورت میں نہیں، بچے بچی کے قتل کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔ بچوں کو جنسی شعور نہ دینا والدین کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیتا ہے۔
اس ملک میں ہر سال ہزاروں بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں اور ان میں سے سینکڑوں کی تعداد قتل بھی ہوتی ہے۔ جنسی مجرمین اپنا گناہ چھپانے کے لیے بچوں کو مار ڈالتے ہیں۔ اخبارات میں ہر دوسرے تیسرے دن خبر لگی ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے اس قسم کے حادثات سے۔ اس کے باوجود والدین نے بے حسی کی چادر اوڑھ رکھی ہوتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اوروں کے ساتھ ایسا ہوا ہے۔ ہمارے بچوں کے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ بھئی! وجہ؟ آپ کے بچے آسمان سے اترے ہیں؟ یا انھیں ہاتھ لگاتے ہی جنسی مجرم کو کرنٹ لگ جائے گا۔ بعد میں رو رو کر آسمان سر پہ اٹھانے کی بجائے بہتر ہے بچوں کو جنسی شعور دیں۔ انھیں اپنا آپ سنبھالنا سکھائیں۔ انھیں بتائیں کہ اگر کوئی آپ کو بار بار یا یا ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا ہے یا آپ کو چھوتا ہے اور پھر وہ چھوتا چلا جاتا ہے تو یہ خطرے کی نشانی ہے۔ آپ اسے ماں باپ کا پیار نہ سمجھیں۔
بچہ اس مغالطے میں ہوتا ہے کہ یہ مرد مجھے ابو کی طرح محبت کر رہا ہے یا یہ عورت مجھے میری امی کی طرح پیار کر رہی ہے۔ بچے کا یہ جھانسا اور اس کی یہ غلط فہمی مرد یا عورت کا حوصلہ بڑھاتی اور اس کا کام آسان کرتی ہے۔ اس لیے والدین سے درخواست ہے کہ خدارا اپنے بچوں کو اتنا شعور ضرور دیں کہ وہ اپنی جنسی زندگی (sexual life) کی حفاظت کر سکیں۔
یاد رکھیں! بچے کے ساتھ کی گئی جنسی زیادتی اس کی شخصیت کچل کر رکھ دیتی ہے اور اگر وہ اس کے بعد قتل ہو جائے تو ماں جیتے جی مر جاتی ہے۔ وہ ساری زندگی اپنے پھول کو بھول نہیں پاتی۔ قبل اس سے کہ یہ حادثہ آپ کی زندگی کو روگ بنا دے اور آپ گھر کے کونوں کھدروں میں منہ دے دے روئیں، بچوں کو جنسی لحاظ سے شعور دیں۔

