Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Waldain Bachon Ko Jinsi Shaoor Dein Asatza Ke Hawalay Se

Waldain Bachon Ko Jinsi Shaoor Dein Asatza Ke Hawalay Se

والدین بچوں کو جنسی شعور دیں اساتذہ کے حوالے سے

والدین نے کیا سمجھ رکھا ہے کہ صرف بچے پیدا کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ اخلاقی حوالے سے بچوں کی تربیت کیا فرشتے کریں گے۔ ہم جس سماج میں رہ رہے ہیں، یہ مردانہ سماج ہے۔ اس میں مرد ایک بالادست طبقے کے روپ میں ہے اور عورت کی حیثیت ایک کنیز، ایک باندی اور ایک لونڈی سے زیادہ نہیں۔ عورت اس معاشرے میں دوسرے درجے کی مخلوق ہے۔ جبھی تو ہر کوئی آتی جاتی لڑکی کو للچائی نظروں سے دیکھتا اور من ہی من میں اسے اپنی قربت کے لیے بلاتا ہے۔

یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ ہر مرد عورت کو تاڑتا ہوا گزرتا ہے۔ جی! بلا تخصیص ہر مرد، کیا بابا، کیا مولوی، کیا قاری، کیا حافظ، کیا پروفیسر، کیا مزدور۔ جب تک وہ عورت کے سراپے کا اچھی طرح جائزہ نہ لے لے، اسے چین نہیں پڑتا۔ گلی بازار میں گزرتی لڑکی کو سر تا پا غور سے دیکھے گا، اکھیوں کو تسکین دے گا اور ٹھنڈے ہو کے بھرتا گزر جائے گا۔

یہ ہے اصل تصویر ہمارے معاشرے کی۔ ایسے شرمناک ماحول میں والدین کی ذمہ داری بچوں اور بچیوں کو جنسی شعور دینے کے حوالے سے مزید بڑھ جاتی ہے۔ آج کے اس عنوان میں ہم جنسی شعور کو محض اساتذہ تک محدود رکھیں گے۔

دیکھیں! بچے والدین کے بعد سب سے زیادہ عزت اپنے اساتذہ کی کرتے ہیں۔ ایک طرح سے وہ انھیں اپنا مائی باپ سمجھتے ہیں۔ اپنے روحانی باپ کا حکم وہ اسی طرح بجا لاتے ہیں، جیسے اپنے ماں باپ کا۔ بچوں اور بچیوں کی اسی شرافت کا اب اکثر اساتذہ ناجائز فائدہ اٹھانے لگے ہیں۔ ان کے پاس کئی داؤ پیچ ہوتے ہیں بچیوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے۔ ایک داؤ شادی کرنے کے وعدے کا ہے۔ یہ بہت آزمودہ اور کار آمد نسخہ ہے۔ آپ گوگل پہ بس اتنا لکھیں کہ "شادی کا جھانسا دے کر"۔ نیچے لائن لگ جائے گی اس قسم کے جنسی واقعات کی۔

اس واقعے میں ایک استاد اسی لائحۂ عمل کو بروئے کار لاتا اور اپنی ہی سٹوڈنٹ کو اپنی داشتہ یا رکھیل بنا لیتا ہے۔ کہتا ہے کہ میری بیوی مر گئی ہے اور میں تجھ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ وہ کہتی ہے کہ میرے والدین سے بات کریں۔ لڑکی کے اس ایک فقرے سے اندازہ لگائیں کہ عورت کی فطرت میں حیا کیسے کوٹ کوٹ کر بھری ہے اللہ تعالیٰ نے۔ وگرنہ لڑکی غیر شادی شدہ ہو اور اوپر سے ایک محفوظ ماحول میں اسے اپنا ہی ایک استاد اپنی قربتیں عنایت کرے تو وہ کیوں نہ اپنی تسکین چاہے گی۔ مگر اپنی فطری حیا کے باعث وہ اسے منع کرتی اور مناسب رستہ دکھاتی ہے۔ لڑکی کے اس جواب کے بعد وہ اپنی چکنی چپڑی باتوں سے اسے ورغلا لیتا ہے۔

اس کا بہکنا دو وجہ سے ممکن ہوا۔ ایک تو والدین اور بچیوں کے مابین دوری۔ والدین بیٹیوں کو سمجھاتے نہیں کہ جنسی رجحان کے نتائج کا قدر خطرناک ہوں گے اور دوسرے، حیلے بہانوں سے اس کا اس کے قریب ہونا، اچھے نمبروں کا لالچ اور پھر زور زبردستی۔ ظاہر ہے تنہائی میں ایک استاد کے روپ میں ایک مرد اوپر سے جوانی تو پھسلنا تو بنتا ہے اور یہ یکدم نہیں ہوا۔ ایک عرصہ لگا اسے۔ جہاں تک مزاحمت دکھائی جا سکتی تھی اس بےچاری نے دکھائی۔ شروع میں اس نے اس نے روک دیا تھا۔ اس کے بعد وہ اپنے جذبات کی رَو میں بہہ گئی۔ ماحول میں ٹیچر نے سیکس ہی اس قدر بھر دیا تھا کہ وہ خود کو سنبھال نہیں سکی۔ یوں اس باب میں اسے تقریباً بے گناہ ہی جانیں۔ اکیڈمی میں وہ پھر بدبخت ٹیچر اس سے اپنی جنسی ہوس پوری کرتا ہے اور اس کے بعد یہ سلسلہ چل سو چل۔

ذیل میں راولپنڈی میں جنسی وقوعے کو غور سے پڑھیں۔ جانچیں کہ پرنسپل کیسے کیسے پینترے بدلتا رہا بچی کو اپنا جنسی ہدف بنانے کے لیے۔ اس معاملے میں مَیں پرنسپل سے پہلے والدین کو قصوروار ٹھہراؤں گا، جو ایک زمانہ دیکھ چکنے کے باوجود اپنی بچی کو کوئی جنسی شعور ہی نہیں دے پائے۔ کیا باپ کے علم میں ایسے واقعات نہیں آئے! جب دوسروں کی بچیوں کے ساتھ ایسا ممکن ہے تو تیری بچی کے ساتھ کیوں ممکن نہیں!

خدارا! بچیوں کو والدین یہ سمجھائیں کہ آپ اپنی ہر بات ہم سے شیئر کریں کوئی آپ کو تنگ کرتا ہے تو فوراََ ہمیں مطلع کریں۔ اگر کوئی مسئلہ بن گیا ہے، کسی نے زبردستی کچھ برا کیا ہے اور ساتھ وڈیو بھی بنا لی ہے، تو بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم آپ کا مسئلہ حل کریں گے۔ یہ اعتماد اگر بچی کو مل جائے تو اس کے بہکنے کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں۔

تو لیجیے! وقوعہ پڑھیں:

راولپنڈی کے تھانہ پیرودھائی کے علاقے میں شادی کا جھانسا دے کر اور امتحان کی تیاری کرانے کے بہانے بلا کر میٹرک کی طالبہ کو مبینہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے اکیڈمی پرنسپل کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق طالبہ حاملہ ہوئی، تو ملزم نے نجی کلینک لے جا کر چیک آپ کرایا اور ادویات دیتا رہا، جس سے حمل ضائع ہوگیا۔ پولیس نے اکیڈمی پرنسپل ضیاء الرحمان کے خلاف زیادتی و اسقاطِ حمل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے اسے گرفتار کرلیا۔

راولپنڈی پولیس نے اپنے جاری بیان میں کہا کہ متاثرہ طالبہ کے میڈیکل پراسیس کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ایس پی راول سعد ارشد نے کہا کہ زیرِ حراست شخص کو ٹھوس شواہد کے ساتھ عدالت میں پیش کرکے قرارِ واقعی سزا دلوائی جائے گی۔ خواتین بچوں سے زیادتی، تشدد یا ہراسمنٹ ناقابل برداشت ہے۔

مقدمے کے متن کے مطابق سال 2023ء میں اسد اکیڈمی خیابانِ سر سید میں میڑک کلاس میں داخلہ لیا۔ مئی 2025 میں اکیڈمی کے پرنسپل ضیاءالرحمان نے کہا کہ میری اولاد نہیں۔ مجھ سے شادی کرلو۔ اس نے پرنسپل کو منع کردیا اور کہا کہ ایسا کوئی رشتہ قائم کرنا ہے، تو میرے والدین سے بات کر لیں۔

طالبہ نے کہا کہ اس نے حیلے بہانوں سے میرے قریب ہونا شروع کردیا۔ ٹیوشن پڑھانے اور اچھے نمبروں کا لالچ دینے لگا۔ طالبہ ہونے کے ناتے اپنے خاندان کی بدنامی کی ڈر سے خاموش رہی۔

طالبہ نے کہا کہ 21 مئی کو پیپر کی تیاری کے لیے اکیڈمی بلوایا۔ وہاں گئی تو تمام اسٹوڈنٹس چھٹی کرکے جاچکے تھے۔ پرنسپل اکیڈمی میں بیٹھا تھا۔ تمام دروازے بند کرکے مجھ سے زبردستی زیادتی کی اور کسی کو بتانے کی صورت میں دھمکیاں دیں۔

متاثرہ طالبہ نے مقدمے میں مزید کہا کہ پرنسپل کہتا رہا کہ میں جلد تم سے شادی کرلوں گا۔ میری طبیعت خراب ہونا شروع ہوگئی، تو صدر کے ایک نجی کلینک میں لے جاکر علاج کرایا۔ ایک ماہ بعد مجھے پتہ چلا کہ میں حاملہ ہوچکی ہوں، جس پر میں نے ضیاءالرحمان کو بتایا تو اس نے کوئی دوائی لاکر دی۔

طالبہ نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں تھا لیکن استعمال کرنے پر میری طبعیت خراب ہوگئی۔ بعد میں پتا چلا کہ دوائی اسقاطِ حمل کی تھی۔ میرا حمل ضائع ہوگیا۔ ضیاء الرحمان کو پتا چلا تو اس نے کہا اب تم کسی سے شادی کے قابل نہیں۔ میں ہی تم سے شادی کروں گا، لیکن کچھ وقت درکار ہے۔

مزید کہا گیا کہ جولائی میں پرنسپل ضیاءالرحمان نے اکیڈمی کے دفتر کے اندر ہی مجھ سے زبردستی زیادتی کی اور دھمکیاں دیں کہ کسی کو بتایا تو شادی نہیں کروں گا۔ اس کے بعد بھی مختلف اوقات میں وہ بلیک میل کرکے زیادتی کرتا رہا، جس سے دوبارہ حاملہ ہوگئی۔

متن کے مطابق لڑکی نے کہا کہ ضیاءالرحمان سے شادی کی ضد کی تو وہ ذہنی و جسمانی ٹارچر کرنے لگا۔ خاندان کی عزت کی وجہ سے سخت پریشان رہنے لگی، جس سے حمل از خود ضائع ہوگیا۔

اکیڈمی پرنسپل ضیاءالرحمان نے درس و تدریس کے مقدس پیشے کی آڑ میں شادی کا جھانسا دے کر زبردستی زیادتی کرکے حاملہ کرنے اور پھر حمل ضائع کرکے سخت زیادتی کی اور میری زندگی برباد کردی۔ پس پرنسپل کے خلاف مقدمہ درج کرکے انصاف فراہم کیا جائے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam