Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. TLP Ka Dharna Mulk Dost Ya Mulk Dushman

TLP Ka Dharna Mulk Dost Ya Mulk Dushman

ٹی ایل پی کا دھرنا ملک دوست یا ملک دشمن

ایک وقت تھا ملک ڈیفالٹ کے کنارے پہ تھا۔ ادائیگیوں کا توازن بری طرح بگڑ چکا تھا۔ دنیا بھر میں پاکستان ایک ناکام ریاست کے طور جانا جانے لگا تھا۔ مودی تک نے کہہ دیا تھا کہ ہم پاکستان سے کیا بات کریں، اس کے تو دانے پورے نہیں ہو رہے، جس گھر دو ڈنگ دی روٹی نئیں پئی پک دے اوندے نال کیہ گل کرنی۔ یعنی بھارت جوتے کی نوک پہ رکھ رہا تھا ہمیں۔ امریکی گھاس تک نہیں ڈال رہے تھے۔ غیر تو غیر اپنے بھی منہ نہیں لگا رہے تھے۔ کیا سعودی عرب، کیا متحدہ عرب امارات، کیا کویت اور کیا ترکی سبھی نے منہ موڑ رکھا تھا۔ جب جاتے تو بڑبڑاتے آ گئے نیں کشکول اٹھائے، جھولی چک۔ دے جا سخیا راہِ خدا تیرا اللہ بوٹا لائے۔

ان برے احوال میں پاکستان نے جھرجھری لی اور فیصلہ کیا پوری قوت کے ساتھ کہ اب نہیں تو کب جاگیں گے، ہم نہ اٹھے تو کون اٹھائے گا ہمیں۔ فوجی اور سیاسی قیادت نے مل کر چلنے کا فیصلہ کیا۔ حالات بہتر ہونے لگے۔ آئی ایم ایف کی ڈیل مل گئی۔ ملک میں معاشی سرگرمیاں ہونے لگیں۔ سونے پہ سہاگا یہ ہوا کہ بھارت نے ایک ایسا ایڈوینچر کر دیا جو نہ صرف اس کے گلے پڑ گیا بلکہ دنیا حیران رہ گئی کہ کس طرح پاکستان نے خود سے چھے گنا بڑے دشمن کو شکست دے ڈالی۔ ایک دو نہیں پورے سات جنگی جہاز اس کے گھر میں جا کر تباہ کر ڈالے۔ پاکستان کی گڈی چڑھ گئی۔ بھارت کی بو کاٹا ہوگئی۔

کل تک جو ممالک پاکستان کا نام سننا گوارا نہیں کرتے تھے آج وہ ہمارے رستے میں پلکیں بچھاتے ہیں۔ سعودی عرب کی سکیورٹی کا اعزاز ہمارے حصے میں آ گیا۔ اب مکے مدینے کی حفاظت ہم کریں گے۔ اس سے بڑی سعادت کی بات ہے کوئی!

امریکہ ہمارے واری صدقے جا رہا ہے۔ کل تک جو بھارت اس کی ڈارلنگ تھا، آج اسے نفرت سے اس نے پرے دھکیل دیا ہے۔ آج بھارت تنہائی کا شکار ہے، جیسے کبھی پاکستان ہوا کرتا تھا۔ جنگ میں اسے بری طرح شکست کیا ہوئی، اس کے چھے سات جہاز کیا گرے دنیا اس پہ تھو تھو کرنے لگی۔ پورے بھارت میں مودی اور اس کی بی جے پی پہ لعنتیں پڑ رہی ہیں۔ او بدبختو! اپنے سے چھے گنا کم دشمن سے ہار گئے ہو۔ ڈوب مرو کہیں جا کر۔

یہ ہے تصویر کا ایک رخ۔ اب اس کا دوسرا رخ بھی دیکھ لیں۔ ہزیمت کے بعد مودی زخمی سانپ کی طرح پھنکار رہا ہے۔ بی جے پی کا بس نہیں چل رہا کہ پاکستان کو سالم نگل جائے۔ اب انھوں نے پاکستان سے بدلہ لینے کی ٹھانی ہے اور اس کی صورت یہ نکالی ہے کہ ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کو وافر مقدار میں پیسہ اور اسلحہ دینا شروع کر دیا ہے۔ خزانوں کے منہ کھول دیے ہیں اس نے۔

اب ہر روز دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں۔ روز ہمارے فوجی جوان شہادتیں دے رہے ہیں۔ ایک فوجی کی لاش آرمی چیف اور اور اس کے ادارے کو جھنجوڑ کے رکھ دیتی ہے۔ ہر فوجی جوان آرمی چیف کے بیٹے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہر فوجی جوان اپنے ادارے کے لیے ایسے ہے جیسے جسم کا کوئی حصہ۔ جب کسی جوان کو کوئی دہشت گرد نشانہ بنائے تو لگتا ہے آرمی کے جسد کا ایک حصہ الگ ہوگیا۔ نیز دہشت گردی سے دنیا کو پیغام جاتا ہے کہ پاکستان ایک محفوظ ملک نہیں۔ کوئی بندہ یہاں آنے نہ پائے۔ سرمایہ کار اس ملک میں سرمایہ کاری نہیں کرتا جہاں اسے اپنی جان کا خطرہ ہو۔

یعنی ایک طرف دہشت گردی اپنے عروج پہ ہے اور دوسری طرف تحریک لبیک پاکستان والے مذہبی شہزادے سڑکیں بلاک کرکے سیدھے امریکی ایمبیسی کے سامنے دھرنے کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں۔ یہ حالات اجازت دیتے ہیں مارچ کرنے کی! مارچ ہوا میں نہیں ہونا سڑکوں پہ ہونا ہے۔ جہاں زندگی رواں دواں ہے، سڑکوں کا چلنا ایک زندہ معاشرے کی نشانی ہے۔ سڑکوں کے ذریعے ہی ضروریات زندگی کا سامان ہم تک پہنچتا ہے۔ اگر یہ سامان بروقت نہ پہنچے تو مہنگائی مزید بڑھتی ہے۔ پھر جو لوگ سڑکوں پہ بسوں میں گاڑیوں میں ہوتے ہیں وہ الگ سے ذلیل ہوتے ہیں اور ان کے پیارے الگ سے پریشان۔ کیا اسلام ایسے بیہودہ رویوں کی اجازت دیتا ہے! یہ ٹی ایل پی والے ملک کے دوست ہیں یا دشمن! نامراد کہیں کے!

اب ان کے ملک جام کرنے کے جواز کو دیکھیں تو ہنسی بھی آئے گی اور رونا بھی۔ جن کا مسئلہ ہے وہ ساری شرطیں مان چکے۔ عرب ریاستیں مان چکیں، فلسطینی مان چکے اور حماس مان چکی۔ اس نے تو غزہ پہ حقِ حکمرانی سے دستبردار ہونے کی کڑوی گولی بھی نگل لی۔ یعنی اسرائیل سے براہِ راست جن کی لڑائی ہے وہ مان گئے، نہیں مان رہے تو یہ سر پھرے نہیں مان رہے۔ 7 اکتوبر 2023 سے اب تک 75 ہزار فلسطینی بےدردی سے مارے جا چکے ہیں۔ پورا غزہ کھنڈر بن گیا ہے۔ آج اگر انھوں نے سکھ کا سانس لیا ہے جنگ بندی پہ تو سعد رضوی پریشان ہوگیا ہے کہ ایسا ہوا کیوں۔ تف ہے تیری ایسی وحشت بھری سوچ پہ اے سعد رضوی، اے ٹی ایل پی!

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan