Tipu Sultan Ko Kyun Shikast Hui (2)
ٹیپو سلطان کو کیوں شکست ہوئی

بات ہو رہی تھی ٹیپو سلطان کی شکست کے اسباب کی۔ اس کے دو اسباب عارضی تھے، یعنی مستقل نہیں تھے اور ایک سبب پکا اور مستقل تھا۔ پہلا سبب مرہٹہ قوم اور نظام آف حیدرآباد کا انگریزوں سے ملنا تھا۔ بلکہ انگریزوں کا انھیں اپنے ساتھ ملانا تھا۔ اب اکیلی میسور کی ریاست انگریزوں کے کباب میں ہڈی تھی۔ یہ ہڈی اب انگریزوں نے نکالنی تھی۔ ان کا یہ آخری کانٹا نکل جائے تو پورا برصغیر پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی جھولی میں آ گرے۔ خیر، پہلا سبب اپنے ہی خطے کی دیگر قوموں کا انگریزوں سے جا ملنا تھا اور دوسرا سبب جناب کی بےوجہ نرمی اور بےتکی رحم دلی تھی۔
غدار غداری کرے اور ریاست کا سربراہ اسے معاف کر دے، تو پھر اس کی ریاست کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اس کی ریاست کا شیرازہ بکھرے گا۔ پہلے بھی لکھ چکا کہ حضرت عمرؓ کی حکومت اگر مضبوط ترین تھی، تو اس کا ایک باعث مجرموں اور گنہگاروں کے حوالے سے آپ کا بےرحم ہونا تھا۔ صحابی رسول اور مصر کے گورنر عمرو بن عاصؓ کے بیٹے کو اس کے سامنے بھری محفل میں کوڑے مروائے تھے ایک عام مظلوم کے ہاتھوں۔ اسی پہ بس نہیں۔ باپ کو بھی سزا دلوانے لگے تھے۔ وہ تو مظلوم نہیں مانا۔
اچھا اکثر مؤرخین یہاں آ کر زیادتی کر جاتے ہیں۔ وہ ٹیپو سلطان کی شکست کے یہی دو اسباب بیان کرتے ہیں۔ جبکہ یہ اسباب اگر نہ بھی ہوتے، تو بھی میسور کی ریاست ٹیپو سلطان کی زندگی تک ہی کامیاب تھی۔ ان کی موت کے بعد پھر بھی اس ریاست پہ انگریز کا قبضہ ہونا تھا۔ وجہ؟ سائنسی دماغ۔ انگریزوں کے پیچھے سائنس کی طاقت تھی۔ اس وقت ان کی سرزمین برطانیہ بڑی تعداد میں سائنسدان پیدا کر رہی تھی۔ برطانیہ میں ملوں اور فیکٹریوں کا جال بچھایا جا رہا تھا۔ یہ ہے وہ اصل سبب، جس کی وجہ سے برصغیر انگریز کے قبضے میں چلا گیا۔
یاد رکھیں! سائنس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔ سائنس اہلِ کفر کے پاس ہو اور مقابلے میں اہلِ ایمان ہوں، مگر ان کے پاس سائنسی علوم نہ ہوں، تو یہ اہل ایمان شکست کھا جائیں گے۔ انھوں نے ہاتھوں میں قرآن پکڑا ہو، ہر مسلمان پانچ وقت کا نمازی ہو، تہجد گزار ہو، شیخ القرآن ہو، شیخ الحدیث ہو، مفتی ہو، اللہ والا ہو، پھر بھی سائنسی طاقتوں کے آگے مسلمانوں کو گھٹنے ٹیکنا پڑیں گے، ناک رگڑنی پڑے گی، مار کھانی ہوگی۔
ٹیپو سلطان کو اصل شکست جس طاقت نے دی، وہ سائنس تھی۔ انگریزوں نے جو پورے برے صغیر کی طاقتوں کو اپنے ساتھ ملایا، تو یہ ذہانت انھیں سائنسی علوم نے دی تھی اور یہ سائنسی علوم کہاں پیدا ہو رہے تھے! آکسفورڈ یونیورسٹی میں۔ کب بنی تھی یہ! 1133 عیسوی میں، یعنی 12 ویں صدی عیسوی میں اور ہمارے مسلمان اس وقت بنا رہے تھے تاج محل، مقبرے، شالامار باغ۔
انگریز کو یہ ساری برکتیں سائنس کی بدولت ملی تھیں۔ اسی کے دم پر وہ آندھی اور طوفان کی طرح آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے برصغیر پہ چھا گئے۔ بہت جلد اس وسیع خطے کو اپنی مٹھی میں انھوں نے جکڑ لیا۔ یہاں ہمارا یہ اعتراض نہیں بنتا کہ انھوں نے سازشیں کیں۔ آپ بھی سازشیں کر لیتے۔ کس نے روکا تھا! مگر نہیں۔ آپ چاہ کر بھی ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ کیونکہ سازش ایک سائنسی دماغ ہی کر سکتا ہے، اگلی حکومت اور فوج کے بندے توڑ سکتا ہے، غدار پیدا کر سکتا ہے۔ میر صادق اینڈ کمپنی کو غدار کس نے بنایا! سائنسی دماغوں نے۔ ٹیپو سلطان کیوں انگریزوں میں غدار پیدا نہیں کر سکا! کیا انگریز بندے نہیں تھے! وہ بھی ہماری ہی طرح کے گوشت پوست کے انسان تھے۔ پر ان میں اور ٹیپو سلطان میں جو بنیادی اور جوہری فرق تھا، وہ سائنس تھی۔ دماغوں کی حکومت ایک سائنسی ماحول میں ہوتی ہے اور جہاں دماغوں کی حکومت ہو، وہاں غدار پیدا نہیں ہوتے اور جہاں محض جذبوں کے حکمرانی ہو، وہاں جتنے جی چاہیں، غدار پیدا کر لیں۔
اب میں آپ کے سامنے ایک سوال رکھتا ہوں۔ اگر ٹیپو سلطان اپنے غداروں کی گردنیں اڑا دیتا اور انگریزوں کی فوجوں کو بھی مارتے مارتے، بھگاتے بھگاتے سرحدوں کے پار پہنچا دیتا، تو کیا پھر ہندوستان پہ انگریزوں کا قبضہ نہیں ہونا تھا، کیا تاریخ کا دھارا بدل جانا تھا، کیا تاریخ کا رخ پھر جانا تھا! اگر آپ یہ سوچ رکھتے ہیں، تو یہ آپ کی بھول ہے۔ وجہ؟ ٹیپو سلطان کے بعد لائنیں نہیں لگی تھیں مزید ٹیپو سلطانوں کی۔ ٹیپو سلطان صرف ایک تھا۔ تو ایک بندہ کب تک جی سکتا ہے! زیادہ سے زیادہ سو سال تک۔ پھر اس کی موت کے بعد کون سا نیا ٹیپو سلطان پیدا ہونا تھا، جس نے انگریزوں سے لڑنا تھا۔
بات دراصل یہ ہے کہ جہاں سائنس کی حکمرانی نہ ہو وہاں شخصیات کی حکمرانی ہوتی ہے۔ غیر سائنسی ماحول میں لوگ شخصیت پرست واقع ہوتے ہیں۔ ایک بندہ مر گیا تو پھر اس کے بعد ویسا بندہ انہیں نہیں ملتا، تو پھر جب ان کے حالات برے ہوتے ہیں اور دوسری قومیں ان پہ چڑھ دوڑتی ہیں، انہیں جوتے مارتی ہیں، تو پھر یہ اسی مرے بندے کو یاد کر کرکے آہیں بھرتے ہیں۔ ہائے کاش! آج محمد بن قاسم زندہ ہوتا، تو پھر ہم دیکھتے کہ یہ ہم پہ کیسے ظلم کرتے! جبکہ دوسری طرف جہاں سائنسی علوم ہوں، وہاں شخصیات کی نہیں، اداروں کی حکومت ہوتی ہے۔ شخصیات ایک مخصوص وقت کے بعد چل بستی ہیں، مگر اداروں کی ایک لمبی عمر ہوتی ہے۔
تو جناب! برصغیر انگریزوں کے قبضے میں جانا ہی تھا۔ ٹیپو سلطان انھیں روک نہیں سکتا تھا۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ ایک ٹیپو سلطان کے بعد درجن بھر ٹیپو سلطان ہوتے، تو بھی وہ انگریزوں کا رستہ روک نہیں سکتے تھے۔
پس ٹیپو سلطان اگر ہارا، تو سائنس سے ہارا تھا۔ مگر چونکہ ہمارے ہاں ہمارا سارا نصاب مولویت زدہ ہے اور شعور نام کی کوئی چیز نہیں، نہ نصاب میں اور نہ ہی سماج میں، تو حادثات کے اسباب کا صحیح کھوج لگانے کی ہم میں جستجو ہی نہیں۔
آخری بات نوٹ کریں! مولوی کا سماج کو سائنسی علوم کی برکتیں بتانا، ان کی اہمیت سے قوم کو آگاہ کرنا، زہر کا پیالہ پینے کے مترادف ہے۔ یہ کبھی نہیں بتائے گا کہ ٹیپو سلطان کو سائنس نے شکست دی۔ یہ جب کبھی اظہار کرے گا تو یہی کہ ٹیپو سلطان کو غداروں نے مروایا۔

