Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Tipu Sultan Ko Kyun Shikast Hui (1)

Tipu Sultan Ko Kyun Shikast Hui (1)

ٹیپو سلطان کو کیوں شکست ہوئی

کسی ریاست کا نظم چلانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ جب آپ کسی ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں، تو ایک بہت بڑی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ریاست کے سربراہ کو چو مکھی لڑائی لڑنی پڑتی ہے۔ انسانوں کی اس بھیڑ میں مجرمین کی اکثریت ہوتی ہے۔ اگر سب لوگ شرافت کے سانچے میں ڈھلے ہوں، مہذب ہوں، جیو اور جینے دو کی پالیسی پہ چلیں، تو اوسط سے بھی کم درجے کا حکمران کامیاب ٹھہرے گا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوتا۔

کسی ملک میں ایک قابل ذکر تعداد ایسوں کی بھی ہوتی ہے، جو ظالم ہوتے ہیں، جو لوگوں کے وسائل پہ قبضہ جمانے کی نفسیات میں جیتے اور اسی نفسیات کے زیر اثر مرتے ہیں۔ تو ایسے لوگوں کو ظلم سے بات رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ حاکم بیدار مغز ہو، قوت فیصلہ سے لیس ہو جدت پسند ہو، مجرمین کے باب میں بے رحم ہو۔ ایک سربراہ کا خوف ہی بدوں کو ان کی اوقات میں رکھ سکتا ہے۔ یہی اوصاف دیگر سربراہانِ مملکت سے معاملہ کرتے وقت اس کے کام آتے ہیں۔

ٹیپو سلطان کی شخصیت کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں، تو ہم پاتے ہیں کہ وہ حاضر دماغ تھے، جانباز تھے، جنگی چالوں میں ٹھیک ٹھاک مہارت رکھتے تھے، لیکن ان میں ایک کمزوری تھی، جس نے ان کی شکست میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ تھی ان کی نرم دلی۔ مجرم، جرم کرے، غدار غداری کرے اور ریاست کا سربراہ اسے معاف کر دے، تو پھر وہ منظم انداز سے حکومت نہیں کر سکتا۔ اس کی حکومت کا شیرازہ بکھرے گا۔

شاید آپ جانتے ہیں کہ حضرت عمر کا دورِ حکومت کامیاب کیوں تھا! آپ کے دور میں کوئی فتنہ کیوں پیدا نہیں ہو سکا! یہ نہیں کہ فتنہ گر نہیں تھے یا باغیوں کا کوئی وجود نہیں تھا! نہیں جناب! باغی ہر دور میں رہے ہیں۔ سو ان کے دور میں بھی تھے۔ مگر ان کے ہاں بغاوت کی جنم نہیں لے سکی۔ اس لیے کہ ان کے ہاں مجرم کو معافی دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

یاد ہے! مصر کے ایک گورنر عمرو بن عاص کے بیٹے نے ایک مصری کو بلا وجہ پیٹا۔ ساتھ کہا کہ میں بڑے باپ کا بیٹا ہوں۔ مصری نے مدینہ پہنچ کر آپ سے شکایت کر دی۔ فوراََ دونوں باپ بیٹے کو مدینے میں بلوا لیا۔ نہ صرف بیٹے کو سزا دی بلکہ اس کے باپ کو بھی سزا دینے کا حکم صادر فرمایا۔ وہ تو مصری نہ مانا وگرنہ بیٹے کی مناسب تربیت نہ کرنے کی وجہ سے آپ نے انھیں بھی پٹوانا تھا۔ باپ کون ہے! صحابیِ رسول حضرت عمر بن عاصؓ۔ تو یہ وجہ تھی حضرت عمرؓ کی حکومت کی کامیابی کی۔

رہے ٹیپو سلطان تو ان کے ساتھ مسئلہ بنی ان کی نرم دلی مجرمین کے حوالے سے۔ یقیناََ آپ نہ صرف دلیر اور سخت جنگجو تھے، بلکہ جنگ میں شاطرانہ چالیں چلنے میں بھی اچھی خاصی مہارت رکھتے تھے۔ اپنی مٹھی بھر فوج کے ساتھ انگریزوں کو آگے لگا لیتے تھے۔ انھیں بھگاتے بھگاتے سرحدوں تک لے جاتے تھے۔ پھر وہ پینترا بدلتے اور معافی کی درخواست کرتے، اپنا سفیر آپ کے پاس بھیجتے یہ عرضی دے کر کہ حضور! آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ ایک بار معاف کر دیں۔ سو یہ نرم دل انھیں معاف کر دیتا۔

دوسری طرف اس کی بیوی اسے بتاتی کہ تیرا یہ جرنیل غدار بن چکا ہے۔ یہاں کی پل پل کی خبر تیرے دشمنوں کو دے رہا ہے۔ اس خبیث کا سر اڑا دے۔ پھر جب اس بدبخت کو پتا چلتا کہ ٹیپو سلطان کہیں مجھے سزا نہ دے دے، وہ آپ کے پاس گڑگڑاتا ہوا آتا اور معافی مانگ لیتا۔ کہتا جناب! غلطی ہوگئی ہے۔ ایک بار معاف کر دیں۔ ٹیپو سلطان اس کے گرگڑانے سے، اس کے رونے سے متاثر ہو کر اسے معاف کر دیتا۔ گویا گھر ہی میں ایک سانپ پال رکھا ہے۔ اس کے دو بھیانک نتائج نکلے۔ ایک تو ٹیپو سلطان سے جنگ لڑ لڑ کر انگریز اس کی جنگی چالیں سمجھنا شروع ہو گئے تھے اور دوسرے، انھیں ان کا غدار بتاتا کہ ٹیپو سلطان اب یہ یہ سوچ رہا ہے تمہارے خلاف، ایسے ویسے اقدامات کرے گا۔ اسی کا نتیجہ پھر ٹیپو سلطان کے حق میں اچھا نہیں نکلا۔ ٹیپو سلطان کو شکست دراصل ٹیپو سلطان ہی نے دی۔ ٹیپو سلطان حقیقت میں ٹیپو سلطان ہی سے ہارا۔

پس نرم دل حکمران ٹھیک سے حکومت نہیں کر سکتا۔ اس کی حکومت وقت سے پہلے جائے گی۔ اس کی حکومت میں بغاوتیں پھوٹیں گی۔ سرکشوں کو شہ ملے گی اور وہ ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan