Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Taqdeer Kya Hai Aur Tadbeer Kya Hai?

Taqdeer Kya Hai Aur Tadbeer Kya Hai?

تقدیر کیا اور تدبیر کیا ہے؟

تقدیر کیا اور تدبیر کیا ہے، آج ہم اس کی گھتی سلجھائیں گے۔ خدا نے ازل سے جو لکھا اس پہ ایمان لانا ہم پہ لازم ہے۔ لیکن اگر انسان خود کو حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑ دے اور پھر اس کے برے نتائج نکلیں تو اسے تقدیر کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ زندگی کے بکھیڑوں سے نکلنے کے لیے دماغ کا استعمال کرنا، یعنی تدبیر اختیار کرنا ہم پہ لازم ہے۔

آج جو اسلامی واقعہ پیش کرنے چلا ہوں وہ تقدیر اور تدبیر کے متعلق ہمارے مروجہ ابہام کا، ہمارے اشکال کا تسلی بخش جواب دے گا۔

واقعہ ہے سن 18ھ کا۔ یعنی رسالت مآب ﷺ کو دنیا سے رخصت ہوئے 18 سال بیت چکے ہیں۔ حضرت عمرؓ کا دورِ حکومت ہے۔ آپ شام کے ملک کا سرکاری دورہ کرنے نکلے تھے کہ طاعونِ عمواس کا ذکر آپ کے سامنے کیا گیا۔ عَمواس فلسطین کے علاقے بیت المقدس کے قریب ایک بستی ہے، وہاں طاعون پھیلا۔ اسی نسبت سے اسے طاعونِ عمواس کہا جاتا ہے۔ اس وقت ملک شام کو آپ نے کئی مواضع (بستیوں) میں تقسیم کر رکھا تھا۔ حضرت عمرؓ جب مقام سرغ پر پہنچے تو آپ کی ملاقات حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ اور آپ کے ساتھیوں سے ہوئی۔ ان لوگوں نے امیر المؤمنین کو بتایا کہ طاعون کی وبا شام میں پھوٹ پڑی ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے کہا کہ میرے پاس مہاجرینِ اولین کوبلا لاؤ۔ آپ انہیں بلا لائے تو حضرت عمرؓ نے ان سے مشورہ کیا اور انھیں بتایا کہ شام میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے۔ مہاجرینِ اولین کی آرا مختلف ہوگئیں۔ کچھ نے کہا واپس جائیں اور کچھ نے کہا آگے بڑھیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ اچھا اب آپ لوگ تشریف لے جائیں۔

پھر فرمایا کہ انصار کو بلاؤ۔ میں انصار کو بلا کر لایا۔ آپ نے ان سے بھی مشورہ کیا اور انھوں نے بھی مہاجرین کی طرح اختلاف کیا۔ کوئی کہنے لگا آگے چلو اور کوئی کہنے لگا لوٹ جاؤ۔ امیر المؤمنین نے فرمایا کہ اب آپ لوگ بھی تشریف لے جائیں۔

پھر فرمایا کہ یہاں پر جو قریش کے بڑے بوڑھے ہیں، جو فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کرکے مدینہ آئے تھے، انہیں بلا لاؤ۔ میں انھیں بلا کر لایا۔ ان لوگوں میں کوئی اختلاف رائے پیدا نہیں ہوا۔ سب نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ آپ لوگوں کو ساتھ لے کر واپس چلیں اور وبائی ملک میں لوگوں کو لے جا کر نہ ڈالیں۔ یہ سنتے ہی حضرت عمرؓ نے لوگوں میں اعلان کرا دیا کہ میں صبح کو اونٹ پر سوار ہوکر واپس مدینہ منورہ جاؤں گا۔ تم لوگ بھی واپس چلو۔ صبح کو ایسا ہی ہوا۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ نے کہا: کیا اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کیا جائے گا! حضرت عمرؓ نے کہا کاش! یہ بات کسی اور نے کہی ہوتی (تو میں اسے سزا دیتا) ہاں! ہم اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کر رہے ہیں لیکن اللہ ہی کی تقدیر کی طرف۔

ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ میں جو تدبیر اختیار کر رہا ہوں یہ بھی دراصل تقدیر ہے۔ یعنی اگر خدا نے طاعون زدہ علاقے میں کچھ لوگوں کا مرنا لکھ رکھا ہے، تو اگر ہم اس علاقے میں نہ جائیں تو ہمارا زندہ رہنا اس نے لکھ رکھا ہے۔ پس ان کا مرنا تقدیر، تو ہمارا تدبیر اختیار کرکے وہاں نہ جانا اور زندہ رہنا تقدیر۔ یہ تھے معنی حضرت عمر کے کہ ہم تقدیر سے تقدیر کی طرف جا رہے ہیں۔

پھر آپ نے ایک مثال سے انھیں سمجھایا۔ تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم انہیں لے کر کسی ایسی وادی میں جاؤ، جس کے دو کنارے ہوں۔ ایک سرسبز شاداب اور دوسرا خشک۔ تو اگر تم سر سبز کنارے پر چراؤ گے تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہوگا اور اگر خشک کنارے پر چراؤ گے تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہی ہوگا۔

پھر حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ آ گئے وہ اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے اس وقت موجود نہیں تھے۔ انھوں نے بتایا کہ میرے پاس اس مسئلے سے متعلق ایک "علم" ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب تم کسی سر زمین میں (وبا کے متعلق) سنو تو وہاں نہ جاؤ۔ اورجب ایسی جگہ وبا آ جائے، جہاں تم خود موجود ہو، تو وہاں سے مت نکلو۔ راوی نے بیان کیا کہ اس پر حضرت عمرؓ نے اللہ تعالیٰ کی حمد کی اور پھر واپس ہو گئے۔ یعنی خدا کا شکر ادا کیا اس بات پر کہ میں اس حدیث کے مطابق فیصلہ کیا تھا۔

تدبیر اختیار کرکے زندگی کی مشکلات سے نکلنا، اسے آسان بنانا گویا تقدیر ہے۔ اسے ہم سمجھداری کا نام دیں گے۔ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں بار بار فرماتے ہیں: أفلا تعقلون اور اگر ہم مکمل بے دست و پا ہو کر، ہڈ حرام بن کر کچھ نہ کریں اور زندگی کو ایک عذاب بنا لیں، تو یہ بھی تقدیر ٹھہری۔ مگر ہم اسے بیوقوفی کا نام دیں گے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam