Siyasat Mein Mazhab Ka Istemal Aik Khatarnak Rujhan
سیاست میں مذہب کا استعمال ایک خطرناک رجحان

مذہب الٰہی ہدایات کا ایک رنگارنگ گلدستہ ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں سیاست مکر و فریب کی ایک دنیا کا نام ہے۔ سیاست میں مذہب کے دخل کے خوفناک نتائج جاننے سے پہلے ہم یہ جانیں کہ ایک سیاست دان کی نفسیات کیا ہوتی ہے۔ دنیا بھر کے سیاستدانوں کی اگر مگر وغیرہ کے آمیزے سے تشکیل پاتی ہے۔
ہمارے ملک کا سیاستدان جانتا ہے کہ وزیراعظم کے اختیارات بہت محدود ہوتے ہیں۔ ملک سر تا پاک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ پڑوس میں ہمیں خود سے چھ گنا بڑے دشمن کا سامنا ہے۔ اس کے مقابلے میں دفاعی بجٹ اپنی معاشی قوت سے زیادہ رکھنا پڑتا ہے۔ پھر اپنے ایم این ایز وغیرہ کو اپنے ساتھ ملائے رکھنے کے لیے بہت سے ایسے جتن کرنے پڑتے ہیں جو ایک وزیراعظم نہیں کرنا چاہتا۔ ایک بار خواجہ سعد رفیق نے کہا تھا کہ وزارتِ عظمی پھولوں کا ہار نہیں، کانٹوں کی سیج ہوتی ہے۔
ان تلخ حقائق کے باوجود الیکشن کے ہر موقع پر ہر سیاستدان ووٹ لینے کے لیے قوم کو سبز باغ دکھاتا ہے۔ جھوٹے دعوے کرے گا، اپنے مخالفین کے متعلق جھوٹے الزامات بھی لگائے گا۔ تو جس سیاستدان کی ایسی نفسیات ہو اس کے ہاتھوں میں مذہب کی باگ ڈور دی جا سکتی ہے! ایسے بندے کو جچتا ہے کہ وہ اپنی گفتگو میں مذہبی حوالے دے یا اسے دینی ٹچ دے۔ وہ ہاتھ میں تسبیح پکڑے، عوامی مقامات پہ نماز کا اہتمام کرکے اس کی فوٹوز یا ویڈیوز منظر عام پہ لائے کسی معذور کو ساتھ بٹھا کر اسے کھانا کھلائے پھر اس کی تشہیر کرے۔ اپنی سیاسی جدوجہد کو ایک پیغمبر کی سی جدوجہد قرار دے، اپنی سیاسی سرگرمیوں کو مذہبی سرگرمیوں سے تشبیہ دے۔
ایک سیاست دان ووٹوں کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ کسی سے بھی دغا یا وفا کر سکتا ہے۔ اس کے دغا یا وفا کے پیمانے پل بھر میں بدل جاتے ہیں۔ وہ رات کے دشمن کو صبح کا دوست اور صبح کے دوست کو رات کا دشمن بنانے میں ذرا دیر نہیں لگاتا۔ سیاست دان دنیا دار ہے۔ اسے دیندار بننے کی کوشش ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔ اگر ایسا کرے گا تو مذہب کا سوداگر کہلائے گا۔ اس سے اس کا اخلاقی وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ پھر اس کے ماننے والے اس سے دو ہاتھ آگے جائیں گے۔ کیونکہ ایک سیاست دان کو اپنے حلقۂ اثر میں لوگوں کی عصبیت حاصل ہوتی ہے۔ لوگ اس سے اندھی عقیدت رکھتے ہیں۔ یہ اندھی عقیدت ایک دنیا دار کو دین دار شخصیت میں بدل ڈالے گی۔
اس کے نتیجے میں وہ ٹھیک سے ڈلیور نہیں کر پائے گا۔ اس کی کمی وہ اپنی مذہبی شخصیت سے پورا کرنے کی کوشش کرے گا۔ یاد آیا ایک بار پتوکی میں ایک تقریب میں سابق ایم پی اے امجد میو کو بلایا گیا۔ دوران تقریر موصوف نے مذہب کا ٹچ یوں دیا کہ اس نے کہا کہ میں واحد بندہ تھا جس نے پنجاب اسمبلی میں تلاوت کے بعد نعت رسول ﷺ کی ابتدا کی۔ یہ کہتے ہوئے وہ اچھا خاصا جذبات میں آ گیا۔ اس پہ لوگوں نے خوب تالیاں پیٹیں۔ یہ کیا ہے! مذہب کا غلط استعمال۔ بندہ پوچھے لوگوں نے تجھے اسمبلی میں نعتیں پڑھنے کے لیے بھیجا ہے یا اپنے مسائل حل کروانے کے لیے۔ تیری پانچ سالہ سیاسی کارگزاری ایسی ہے جس پہ فخر کیا جا سکے! مگر اس کا مداوا جناب اپنی نعت پڑھنے کی شروعات سے کر رہے ہیں۔ بھرے مجمع میں یہ گویا اعلان تھا کہ قوم کی دین سے وابستگی جذبات کی بنیاد پر ہے۔ نیز کسی کو بیوقوف بنانے کے لیے کھلے بندوں مذہب کا استعمال ہو رہا ہے۔
1970ء میں بھٹو صاحب کے سوشلزم کو کفر کہا گیا اور عوام کو باور کرایا گیا کہ یہ اسلام اور کفر کی جنگ ہے۔ 1977ء میں بھٹو کے خلاف پی این اے کی جو تحریک تھی وہ خالصتاً سیاسی تھی۔ سیاست میں مذہب کی مداخلت سے مولویوں کی قیادت نے اسے دینی تحریک کا نام دے کر اس کا نام تحریکِ نظامِ مصطفیٰ رکھ دیا۔ بھٹو سے پی این اے والوں کا مطالبہ سرے سے مذہبی تھا ہی نہیں۔ مطالبہ تو تھا الیکشن آزادانہ کروانے کا۔ ان انتخابات کو بھی کفر اور اسلام کی جنگ بنا دیا گیا۔ یہ تک کہا گیا کہ اس معرکے میں جو قومی اتحاد کی حمایت میں نہیں نکلتے، اس کی مثال تبوک کے منافقین کی سی ہے۔ اب اس تحریک میں جان ڈالنی تھی جو ڈل چکی تھی۔ عام لوگ اس واردات کو سمجھ نہ سکے۔ پھر جب بھٹو سے جان چھوٹی تو نظام مصطفیٰ کی تحریک اپنے موت آپ مر گئی۔
1985ء میں سیاسی جماعتیں غیر اسلامی قرار پائیں اور انہیں انتخابی عمل میں شرکت سے روک دیا گیا۔ بینظیر بھٹو صاحبہ آئیں تو اسلام میں عورت کی حکمرانی کا مسئلہ کھڑا ہوگیا۔ پیپلز پارٹی کے سیکولرازم کو لادینیت بتایا گیا۔ اس پر قرآنی آیات کا اطلاق کیا گیا کہ جو اللہ کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہ کافر ہیں۔ سیاست گہرے تعصبات کی دنیا ہے۔ اہل مذہب کی تبلیغ کے مخاطب ہر قسم کی معاشرتی تمیز کے ماورا سب لوگ ہوتے ہیں۔ سیاست میں قدم رکھتے ہی ان کی یہ ہمہ گیری سمٹ جاتی ہے۔ وہ ایک خاص سیاسی دائرے میں مقید ہو کے رہ جاتے ہیں۔ اس کے وجود پر سے مذہبی مبلغ کی جو چھاپ ہوتی ہے وہ اتر جاتی ہے۔
سیاست کے جوہڑ میں چھلانگ لگانا اس سے پیغمبر کی وراثت کا منصب چھین لیتا ہے۔ یہی حال سماجی رہنماؤں کا ہے۔ قاسم علی شاہ صاحب ایک اعلیٰ سماجی رہنما ہیں۔ جوں ہی انہوں نے اہل سیاست کا قبلہ درست کرنے کی ٹھانی۔ قوم لٹھ لے کے اس کے پیچھے دوڑ پڑی۔ خان صاحب کے فالوورز اور اور یوٹیوبرز نے ان کا جینا حرام کر دیا۔ پھر وہ دن ہے اور آج کا دن ہے، انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ دماغوں سے کھیلنے والوں کو بھی کوئی آج تک سمجھا سکا ہے!
اسی قسم کی غلطی مولانا طارق جمیل سے ہوئی۔ ایک سیاست دان کے ایک بے بنیاد نعرے کی چمک سے متاثر ہو کر اس کی عظمت کا جھنڈا اٹھا لیا۔ ثاقب نثار صاحب نے اپنا عدالتی کام چھوڑ کر باقی کے اللے تللوں میں پڑنے کے ساتھ ساتھ ڈیم بنانے کے لیے بھی کمر کس لی۔ آپ نے اس کی تعریفوں کے بھی پل باندھ دیے۔ پھر اس بے راہ روی کی ایک قیمت مولانا کو چکانی پڑی۔ وقت نے ثابت کیا کہ مولانا غلطی پر تھے۔ پس مذہبی و سماجی رہنماؤں کو بجائے قیادت کی بالائی ٹھیک کرنے کے معاشرے کے دودھ کو ٹھیک کرنا چاہیے۔

