Sistrology Ka Pakistan
سسٹرولوجی کا پاکستان

پاکستان بنا تھا قوم کی آزادی کے لیے۔ قوم واقعی آزاد ہوئی، مگر کس سے؟ شعور سے، سنجیدگی سے، غور و فکر سے۔ اندازہ تھا کہ سوشل میڈیا قوم کے شعور کو بیدار کرے گا۔ ہوا اس کے برعکس۔ ہر بندہ قلم اور مائیک پکڑ کے صحافی بن بیٹھا۔ پھر اس کے جی میں جو آیا بولا، جیسے چاہا اس نے لکھا۔ یوں صحافت دو ٹکے کی ہوگئی۔ صحافت کے پستی میں جانے کی وجہ سوشل میڈیا کے ساتھ شہرت اور ڈالرز کا جڑنا ہے۔ ان دو فوائد نے قوم کو ہر مثبت قدر کو پاؤں تلے روندنے پہ مجبور کر دیا۔ ان صحافیوں کے ساتھ دیگر ویلاگرز نے بھی کمر کس لی۔ مثلآ مولوی صاحبان، ذاکروں، تعویذ والوں، وظیفہ والوں وغیرہ وغیرہ۔
ان میں ایک فیملی وی لاگرز کا بھی تھا۔ یہ بھی دیگر کی طرح تمام اخلاقی قدروں کو پاؤں تلے روندتے ہوئے اور دھماچوکڑی مچاتے ہوئے میدان میں کود پڑے۔ انھوں نے ساری قوم کے آگے اپنا سارا گھرانہ پیش کر دیا۔ اب آپ ان کے گھروں کے نہ صرف بیڈ رومز، کچن اور واش رومز دیکھ سکتے ہیں، بلکہ اگر اس گھر کی لڑکیاں حاملہ ہوں تو یہ مناظر بھی دیکھیں۔ بچہ جنم دینے کے بعد کے مراحل بھی ان کے نزدیک آپ کے علم میں لانا ضروری ہیں۔
یوں تو بہت سے فیملی وی لاگرز ہیں، مگر سسٹرولوجی کی بات ہی الگ ہے۔ ٹاپ پہ جا رہی ہے۔ اس وقت ماشاءاللہ ساڑھے 6 ملین سے اوپر فالوورز ہیں جناب کے۔
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان سے سنجیدگی نام کی چڑیا ہمیشہ کے لیے اڑ چکی ہے۔ ہم ایک ایسی قوم بن گئے ہیں جو اپنے بنیادی مسائل اور اصل ذمے داریوں سے نظریں چرا کر زندگی کو محض کھیل تماشہ بنا کر گزار رہی ہے۔ بڑی حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ وہ قوم جو ایک سنجیدہ خدا پر ایمان رکھتی ہے، جس کے آخری پیغمبر ﷺ انتہائی سنجیدہ اور باوقار شخصیت کے مالک تھے، جس کے پاس قرآن جیسی عظیم اور سنجیدہ کتاب ہے، وہی قوم سنجیدگی کو خیر باد کہہ کر سطحی اور بچگانہ حرکات میں اپنا وقت اور توانائیاں ضائع کر رہی ہے۔
قرآن مجید نے بلاشبہ دنیاوی زندگی کو ایک کھیل اور تماشہ کہا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ زندگی عارضی ہے، اس پر مغرور نہ ہو، بلکہ اصل زندگی آخرت کی ہے۔ مگر افسوس کہ ہم نے اس پیغام کو الٹا لیا اور زندگی کو ہی محض کھیل سمجھ کر ٹھٹھول، بےہودگی اور تماش بینی کو اپنا طرزِ حیات بنا لیا۔
سوشل میڈیا تو اب تماشا گروں اور تماش بینوں کا مرکز بن چکا ہے۔ یہاں نجانے کتنے "ستارے" ابھرتے ہیں جو قوم کی سوچ اور وقت کو تباہ کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک مثال سسٹرولوجی (اقرا کنول) اور اس کی چار بہنوں حرا فیصل، زینب فیصل، فاطمہ فیصل اور رابعہ فیصل کی ہے۔ یہ پانچوں بہنیں مل کر یوٹیوب پہ اپنے اپنے چینلز پر ایسے ایسے ہنگامے مچائے ہوئے ہیں جن میں کوئی مقصد اور عقل ہے اور نہ ہی کوئی رہنمائی۔
ان کے چینلز پر مجموعی طور پر کروڑ کے قریب سبسکرائبرز ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگ ان بہنوں کی بچگانہ اور غیر سنجیدہ حرکتوں کو دیکھنے کے لیے ہر وقت بےتاب رہتے ہیں۔ ان کے وی لاگز کا حال یہ ہے کہ اگر یہ سو جائیں تو وی لاگ، جاگیں تو وی لاگ، بازار جائیں تو وی لاگ، کھائیں تو وی لاگ، حتیٰ کہ پرینک اور جھوٹی ڈرامے بازی پہ بھی ان کے وی لاگز تیار ہوتے ہیں۔
ان کی مقبول ویڈیوز پرینک پر مبنی ہیں۔ کبھی ایک بہن جان بوجھ کر گرتی ہے، خون کے نام پر سرخ رنگ فرش پہ بہاتی ہے اور پھر ماں کے قدموں تلے سے زمین نکلنے اور اس کے جھوٹ موٹ کے آنسو بہانے کا منظر دکھایا جاتا ہے۔ کبھی ڈاکوؤں کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے تاکہ سب گھر والے خوفزدہ ہوں اور پھر اچانک سچ ظاہر کرکے سب ایک دوسرے پر ہنسنے لگیں۔
یہ سب دیکھ کر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ حرکتیں کسی باشعور قوم کے شایانِ شان ہیں؟ چھوٹے بچے اگر باپ کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلیں تو یہ معصومیت کہلائے گی، لیکن اگر بڑے لوگ وہی حرکتیں دہرانے لگیں تو اسے کھیل نہیں بلکہ ذہنی بیماری کہا جائے گا۔ یہی حال ان پانچ بہنوں کا ہے، جنھوں نے غیر سنجیدگی کو کاروبار بنا لیا ہے اور ہماری قوم کا ایک بڑا حصہ بےوقوفی کے ساتھ ان کی ہر غیر سنجیدگی کو اپنے وقت اور پیسوں کے بدلے میں نہ صرف خریدتا ہے، بلکہ ان کی ہر احمقانہ ادا پر انھیں داد دیتا ہے۔
حیرت ہے، پڑھے لکھے لوگ بھی ان چینلز کو دن رات دیکھتے ہیں۔ گویا یہ کوئی قومی یا دینی خدمت انجام دی جا رہی ہے۔ دنیاوی چھوڑیں، دینی گھرانوں میں ان وی لاگز شوق سے دیکھے جاتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے! قوم کے وقت، پیسے اور شعور کا ضیاع۔ ان بے مقصد ویڈیوز میں کوئی علم نہیں، کوئی شعور نہیں، کوئی رہنمائی نہیں۔ بلکہ یہ ایک پوری نسل کو سطحی، غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دار بنا رہے ہیں۔
پاکستان کے نوجوان، جو قوم کا اصل سرمایہ ہیں، اگر اپنا قیمتی وقت ان "وی لاگز" پر ضائع کریں گے تو پھر سوچنا چاہیے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ ایک طرف دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ہیں جہاں نوجوان نئی ایجادات، تحقیق اور عملی ترقی میں مصروف ہیں اور دوسری طرف ہم ہیں جہاں نوجوان، سسٹرولوجی اور اس جیسی بچکانہ حرکات میں وقت ضائع کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ یہی کامیابی ہے۔
صرف یہ پانچ بہنیں نہیں، رجب بٹ، ڈکی بھائی، معاذ صفدر اور دیگر کئی فیملی ویلاگرز ہیں، جو پاکستانی قوم کا شعور چاٹ رہے ہیں۔ یہ پاکستان ہے یا تماشہ گاہ؟ سوشل میڈیا پر موجود یہ اوٹ پٹانگ حرکات نہ صرف ہماری اجتماعی ذہنی سطح کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ یہ ہمارے زوال کی علامت بھی ہے۔ اگر ہم نے سنجیدگی کی طرف واپسی نہ کی، تو آنے والی نسلیں علم و شعور کے میدان میں مزید پچھڑ جائیں گی۔
ہمیں اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا کہ ہم اپنی زندگی کو کھیل اور تماشہ بنا کر خود کو اور اپنی آنے والی نسلوں کو کس انجام کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
خدا کے بندو! ان فیملی ویلاگرز کو تو لاکھوں ڈالرز مل رہے ہیں، تمھیں کیا مل رہا ہے؟ کبھی سوچا؟ وہ تمھیں سنگریزے دے کر بدلے میں تم سے ہیرے لے رہے ہیں۔ کبھی تنہائی میں سوچنا! کیسا برا سودا کر رہے ہو۔
کیسا وقت آن پڑا ہے! ساری قوم یوٹیوبروں کے ہتھے چڑھ گئی ہے۔ کوئی سیاست کے نام پر ان کے ذہنوں کو گدلا کر رہا ہے تو کوئی مذہب کے نام پر غلط سلط عقیدے ان کے ذہنوں میں ٹھونس رہا ہے۔ اب تو ماشاءاللہ کھلے بندوں بڑے دھڑلے سے اپنے اپنے فرقوں کو جنت کی بشارتیں سنائی جا رہی ہیں۔ رہی سہی کسر فیملی یوٹیوبرز نے پوری کر دی ہے جو اپنی ماؤں، بہنوں اور بہو بیٹیوں کے دیدار کے لیے قوم کو اپنے گھروں میں لے آئے ہیں۔ اللہ جانے کب چھوٹے گی ان نامرادوں سے!

