Siasi Aur Mazhabi Rehnuma Ki Mukhtalif Dunyaen
سیاسی اور مذہبی رہنما کی مختلف دنیائیں

مذہبی لوگوں کا سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا ایک خطرناک رجحان ہے۔ دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ سیاست میں مذہب کا استعمال ہمیشہ پر خطر رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاست کے دائرۂ کار میں ملک و قوم کے انتظامی مسائل آتے ہیں جبکہ دین کے دائرۂ کار میں مذہبی مسائل آتے ہیں۔ یعنی ایک سیاست دان کی ذمےداری ہے کہ وہ اپنی قوم کے سماجی اور معاشی مسائل حل کرے، ان کے جان، مال اور آبرو کی حفاظت کرے۔ جبکہ ایک مذہبی رہنما نے لوگوں کو مذہبی احکام بتانے ہوتے ہیں، خدا کے حضور انھیں جواب دہی کا احساس دلانا ہے۔
جب دونوں کی حدود مختلف ہیں تو پھر کیسے انھیں ایک دوسرے میں گڈمڈ کیا جا سکتا ہے۔ مذہبی رہنما کو ملک کی باگ ڈور سونپنا ایسے ہی ہے جیسے کسی سیاست دان کو ایک عالم دین کی مسند پہ بٹھانا۔ سیاست وہی کرے جسے سیاست آتی ہے۔ آج کی سیاست قرونِ اولیٰ کی سیاست تھوڑی ہے کہ اگر آپ ساری دنیا سے الگ تھلگ ہیں تو بھی چین سے رہ رہے ہیں۔ ایک تیز طرار اور شاطر قسم کا حکمران ہی ملک چلا سکتا ہے جو اندرونی مسئلوں سے بھی نمٹنا جانتا ہو اور بیرونی مسائل کے حل میں بھی اسے مہارت ہو۔ سیاست ذہین ترین اور کائیاں لوگوں کا کام ہے۔
دین کا طالب علم وقت کا علامہ، شیخ الحدیث یا مفسر قرآن بن کر بھی خود میں یہ صلاحیت پیدا نہیں کر سکتا ہے کہ وہ اقتدار کے منصب کی ضرورتیں پوری کر سکے۔ اس لیے کہ سیاست اور دین دونوں کی دنیائیں الگ الگ ہیں، ان ان کی نفسیات الگ الگ ہیں۔ مذہب کیا ہے! حقوق اللہ اور حقوق العباد کے متعلق احکام کی وضاحت۔ یہ کوئی فلسفے، نفسیات، سائنس، ٹیکنالوجی یا ریاستی امور سکھانے کی کتاب نہیں۔ اسے پڑھ کر اگر آپ ایک فلاسفر، نفسیات داں، جج، وکیل، صحافی یا سائنس داں نہیں بن سکتے تو ایک سیاست داں کیسے بن سکتے ہیں۔
اگر کوئی اس تصور کا انکار کرے تو پھر اس سے سوال بنتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رض نے خلافت کے لیے حضرت عمر رض ہی کو موزوں کیوں جانا۔ سربراہی تو کسی کو بھی سونپی جا سکتی تھی۔ نیز حضرت عمر رض نے وقتِ شہادت امارت کے لیے چھے لوگوں پہ مشتمل مجلس شوریٰ کیوں بنائی؟ جب ہر صحابی دین کا مکمل علم رکھتا ہے تو پھر چھے لوگوں کو الگ کیوں کیا گیا؟ اس لیے کہ ریاست کی سربراہی مذہب سے ماورا ایک عمل ہے۔ اس منصب کی اہلیت کے لیے دینی علم نہیں، دنیاوی سوجھ بوجھ کی ضرورت ہے اور یہ سوجھ بوجھ مذہب کی محتاج نہیں۔ قرآن تو بار بار کہتا ہے کہ مجھے سمجھنے کے لیے اپنی عقل کا استعمال کرو۔ یعنی عقل ایک الگ خوبی ہے اور دین ایک الگ چیز ہے۔
پھر ایک سیاست دان کی اخلاقیات اور ایک مذہبی رہنما کی اخلاقیات میں بہت فرق ہوتا ہے۔ سیاست دان زمانہ ساز ہوتا ہے، یہ اقتدار کے لیے ہر کسی سے سازباز کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ اس عمل میں اس کا دامن بھلے داغدار ہو، یہ پروا نہیں کرتا۔ جبکہ ایک عالم دین اپنے اخلاقی وجود کے بارے میں بہت حساس ہوتا ہے۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ کسی سماجی قباحت سے اس کا دامن آلودہ نہ ہو، اس کے کسی اقدام پر لوگ انگلی نہ اٹھائیں۔ اس لیے کہ اس نے اپنی قوم کا تزکیہ کرنا ہے، اسے دنیاوی آلائشوں سے محفوظ رکھنا ہے۔ یہی اس کے فرائض میں ہے۔ وہ ایک قسم کا رول ماڈل ہوتا ہے۔ سیاست کے خارزار میں اس کی یہ پاکیزہ حیثیت قائم نہیں رہ سکتی۔ ایک عالم دین کے سیاست دان بننے سے اس کی مذہبی شناخت سخت مجروح ہوتی ہے۔ اس کی دینی حیثیت پس منظر میں چلی جاتی ہے۔ لوگ پھر اسے ایک سیاست دان کے طور پر لیتے ہیں۔ دین کا وہ رہتا ہی نہیں ہے۔
اس کی بہترین مثال مولانا فضل الرحمان ہیں۔ ان کی اصل پہچان ایک سیاست دان کی ہے۔ قوم اسے علما کی صف میں کھڑا نہیں کرتی۔ سیاست سر تاپا کہہ مکرنیوں، ریشہ دوانیوں اور سازشوں سے لتھڑی ہوتی ہے۔ ایک سیاست دان دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست بنانے میں ذرا دیر نہیں کرتا۔ سیاست میں حلیف مستقل ہوتے ہیں نہ حریف۔ اس میں بعض اوقات سجی دکھا کر کھبی اور کھبی دکھا کر سجی مارنی ہوتی ہے۔ اس لیے کہ سیات کی راہیں پیچیدہ اور بہت پرخار ہوتی ہیں۔ پاکستان میں یہ الجھن کچھ زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کا ماحول سائنسی نہیں، غربت انتہا کی ہے۔ قسم قسم کے مافیاز نے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ پارلیمنٹ کی کوئی اوقات نہیں۔ وزیراعظم کے پاس بہت کم اختیارات ہیں۔ اس کا سابقہ سماج کے ایسے ایسے رسہ گیروں سے پڑتا ہے جو خود یا ان کے رشتے دار پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں۔ کئی طرح کے ناہنجار لوگ رستے میں آتے ہیں۔ دنیا بھر کے اقتدار کے کھلاڑی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ یہ سانپ اور سیڑھی کا کھیل ہے۔
آپ اس ملک کے بڑے بڑے سیاست دانوں کا پروفائل نکال کر دیکھ لیں۔ یہی کچھ ملے گا۔ اقتدار تک پہنچنے کا یہ راستہ اس قدر پرخار ہے کہ اس سے اپنا اخلاقی دامن بچایا ہی نہیں جا سکتا۔ اقتدا کی منزل اتنی آسان نہیں ہوتی۔ اس کے لیے لوگوں کو استعمال کرنے کا ہنر آنا چاہیے۔ پوری دنیا گلوبل ولج کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ ملک کی پالیسیاں بناتے وقت اکثر اوقات دوست اور دشمن ممالک کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے، بین الاقوامی اداروں کے قوانین کا لحاظ کرنا پڑتا ہے۔ یہی حکمت عملی ملک کے داخلی معاملات میں بھی اپنائی جاتی ہے۔ اتحادیوں کے نخرے برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ ملک کا سربراہ ساری قوم کے سامنے کوئی وعدہ کرتا ہے۔ پھر اسے احساس ہوتا ہے کہ میرے سیاسی مخالفین اس معاملے میں میرے خلاف یہ یہ چال چلیں گے اور میرے پاس اس کا کوئی حل بھی نہیں یا اس وعدے کی تکمیل کے لیے میں اپنے اتحادیوں کی شرائط پہ پورا نہیں اتر سکتا تو وہ اس وعدے سے پیچھے ہٹ جائے گا۔
قوم سیاست دانوں کے اس طرح کے عیبوں کو اکثر نظر انداز کر دیتی ہے۔ اس لیے کہ وہ سیاست دانوں کی نفسیات سے بھی آگہی رکھتی ہے اور یہ بھی جانتی ہے کہ سیاست کا سراپا سرا سر خیر نہیں، اس میں شر کی بھی آمیزش ہے۔ یوں اہل سیاست کے دامنوں پہ داغ لگتے بھی رہتے ہیں اور دھلتے بھی رہتے ہیں۔ یہ طبقہ اپنے اخلاقی وجود کے باب میں کچھ زیادہ حساس نہیں ہوتا کہ یہ سیاست کی مجبوری ہے۔ علما کا معاملہ ان کے برعکس ہے۔ ان کے دامن پہ لگا داغ جلدی مٹتا نہیں۔ اس لیے کہ یہ اخلاقیات ہی کے تو پیامبر ہوتے ہیں۔ لوگ ان سے اخلاقی رہنمائی لیتے ہیں۔ جب ان کا اپنا اخلاق ہی ٹھیک نہ ہو تو پھر قوم کہاں جائے گی۔ اس لیے میرے خیال میں علما کو سیاست کے میدان میں ہر گز طبع آزمائی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ انبیا کے وارث ہیں۔ انھیں اسی وراثت پہ ناز کرنا چاہیے۔ انھیں اپنی حدود میں رہتے ہوئے قوم کی اخلاقی تربیت کرتے رہنا چاہیے۔ پس سیاست میں مذہبی لوگوں کے آنے سے مذہب اور مذہبی شخصیات دونوں خسارے میں رہتے ہیں۔

