Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Shahbaz Sharif Panch Saal Pure Karega?

Shahbaz Sharif Panch Saal Pure Karega?

شہباز شریف پانچ سال پورے کرے گا؟

آج پیش گوئی کرنے کو من ہے کہ شہباز شریف پاکستان کی تاریخ کا کا واحد وزیراعظم ہے، جو اپنی مدت پوری کرے گا۔ اقتدار کے اصل مرکز میں یہ فیصلہ ہو چکا ہے۔ اسے آئینی یا غیر آئینی، کسی طرح سے نہیں ہٹایا جا سکتا۔ 4 مارچ 2024ء کو اس وزیراعظم کا پہلا دن تھا اور چار مارچ 2029ء کو اس کا آخری دن ہوگا۔ دنیا کی کوئی طاقت، پاکستان کا کوئی ادارہ اسے وقت سے پہلے گھر نہیں بھیج سکتا۔ وجہ؟

ریاست کا فیصلہ۔ اسے ریاست کا عزم بالجزم سمجھیے، کالنقش فی الحجر جانیں یا پتھر پہ لکیر۔ ریاست ٹھان چکی ہے کہ وزیراعظم پانچ سال تک برقرار ہے۔ بھٹو مرحوم نے بھی پانچ سالہ مدت مکمل ہونے سے پہلے ہی الیکشن کروا دیے تھے۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی حکومتوں نے پانچ پانچ سالہ مدت ضرور پوری کی تھی مگر یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو چار چار سال کے بعد فارغ کر دیا گیا تھا۔

اب اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ ریاست نے یہ فیصلہ کب، کہاں اور کیوں کیا!

ریاست نے یہ فیصلہ جی ایچ کیو میں جنرل باجوہ کے آخری ایام میں کیا تھا۔ فیصلہ یہ تھا کہ ہر آنے والی سیاسی حکومت کے ساتھ مل کر چلنا ہے اور اس کے سامنے آنے والی ہر رکاوٹ کو روندتے ہوئے چلے جانا ہے۔ کوئی بغاوت برداشت نہیں کی جائے گی۔ اڑا کے رکھ دیا جائے گا ہر وہ فرد یا ادارہ جو اس کی راہ کی رکاوٹ بنا۔ آج جو ویلاگرز اپنے تھم نیل پہ حکومت کے جانے کی تحریر لکھتے اور اس کے آگے سوالیہ نشان لگاتے ہیں، وہ ایسا ویوز کے لیے، ناظرین میں ہیجان پیدا کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ مقصد اپنا کلپ دکھانا، شہرت سمیٹنا اور ڈالرز وصول کرنا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ کیوں کیا؟ ماضی کے تلخ تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے۔ آج پاکستان کی جو بری حالت ہے، یہ وقت سے پہلے حکومتیں گرائے جانے کی وجہ سے ہے۔ کبھی مارشل لا کا کوڑا برسا اور حکومت گئی۔ کبھی(2-58 کا ہتھیار چلا اور حکومت گئی۔ تو کبھی جج کا ہتھوڑا برسا اور حکومت گئی۔ ریاست اب تائب ہو چکی ہے اس طرح کے گندے کھیل سے۔ یہ فیصلہ اس قدر مضبوط ہے، بات یاد رکھیں! اتنا مضبوط ہے کہ اس کے راستے میں پوری سپریم کورٹ آ جائے، تو اسے بھی اڑا کے رکھ دیا جائے۔ یہ 20 جج اگر فیصلہ کریں کہ شہباز شریف کی حکومت کو گھر بھیجنا ہے وقت سے پہلے، تو یہ نہیں بھیج سکیں گے۔ منہ کی کھانی پڑے گی انھیں۔ ریاست کے پاس بہت پاورز ہوتی ہیں۔

آج ان کے پاس دو تہائی اکثریت ہے۔ عدلیہ جس قانون کا سہارا لے کر وزیر اعظم کو فارغ کرے گی، پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت کے سہارے نیا قانون نافذ کرکے ججز کے اس قانون کو ہی اڑا دے گی یا اسے ہی بےاثر کر دے گی۔ ریاست اپنی بات منوانا جانتی ہے۔ ماضیِ قریب میں چند سرپھرے ججز تھے، جو ہیرو بننے اور میڈیا میں اپنی ہیڈلائنز بنوانے کے چکروں میں اپنا آپ دکھا رہے تھے۔ ریاست نے ان کی اکڑ 26 ویں ترمیم سے نکال دی۔ اب وہ بنا پروں کے عدل کی بارگاہوں میں پھڑپھڑا رہے ہیں۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ اس سخت فیصلے کی نوبت کیوں آئی! تو اس کا جواب یہ ہے کہ ماضی میں پاکستان امریکہ کی پراکسی وار لڑتا رہا۔ دشمن امریکہ کے تھے، مگر ہم نے کرائے کے قاتلوں کا کردار ادا کیا اور بدلے میں اس سے ڈالرز لیے۔ جنگ سوویت یونین اور امریکہ کی تھی، مگر ہم نے دنیا کے بھر کے بدمعاش، جو اپنی حکومتوں کو مطلوب تھے، اکٹھے کیے اور انھیں پاکستان میں لا بسایا۔ پھر یہاں ان کے ساتھ دیگر جہادیوں کو افغانستان بھیجا کہ جاؤ روس سے لڑو۔ گویا کرائے کی جنگ لڑی اور امریکہ سے بھرپور امداد لی۔ اس کے بعد 2001ء میں امریکہ براہ راست افغانستان میں آن گھسا۔ ہم نے پھر افغانوں کے خلاف اس کی مدد کرنے کے بہانے اس سے ڈالرز لیے۔ سالانہ 10 سے 12 ارب ڈالرز مشرف حکومت کو ملتے رہے۔ وہ الگ بات کہ جن افغان طالبان کے خلاف یہ پیسے لیے، مشرف اینڈ کمپنی انھی طالبان کو درپردہ سپورٹ کرتی رہی۔

اب تاریخ نے نیا موڑ لیا۔ 2021ء میں جنگوں کا دور ہوگیا ختم اور ڈالرز بھی بند ہو گئے۔ ریاست نے سوچا کہ اب کھائیں کہاں سے! ستم پہ ستم یہ ہوا کہ سعودی قیادت نے بھی امداد سے ہاتھ کھینچ لیا۔ نئی قیادت جو محمد بن سلمان کی صورت میں آئی، اس نے کہا بھائی جان! کماؤ تے کھاؤ۔ پیسہ نئیں جے ساڈے کول۔ جاگدے رہنا، ساڈے تے نہ رہنا۔ حالات ہو گئے برے۔ اوپر سے بھارت اور دہشت گرد گلے پڑ گئے۔ جس چاؤ سے، جن ارمانوں سے ہم نے طالبان کو اقتدار پلیٹ میں رکھ کر دیا، طالبان نے وہ ارمان خاک میں ملا دیے۔ اب وہ بھارت کے ساتھ مل کر ہم پر حملہ آور ہیں۔ اوپر سے ٹی ٹی پی اور بلوچستان کے دہشت گردوں نے ہمارے عوام اور فوجیوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ اب جس ملک میں دہشت گردی ہو، اس ملک میں کون پیسہ لگاتا ہے۔

یہیں پہ بس نہیں۔ عمران خان کی حکومت میں دنیا بھر کے ممالک سے پاکستان کی بگڑ گئی۔ کوئی منہ لگانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ سعودی ناراض، چین ناراض، امریکہ ناراض۔ پاکستان ہوگیا تنہائی کا شکار۔ حالات ہو گئے خراب۔ اس قدر خراب کہ ملک ڈیفالٹ کے کنارے جا لگا۔ کوڑی کوڑی کے ہم ہو گئے محتاج۔ ریاست سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ عوام کو رکھیں ایک طرف، سوال یہ تھا کہ سات لاکھ فوج کا پیٹ کیسے بھریں، اسلحہ خریدنے کے لیے پیسہ کہاں سے آئے۔ اب ریاست کے سامنے دو رستے تھے۔ بقا کی جنگ لڑے یا خود کو حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑ کر فنا کے گھاٹ اترے۔ تو ان بدترین حالات میں ریاست نے فیصلہ کیا کہ اب کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ وگرنہ مارے گئے۔ پھر جی ایچ کیو میں فوج کی قیادت نے چند فیصلے کیے۔

نمبر ایک، کسی ملک کی کوئی جنگ نہیں لڑی جائے گی۔ نمبر دو، اب امداد نہیں تجارت کی بنیاد پہ پیسہ کمایا جائے گا۔ نمبر تین، ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے کسی حکومت بلکہ وزیراعظم کو وقت سے پہلے گھر نہیں بھیجا جائے گا۔ یعنی کڑا فیصلہ ہوا کہ جو سیاسی حکومت آئے گی، اس کے ساتھ مل کر چلنا ہے اور اسے پانچ سال پورے کرنے دینے ہیں اور اگر اس کی راہ میں کوئی مذہبی یا سیاسی جتھا آیا یا عدلیہ کے جج آئے تو انھیں چھٹی کا دودھ یاد دلا دیں گے۔ ایسی کی تیسی جو حکومت یا وزیراعظم کو ٹیڑھی آنکھ سے دیکھے۔

پس جو تو ن لیگ کو پسند کرتے ہیں وہ خوش ہو جائیں اور جو اسے ناپسند کرتے ہیں وہ 4 مارچ 2029ء تک اس حکومت کو برداشت کریں۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan