Selab, Azab Ya Qudrat Ki Taraf Se Hamari Hamaqat Ka Jawab (1)
سیلاب، عذاب یا قدرت کی طرف سے ہماری حماقتوں کا جواب (1)

ملک پہ جب کبھی اُفتاد پڑی، زلزلہ آیا یا سیلاب، جھٹ سے علما کی طرف سے عذاب کا فتویٰ آموجود ہوا۔ اس کی طرف ہم بعد میں آتے ہیں کہ اس فتوے کے پیچھے ان کی نفسیات کیا ہے۔ کسی آفت پہ عذاب کا فتوی لگانے سے پہلے یہ جان لیں کہ خدا کے عذاب کی تعریف کیا ہے، یہ کن پہ آتا ہے اور کیوں۔
قران پاک میں جن سابقہ بگڑی قوموں پہ اللہ کا عذاب آیا اس کا پس منظر یہ ہے کہ وقت کا پیغمبر موجود ہے، اس کی قوم موجود ہے۔ اس پیغمبر کے سمجھانے کے باوجود قوم ہٹ دھرمی پہ اتری ہوئی ہے۔ تو اس وقت خدا کی طرف سے پیغمبر اعلان کرتا تھا کہ اب تم پہ عذاب آیا ہی چاہتا ہے۔ بہتر ہے اس سے پہلے پہلے سمجھ جاؤ۔ حضرت لوط، حضرت ہود، حضرت شعیب، حضرت صالح اور حضرت نوح علیہم السلام وغیرہ انبیا کی قوموں پر تیز آندھی، زلزلے، سیلاب اور زوردار چیخ کی صورت میں عذاب اترے۔ عذاب جب کبھی نازل ہوا بستیوں پر اور قوموں پر نازل ہوا، کسی ایک فرد پر نازل نہیں ہوا۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ عذاب نازل کیوں ہوئے۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین پر ایک نبی خدا کی عدالت بن کر آتا ہے۔ یعنی سزا کا جو فیصلہ اللہ نے روزِ محشر کرنا ہے، وہ نبی کی موجودگی میں دنیا ہی میں کر دیا جاتا ہے۔ ایسا اس لیے کہ روئے زمین پر ایک نبی خدا کی بہت بڑی نشانی ہوتا ہے۔ اس کی شخصیت ہر قسم کے نقص سے پاک ہوتی ہے۔ وہ ہر لحاظ سے مکمل ہوتا ہے۔ کوئی اخلاقی قباحت اس میں نہیں ہوتی۔ مزید یہ کہ اللہ اسے کوئی نہ کوئی معجزہ دے کر بھیجتا ہے۔ یعنی اس کے ہاتھوں بعض ایسے کام انجام پاتے ہیں، جنھیں عام بندہ نہیں کر سکتا۔ نیز وہ پیغمبر بنا کسی معاوضے کے لوگوں کو خدا کی طرف بلاتا ہے۔ جب ایسا ہے تو پھر اس کی بات کے انکار کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ کوئی پاگل ہی اس کا انکار کرے گا۔ روزِ روشن کی طرح اور کھلی سچائیاں سامنے پڑی ہوں اور بندہ پھر انکار کر دے تو خدا کو غصہ تو آئے گا اور غصہ کسی عذاب کی صورت میں ڈھلے گا۔
رسالت مآب ﷺ کے دور میں اہلِ کفر کو جو جنگوں میں قتل کیا گیا، یہ اللہ کے عذاب ہی کی صورت تھی۔ اللہ کی طرف سے ان پہ کوئی زمینی یا آسمانی آفت نہیں ٹوٹی۔ اس کی وجہ میرے خیال میں یہ ہو سکتی ہے کہ آپ ﷺ کی عظمت کے پیشِ نظر اللہ نے ایسا نہیں کیا۔ صرف جنگوں ہی میں ان کا خاتمہ بالشر کر دیا گیا۔
یہ ہے خدائی عذاب کا پس منظر۔ اس کے ہونے میں کسی نبی کی موجودگی ضروری ہے۔ آخری پیغمبر کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد عذاب کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ اب دنیا میں زلزلے، سیلاب، کلاؤڈ برسٹ یا کرونا کی سی مختلف قسم کی وباؤں کی صورت میں جو آفات ہیں، یہ ہماری کرنی کا پھل اور ہمارے کرتوت کا نتیجہ ہے۔ خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر، باجوڑ، بٹگرام اور دیگر متاثرہ اضلاع میں جو بادلوں کے پھٹنے کے باعث بربادی ہوئی ہے، اس کی مکمل ذمےداری حضرت انسان پر عائد ہوتی ہے، خدا پر نہیں۔
دنیا اخبار کے معروف کالم نگار رؤف کلاسرا صاحب لکھتے ہیں:
یہ کلاؤڈ برسٹ جس مخصوص علاقے میں ہوتا ہے، وہاں تباہی مچا دیتا ہے۔ جیسے ہم انگریزی فلموں میں دیکھتے ہیں کہ آسمان سے کچھ بلائیں اتر کر شہر کو اپنے حصار میں لے لیتی ہیں اور ہر طرف تاریکی چھا جاتی ہے اور خوفناک پانی سونامی کی شکل میں شہروں میں بڑی بڑی عمارتوں کو گراتا، تباہی مچاتا چلا جاتا ہے۔ کلاؤڈ برسٹ بھی ایسے ہی خوفناک بادلوں کی شکل میں کسی مخصوص علاقے کے اوپر برستا ہے اور ہر طرف پانی ہی پانی ہو جاتا ہے۔ جب پہاڑوں کے اوپر بارش برستی ہے تو وہ سیلاب بن کر پتھر اپنے ساتھ لے کر قریبی آبادیوں کو تباہ کر دیتی ہے۔ اگر ان پہاڑوں پر درخت ہوں گے تو جہاں وہ درجہ حرارت کو اوپر نہیں جانیں دیں گے، وہیں پتھروں کو روکیں گے۔ لیکن جب سارے درخت ہی آپ نے خود کاٹ ڈالے ہیں کہ یہ ہماری روزی روٹی ہے تو پھر کسی سے کیا گلہ کریں۔
مانسہرہ کے میرے دوست قاری عبد الوکیل صاحب نے ایک بار مجھے بتایا کہ کسی دور میں ہمارا جنگل اتنا گھنا تھا کہ اس میں بکری کا بچہ بھی نظر نہیں آتا تھا۔ اب حالت یہ ہے کہ کہیں دور بندہ کھڑا ہو تو وہ بھی دور سے دکھائی دیتا ہے۔ وجہ؟ یار لوگوں نے درخت کاٹ کاٹ کر صفایا کر دیا ہے۔
اگر ان آفات کو مولویوں نے اللہ کا عذاب قرار دینا ہے تو محکمہ موسمیات اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این۔ ڈی۔ ایم۔ اے) کو ختم کر دیں۔ علما بسم اللہ کریں اور اس کے لیے ایک تحریک چلائیں۔ کیونکہ خدائی کام میں دنیا دار مداخلت کر رہے ہیں۔ جب ایک کام اللہ کا ہے تو اسے پایۂ تکمیل تک پہنچنے دیں۔ مجرمین کو سزائیں ملیں گی اور مومنین اور معصومین پہ آزمائشیں اتریں گی۔ اب سزا اور آزمائش کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ کسی سیلاب کی روک تھام کے لیے کوئی کوشش نہ کی جائے۔ قدرت کو کام مکمل کرنے دیں۔
یاد رکھیں! این۔ ڈی۔ ایم۔ اے کا محکمہ اب تک ڈیڑھ لاکھ افراد کو سیلابی خطرات والے علاقوں سے محفوظ مقامات پر منتقل کر چکا ہے یہ اقدام پانی کی سطح بڑھنے اور ممکنہ سیلاب سے متعلق ابتدائی وارننگز اور الرٹس کے بعد کیا گیا ہے۔
ایک مولویانہ نقطۂ نظر ہے اور دوسری طرف وفاقی وزیر ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر مصدق ملک کا نقطۂ نظر ہے کہ دنیا کے دو ممالک 45 سے47 فیصد گیس خارج کرکے عالمی درجۂ حرارت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں طاقتور ترین لوگوں نے دریاؤں کے راستوں میں ہوٹلز بنا رکھے ہیں، جس سے پانی باہر نکل کر بستیوں کا رخ کرتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ کے۔ پی۔ کے اور آزاد کشمیر میں ناجائز تعمیرات کو این او سی دینے والے لوگ کون ہیں؟ صرف جنگلات ہی پانی کے ریلوں کو روک سکتے ہیں۔
جاری ہے۔۔

