Saturday, 20 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Sada Badshahi Sohne Khuda Di Aye

Sada Badshahi Sohne Khuda Di Aye

سدا بادشاہی سونے خدا دی اے

ہر چیز کا سفر بقا سے فنا کی طرف ہے۔ چیز جاندار ہو یا بے جان، فنا کے گھاٹ اترنا اس کا مقدر ہے۔ بڑی عمارتیں ایک وقت آتا ہے، اپنا وجود کھو بیٹھتی ہیں۔ انسانی زندگی کو موت کے قالب میں ڈھل کر جنازوں کی صورت میں ہم روز دیکھتے ہیں۔ کبھی سوچا کہ انسان جب نومولود کو بچہ، بچے کو لڑکا، لڑکے کو نوجوان، نوجوان کو جوان، جوان کو عمر رسیدہ اور پھر بوڑھے کی صورت میں ڈھلتا دیکھتا ہے تو یہ کیا ہے! یہ ہے بقا سے فنا کا سفر ہے۔۔ نومولود کی بقا بچہ بننے کی صورت میں فنا ہوتی ہے۔ بچہ جب لڑکا بنتا ہے تو اس کا بچپنا گویا فنا پزیر ہوتا ہے۔

مرحلہ وار عمر بقا سے ہوتی ہوئی فنا کی طرف عازمِ سفر ہوتی ہے۔ دو تین سال کا بچہ کتنا خوبصورت لگتا ہے! اس کی ادائیں کتنی دلکش ہوتی ہیں! اس کا ہسنا، اس کا رونا، دل کو کتنا بھاتا ہے! ماں باپ اسے دیکھ دیکھ جیتے ہیں۔ پھر وہی بچہ جب اپنا بچپن کھوتا ہے، تو اس کی اداؤں میں، اس کی حرکات و سکنات میں، اس کی ہنسی میں وہ پہلی سی کشش نہیں رہتی۔ وہ اپنے ماں باپ کی وہ توجہ حاصل نہیں کر پاتا جو بچپن میں اس کا خاصہ رہی تھی۔ یہ کیا ہے! بقا سے فنا کا مرحلہ۔ بچپن نے گویا اپنی بقا کھودی ہے۔ اب اس نے بقا کا نیا لباس لڑکپن کی صورت میں پہن لیا ہے۔ بچپن کی طرح اس کی عمر کے دیگر مراحل بھی بقا و فنا کا پس منظر لیے اسی طرح گزریں گے۔ یہ تو تھا انسانوں کیا معاملہ۔

دیگر جانداروں یعنی چرند پرند کا بھی یہی حال ہے۔ بے جان اشیا، عمارتیں، گھر، ادارے بھی بقا سے فنا کی طرف سفر کرتے ہیں۔ آج میں آپ کو ایک ایسی عمارت کا احوال بتاتا ہوں جس نے میرے سامنے بقا سے فنا کی منزل طے کی۔ یہ عمارت جو کبھی ہستی بستی تھی، جس میں کبھی رونق تھی، جس میں کبھی باغ وبہار تھی، بوڑھوں کی، بچوں کی، لوگوں کی، دیکھتے ہی دیکھتے فنا کے گھاٹ اتر گئی۔

ایک وقت تھا ہر طرف ہستے مسکراتے ایک دوسرے سے اٹکھیلیاں کرتے بچے اس ادارے میں ایک سماں باندھتے، تو لگتا زندگی اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ لوٹ آئی ہے۔ کبھی بچے مسجد میں نماز میں مشغول ہیں، کبھی لائبریری میں قران پاک کی تلاوت کر رہے ہیں، تو کبھی جمعے کی تیاری میں مصروف ہیں۔ کبھی فرش کی صفائی کر رہے ہیں، کبھی تن کے کپڑوں کی دھلائی کر رہے ہیں اور پھر انہیں خشک کرنے کے لیے دیواروں پہ ڈال رہے ہیں۔ تو کبھی یوں ہوتا کوئی بزرگ بچوں کو ڈانٹ رہا ہے۔ گویا ہر طرف ایک مہذب شور تھا جو بھرپور زندگی کی علامت تھا۔ بچوں کے قہقہے اور بوڑھوں کی گپ شپ بتاتی تھی کہ یہ جگہ قبرستان نہیں، جیتے جاگتے انسانوں کا مسکن ہے۔ مگر آج؟ ایک مہیب سناٹا، ایک خوفناک خاموشی اور ایک دردناک اداسی۔

گزرے وقتوں میں جب مَیں یہاں بطورِ مدرس پڑھانے کے لیے آیا، تو ایک وقت یہاں بچوں کی تعداد 18 کے قریب ہوگئی تھی۔ چار عدد بوڑھے مزید تھے۔ کھانا پکانے کے لیے مختلف اوقات میں تین چار عورتیں بھی یہاں رہیں۔ گویا زندگی ہر رنگ میں رقص کناں تھی۔ حیات کے باغ میں رنگ رنگ کے پھول کھلے اور ان پہ بلبلیں چہک رہی تھیں۔

بات یاد رکھیں! گھاس پھونس کی جھونپڑی بھی ہو تو اس پہ کسی محل کا گمان گزرتا ہے۔ کب؟ جب اس میں بچوں کا شور ہو، جب اس میں مکینوں کی، بسنے والوں کی گہما گہمی ہو، جب اس میں بچوں پہ بوڑھوں کی بے اثر ہوتی نصیحتیں ہوں اور اگر بہت بڑا محل ہو اور وہاں موت کا جمود توڑتی بچوں کی بے ہنگم آوازیں نہ ہوں، ان کا شور نہ ہو، آپس میں ان کی چھوٹی موٹی لڑائیاں نہ ہوں، ان کے الٹے کام کاج نہ ہوں، ان کا روٹھنا اور منہ بنانا نہ ہو، بوڑھوں کی بلا وجہ کی توتکار نہ ہو، تو ایسا محل کسی قبرستان سے کم نہیں۔ یہ گویا بے گوروکفن پڑی ایک لاش ہے۔

تو جناب آج میں ادارے کے اس حصے میں ہوں جہاں کبھی میں بچوں کو قرآن پاک پڑھایا کرتا تھا۔ ذہن کے پردوں پہ ماضی کے مناظر کی فلم سی چلنے لگی۔ میرے تصورات نے خود کو اور بچوں کو مجسم صورت میں وہاں لا بٹھایا، جہاں کبھی ہماری کلاس ہوا کرتی تھی۔ تصور ہی تصور میں میں پڑھا رہا ہوں اور وہ پڑھ رہے ہیں۔ ایک دم میں خواب سے باہر آ گیا۔ اس منظر کو آنکھ بھر کے دیکھا تو لگا پورا ماحول سوگ میں ڈوبا ہوا ہے۔ ماحول کا ہر کل پرزہ غم کی چادر اوڑھے گریہ زاری کر رہا ہے۔ اس گہرے افسردہ ماحول میں مَیں ہولے ہولے قدم اٹھاتا ٹونٹیوں کی طرف بڑھا۔ پھر ان کے ساتھ بنی سیڑھیاں چڑھتا چھت پہ آیا۔ دیکھا تو چھت اور چھت پہ بنے کمروں پہ لائبریری ہی کی طرح سوگ کا سماں ہے۔ کمروں کے اندر کا ماحول دیکھا تو وہ بھی اداس لگا۔ مجھے لگا کہ کمرے کی ہر چیز مجھ سے روٹھی روٹھی سی ہے۔ گویا بزبانِ حال مجھے کہ رہی ہے کہ جاؤ! ہم نہیں آپ سے بولتے۔ نمناک آنکھوں سے میں باہر آ گیا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض غم انسان کو ایک خاص طرح کی لذت دیتے ہیں۔ کچھ درد ایسے ہوتے ہیں، جنہیں سہنے میں لطف سا آتا ہے۔ سو میں پھر واپس اس کمرے میں آ گیا، جہاں بچے سویا کرتے تھے۔ اب کی بار مجھے لگا الماری کھڑکیوں چارپائیوں دروازوں وغیرہ ہر چیز کو موت اگئی ہے۔ مجھے لگا یقین جانیے مجھے لگا کہ فرشتہ اجل نے ان بے جان چیزوں کی روح بھی قبض کر لی ہے۔ ماحول کی ہر چیز بے سد ہوئی پڑی ہے۔ ہر شے زبان حال سے ہاتھ جوڑ کر مجھے کہہ رہی ہے کہ میں ایک میت ہوں مجھے قبر میں ڈالو۔ میں ایک لاش ہوں میرے لیے دو گز زمین کا بندوبست کرو۔ کمروں، کھڑکیوں اور دروازوں سے آنے والی سسکیوں کی آوازوں سے ماحول عجب پر اسرار سا ہوگیا تھا۔ وہی ماحول جو کل اپنی بقا کا پیغام دے رہا تھا، آج فنا کا منظر پیش کر رہا ہے۔

ایک دل چیرتا سناٹا ہے، ایک ہو کا عالم ہے۔ بچوں کے کمرے کے برابر ہی ایک کمرے پہ نظر پڑی، جہاں کبھی دو بابا جی رہا کرتے تھے۔ دروازہ کھول کر میں اندر آ گیا۔ بوڑھوں کی خالی چارپائیاں دیکھیں تو رگوں میں اداسی کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ ذہن میں ماضی کی یادوں کا ایک ہجوم امڈ آیا۔ ان بابوں سے گپ شپ لگانے کبھی کبھار میں اس کمرے میں آ جاتا تھا۔ لگا کہ کمرے کے در و دیوار سے، اس کی ہر اک شے سے افسردگی چھن چھن کر باہر آ رہی ہے۔ لگا کہ یہاں کسی آسیب کا سایہ ہے۔ جیسے کوئی ساحرہ بال بکھرائے بیٹھی ہے۔

ایک ہُوک سی اٹھی، دل غم سے بھر گیا اور پاؤں بوجھل سے ہو گئے۔ پھر ہمت نہیں پڑی یہاں مزید رکنے کی۔ سو باہر آ گیا۔ میں اس نوحہ کناں ماحول میں ماضی میں گم ہی تھا کہ یکایک بادل گھر کر آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے موسلادھار بارش ہونے لگی۔ ادھر آسمان سے ٹپ ٹپ پانی کی بوندیں گر رہی ہیں اور ادھر میری آنکھوں میں نمی تیرنے لگی ہے۔ ایک طرف آسمان چھاجوں برس رہا ہے اور ایک طرف آنکھیں برس رہی ہیں۔ درودیوار کی طرف دیکھا تو لگا میرے ساتھ ان کے بھی ٹپ ٹپ آنسو گر رہے ہیں۔ بے ساختہ زبان فقرہ آ گیا: سدا بادشاہی سوہنے خدا دی اے۔

Check Also

Dhola Talagange Neya

By Asif Masood