Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Riyasat Kon?

Riyasat Kon?

ریاست کون؟

جاوید چودھری صاحب ملک کے ایک معروف کالم نگار، اینکر پرسن اور دانشور ہیں۔ تقریباََ ہر کوئی ان سے واقف ہے۔ ایک دنیا دیکھ رکھی ہے۔ ہزاروں کتب پڑھ چکے ہیں۔ ایک اصطلاح انہوں نے گھڑی ہے اور وہ یہ ہے کہ اوپر خدا اور نیچے ریاست ہے۔ دونوں طاقت کے مراکز ہیں۔ نہ خدا سے لڑ کر آپ کامیاب ہو سکتے ہیں اور نہ ریاست ہی سے لڑ کر آپ کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اب ریاست سے مراد وہ کسی بھی ملک کی فوج مراد لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر ملک کی فوج ہی ریاست کا درجہ رکھتی ہے۔ اس معاملے میں ان سے اتفاق مشکل ہے۔ اس بات پہ اتفاق ضرور ہے کہ خدا اور ریاست سے بغاوت بہت مہنگی پڑتی ہے، مگر ان کی اس بات سے اتفاق نہیں کہ ہر ملک کی فوج ہی ریاست ہے۔

اب اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ ریاست کی تعریف کیا ہے۔ تو جس ملک میں جس ادارے کے پاس طاقت ہو وہ ریاست ہے۔ وہ طاقت اگر فوج کے پاس ہے تو وہ ریاست ہے۔ اگر پارلیمنٹ کے پاس ہے تو وہ ریاست ہے اور اگر وہ طاقت کسی فرد واحد کے پاس ہے تو وہ ریاست ہے۔ چودھری صاحب طاقت کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خاص کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں پارلیمنٹ طاقت کا اصل مرکز ہے۔ تو ریاست کا درجہ بھی پھر پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔ 1947ء سے آج تک وہاں فوج نے ایک بار بھی مارشل لا نہیں لگایا اور نہ ہی وہ لگا سکتی ہے۔ یہ نہیں کہ فوج میں اقتدار کی خواہش نہیں۔ ان کے ہمسایہ ملک پاکستان میں تین بار مارشل لا لگ چکے ہیں۔ اقتدار کی خواہشیں ہر ادارے کے دل میں مچلتی ہیں، مگر ان کی پارلیمنٹ ایک ریاست ہے، جس سے ٹکرانے کا حوصلہ کسی جرنیل میں نہیں۔ ایک بار ایک جنرل نے کہا تھا کہ پاکستان میں کئی بار مارشل لا لگے، مگر ہم نے ایک بار بھی مارشل لا نہیں لگایا۔ اس ایک بات پہ اس کی ٹھیک ٹھیک سرزنش کی پارلیمنٹ نے۔ اسے معذرت کرنا پڑی۔

دوسری طرف پاکستان میں طاقت کا اصل مرکز فوج ہے۔ جب سے ملک بنا ہے تب سے اب تک ملک کے فیصلے ہمیشہ جی ایچ کیو ہی میں ہوتے رہے ہیں۔ اب کہیں آکے فوج نے سیاسی جماعتوں سے مل کر ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسیاں چلانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے مثبت اثرات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ مگر اصل قوتِ فیصلہ چونکہ فوج کے پاس ہے اس لیے وہی ریاست ہے۔

اسی طرح جن ممالک میں بادشاہت ہے، وہاں فردِ واحد کو ریاست کا درجہ حاصل ہے۔ جیسے سعودی عرب میں شہزادہ محمد بن سلمان ہی ملک کی تقدیر کا اصل مالک ہے اور وہی اصل فیصلہ ساز ہے۔ تو پھر ریاست بھی اس کی ذات ہے۔ اس کا فرمان اس کے ملک کے تمام اداروں پہ نافذ ہے بشمول فوج کے۔

اسی طرح جن ترقی یافتہ ممالک میں جمہوریت ہے جیسے امریکہ، برطانیہ وغیرہ تو وہاں بھی ان کی پارلیمنٹ ہی کو ریاست کہیں گے۔ پس ریاست فوج کے ساتھ نتھی نہیں۔ یہ طاقت کے ساتھ نتھی ہے۔ یہ طاقت فوج کے پاس ہے تو فوج ریاست، پارلیمنٹ کے پاس ہے تو پارلیمنٹ ریاست اور اگر یہ فردِ واحد کے ہاتھ میں ہے تو فردِ واحد ریاست ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan