Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Rauf Klasra Sahib Meri Nazar Mein (4)

Rauf Klasra Sahib Meri Nazar Mein (4)

رؤف کلاسرا صاحب میری نظر میں (4)

5۔ کیا صرف سیاست دان ہی فنکار ہے! باقی بیسیوں شعبوں کے لوگ کم فنکار ہیں! شعبۂ صحافت سے وابستہ ارشاد بھٹی صاحب نے کمال چابک دستی سے دوتین ماہ ہی میں اپنے قریباً دو لاکھ سبسکرائبرز بڑھا کر انھیں ملین سے اوپر پہنچا دیا ہے۔ جانتے ہیں کیسے؟ ہر اس بندے کے پاس گیا جو سلیبرٹی تھا اور یہ سب متنازع کردار تھے اس سماج کے۔ مثلاً مرزا محمد علی انجینئر، وہابیوں کے ابتسام الہٰی ظہیر، بریلویوں کے مفتی حنیف قریشی، شیعہ کے شہنشاہ نقوی، دیوبندیوں کے مولانا طارق جمیل اور مفتی طارق مسعود، جسٹس افتخار چودھری، انوار الحق کاکڑ، حسن نثار وغیرہ۔ اس پہ مستزاد، اس نے سب سے وہ سوالات کیے جو آپس کے اختلافات بڑھاتے ہیں۔ یعنی وہ نہیں، جن سے دل جڑتے ہیں، وہ، دل جن سے ٹوٹتے ہیں۔ کچھ اور لوگ بھی تھے، جیسے رانا ثناء اللہ، سہیل وڑائچ، سامعہ خان وغیرہ۔

ان تمام پوڈ کاسٹ کا مقصد قوم کو شعور دینا نہیں، اپنی ویوورشپ بڑھانا تھا۔ قوم چونکہ بحث مباحثے کی عادی ہو چکی ہے، اس لیے اس کی اسی کمزوری سے اس نے فائدہ اٹھایا اور جلتی پہ تیل کا کام کیا۔ باقی شعبوں کے لوگوں کو بھی اسی پہ قیاس کر لیں۔

اپنے اپنے شعبے میں ہر کوئی چالاک ہے۔ ذرا مزدوروں کی دنیا میں تو جا کر دیکھیں، فیکٹری مالکان سے ان کے کاریگروں کے احوال جانیں، تو آپ کو خبر ہوگی کہ یہ غریب لوگ کیسی کیسی مکارانہ نفسیات رکھتے ہیں۔ گوجرانوالہ میں مزدوروں نے ایک فیکٹری مالک کو نہ صرف جیل میں پہنچا دیا بلکہ اس کی فیکٹری سمیت ہر شے بکوا دی۔ مزدوروں کی ہیرا پھیری اور ان کے فراڈ کے درجنوں واقعات کا تو میں خود شاہد ہوں۔ ایسی ہی ایک واردات پہ میں نے ایک مزدور سے پوچھا تو اس نے اعلانیہ کہا کہ ہم ایسے ہی کرتے ہیں۔

ملک ٹوٹنا، یعنی بنگلہ دیش کا بننا ریاست کے ماتھے پہ لگا آج تک کا سب سے بڑا داغ ہے۔ کس سیاست دان نے یہ داغ لگایا! نیز دہشت گردی، ملک میں اسلحہ اور منشیات کون لایا! سب فوجی حکومتوں کے زیرِ اثر ہوا۔ ان کی جگہ پہ اگر کوئی سیاستدان ہوتا تو وہ اپنی قوم کو افغان روس جنگ میں کبھی نہ دھکیلتا۔ سیاست دانوں کو جب جب موقع ملا انھوں نے بھارت سے تعلقات ٹھیک کرنے کی کوشش کی۔ نواز شریف نے کمال سمجھداری سے واجپائی کو نہ صرف پاکستان بلایا، بلکہ اس نے مینار پاکستان کے سائے تلے کھڑے ہو کر پاکستان کے وجود کو تسلیم کیا۔ مسئلہ کشمیر حل ہونے جا رہا تھا۔ مگر فوجی قیادت نہیں مانی۔ بتائیں! اگر سیاست دان ملک دشمن ہیں تو بھارت سے تعلقات کیوں ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے! اگر بھارت سے تعلقات نارمل ہو جاتے تو آج ملک کی یہ حالت نہ ہوتی۔ آج جو افغان طالبان ہمارے گلے پڑے ہیں، یہ کن کی پالیسیوں کے نتائج ہیں!

ہر وقت سیاست دانوں کو رگڑا لگانے میں کلاسرا صاحب زیادتی کر جاتے ہیں۔ اس طرح کہ کوئی ایک سیاستدان بتا دیں جس نے اپنی پانچ سالم مدت پوری کی ہو۔ 90 کی دہائی میں ہر ڈھائی سال کے بعد الیکشن ہوئے۔ یوں 10 سالوں میں چار حکومتیں آئیں اور گئیں۔ دوسرے، ہر حکومت کا ڈھائی سال کا عرصہ بھی کوئی آزادانہ نہیں تھا۔ حکومت ملتے ہی وزیراعظم کے خلاف سازشیوں کا جال بن دیا جاتا تھا۔ یعنی نصف مدت میں بھی ان بےبسوں کو اختیارات نہیں ملتے تھے یا انھیں استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ تیسرے، خارجہ پالیسیوں پہ ہی ملک چلتے ہیں۔ انھی کے بل پر ملک میں پیسہ آتا ہے۔ مگر خارجہ پالیسیاں ایک خاص ادارے میں تشکیل پاتی رہی ہیں۔ آج جو ہم منشیات اور دہشتگردی کی زہریلی فصل کاٹ رہے ہیں، تو یہ انھی پالیسیوں کے نتائج ہیں۔ 80 ہزار سے اوپر پاکستانی قتل ہو چکے اور 100 ارب ڈالر سے کہیں زیادہ نقصان ہو چکا۔

کلاسرا صاحب بتائیں گے کسی ایک سیاست دان کا نام جو یہ لعنتیں ملک میں لے کے آیا۔ یہ بلنڈر کس نے کیا! بھٹو نے، بینظیر نے یا نواز شریف نے؟ جس ادارے نے یہ سب کچھ کیا ہے، اس کا نام کیوں نہیں لیتے۔ مان لیا وہ تگڑے لوگ ہیں اور سخت رد عمل دیتے ہیں، مگر ان کا غصہ اہل سیاست پہ تو نہ نکالیں۔ جس کا جتنا جرم ہے، اسے اتنی سزا دیں۔ تیسرے، جب آپ ایک طبقے کو ٹرم پوری نہیں کرنے دیں گے، اسے مکمل اختیارات نہیں دیں گے، تو اس کی تربیت کے تربیت کیسے ہوگی!

بھارت کیوں آگے نکل گیا! اس لیے کہ وہاں ایک بار بھی مارشل لگا نہ کسی جج نے کسی وزیراعظم کو فارغ کیا۔ کلاسرا صاحب سیاست دانوں کی بے بسی پہ بھی کبھی لکھیں یا بولیں گے۔ سیاست دانوں کی کرپشن کی جتنی داستانیں انھوں نے رقم کی ہیں اپنے کالمز میں، کبھی ان کالمز کا نصف بھی لکھا ہے کہ ان کے پاس نہ پورے اختیارات تھے اور نہ ہی انھیں پورا وقت ملتا تھا۔ یاد آیا جب بےنظیر مرحومہ کو پہلی بار حکومت دی گئی، تو پہلے اس سے شرطیں منوائی گئیں۔ حتیٰ کہ وزیر خارجہ تک اپنا دیا گیا، جو فوج کا سابقہ جنرل تھا۔ اختیارات آپ وزرائے اعظم کو 10 فیصد دیتے ہیں اور حساب لیتے وقت اپنی یہ "عطا" بھول جاتے ہیں۔ مکمل احتساب کرنا ہے تو انہیں مکمل اختیارات بھی دیں۔

صحافت کے باب میں کلاسرا صاحب وسیع الظرف نہیں۔ ہمیشہ سے ان کا زور کرپشن پہ ہی رہا۔ بھئی! ملک کا اصل مسئلہ کرپشن نہیں، عدمِ استحکام ہے۔ وقت سے پہلے کسی حکومت کا جانا ملک کی بنیادیں ہلا دیتا ہے۔ کرپشن کیا چیز ہے اس کے آگے! آج ملک میں جو سیاسی فسادات ہیں، یہ خان صاحب کی حکومت کو قبل از وقت بھیجنے کے نتائج ہیں۔ مصنوعی طور پہ لائے گئے اور مصنوعی طور پہ بھیجے گئے۔ اس سے پیچھے جب نواز شریف کو فوج نے ثاقب نثار اینڈ کمپنی کے ذریعے فارغ کیا تو اس وقت فوراََ مارکیٹ سے دس ارب ڈالرز نکل گیا تھا۔ اس کے بعد کا نقصان اس کے علاوہ ہے۔ سرمایہ بہت حساس ہوتا ہے۔ سیاسی افراتفری دیکھتے ہی سرمائے کی چڑیا اڑ جاتی ہے۔ بھارت اپنے استحکام ہی کا تو فائدہ اٹھا رہا ہے۔ حالانکہ وہاں کا سیاست دان کون سا پوِتر اور پاک ہے۔ کرپشن وہاں بھی ہوتی ہے اور رج کے ہوتی ہے۔

نیز کیا جج حضرات جرنیلوں کی شہ پر حکومتیں نہیں توڑتے رہے! بھٹو کے بعد کسی ایک وزیراعظم کو بھی پانچ سال انھوں نے پورے کرنے دیے! کرپشن کو پر لگ جاتے ہیں مارشل لا سے اور ججوں کے وقت سے پہلے حکومت ٹوٹنے سے۔ کیا بھارت میں ایسی چالیں چلی گئیں! ایویں نہ ہر وقت بدنام کرتے رہیں اہلِ سیاست کو! سیاست دان جتنا مکار ہے، اس سے کہیں زیادہ مظلوم ہے۔ کلاسرا صاحب نے میرے خیال میں 90 فیصد سے زیادہ کرپشن پہ لکھا اور بولا۔ حالانکہ انھیں اتنا اظہار ان کی مظلومیت پہ کرنا چاہیے تھا۔

ختم شد

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali