Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Rauf Klasra Sahib Meri Nazar Mein (3)

Rauf Klasra Sahib Meri Nazar Mein (3)

رؤف کلاسرا صاحب میری نظر میں (3)

اپنے ایک کلپ میں کلاسرا صاحب نے سیاست دانوں کی گوشمالی کرتے ہوئے، ان کی کلاس لیتے ہوئے کہا کہ لوگوں کا یہ ذہن ہی نہیں ہے کہ ہماری سیاسی لیڈرشپ کو نیٹ اینڈ کلین ہونا چاہیے۔ جو ایک بار جیل کاٹ لے، وہ ہیرو ہے۔ پھر وہ ہند سندھ لوٹ لے، انہیں کوئی پروا نہیں۔ یہ سیاست دان بچے نہیں ہیں۔ یہ 25 کروڑ لوگوں کو بیچ کر آ جائیں تو ہمیں پتہ ہی نہ چلے کہ انھوں نے ہمارا سودا کر لیا ہے۔ یہ بہت تیز لوگ ہوتے ہیں۔ جب تک آپ کو لوگوں کو استعمال کرنے کا ہنر نہ آتا ہو، تب تک آپ سیاست کر ہی نہیں سکتے۔ یہ لوگوں سے ڈونیشن لے کے پھر انھی پہ حکمران بن جاتے ہیں۔ جو لوگ کہیں کہ آپ ہمیں حکمران بنائیں، ہم آپ کو آگے لے کے جائیں گے، وہ بڑے فنکار لوگ ہوتے ہیں۔

اب ایک ایک کرکے ان کے تمام نقطہ ہے نظر کا جائزہ لیتے ہیں۔

1۔ یہ بات آپ تب کہیں جب لوگ بھی نیٹ اینڈ کلین ہوں۔ بے ایمان لوگوں کے حکمران بھی بے ایمان ہی ہوتے ہیں۔ شرفا اگر یہ ذہن رکھیں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ مگر جس قوم کا ہر طبقہ، طبقے کا ہر فرد کرپشن میں ڈوبا ہو، اسے جچتا نہیں کہ وہ سیاست دانوں کے متعلق ایسا معیار قائم کرے۔ مثلاً دودھ فروش اگر کیمیکل ملا دودھ بیچے اور پھر کہے کہ حکمران کرپٹ ہیں، تو کیا یہ مناسب ہے! بدوں کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ یہ ذہن بنائیں کہ ہمارے حکمران نیک ہوں۔ خود کلاسرا صاحب کو لیاقت بلوچ نے بتایا کہ ہمارے لوگ (مولوی حضرات) سائیکلوں پہ پارلیمنٹ آئے تھے اور گئے پجارو میں تھے۔ یعنی جوں ہی غریبوں کو موقع ملا تو انھوں نے بھی اس موقع سے فائدہ اٹھایا۔ جہاں آوے کا آوے بگڑا ہو، وہاں ہدف سماج کو بناتے ہیں نہ کہ صرف سیاست دانوں کو۔ معاشرے کی اصلاح ہوگی تو قیادت کی اصلاح آپ سے آپ ہو جائے گی۔ یہ جن غریبوں کا رونا رویا جاتا ہے، انھیں ذرا پارلیمنٹ میں بھیجیں۔ یہ بھی نمک کی کان میں نمک ہو جائیں گے۔ ایم کیو ایم کے لوگ متوسط طبقے کے تھے۔ پھر انھوں نے جو لوٹ مار کی، وہ سب کے علم میں ہے۔

2۔ ان کا یہ کہنا کہ سیاست دان اتنے تیز ہیں کہ 25 کروڑ لوگوں کو بیچ آئیں، تو ہمیں پتہ ہی نہ چلے کہ انہوں نے ہمارا سودا کر لیا ہے۔ کلاسرا جی! اگر یہ تیز ہیں تو کیا ملک کے دیگر طبقات تیز نہیں! کون تیز نہیں! وکیل، جج، جرنیل، مولوی، مزدور، ہر شعبے کا کاریگر، دکاندار، صحافی، یوٹیوبرز، ویلاگرز وغیرہ۔ دور نہ جائیں۔ اپنے ارشاد بھٹی صاحب ہی کو دیکھ لیں۔ آخری درجے کا مکار اور چالباز ہے۔ خان صاحب کا بیانیہ جتنی چالاکی سے یہ لے کے چل رہا ہے، شاید ہی کوئی اور ہو۔ یہ تو اتنا شاطر ہے کہ بزرگ صحافی مجیب الرحمان شامی تک کو ترکی بہ ترکی جواب دے کر خاموش کرا دیتا ہے۔

ایک پروگرام میں شامی صاحب طلبہ کو کتاب پڑھنے کی نصیحت کرتے ہیں، مگر فوراََ یہ طلبہ سے کہتا ہے کہ سٹڈی کرنے کی ضرورت نہیں۔ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاؤ۔ جس سانس میں تحریک لبیک کی غنڈہ گردی پہ تنقید کرتا ہے، اسی سانس میں کہتا ہے کہ ایسی جماعت پہ پابندی نہیں لگنی چاہیے، جس کے لاکھوں کروڑوں کا ووٹ بینک ہو۔ نیز ان کی جن مسجدوں، مدرسوں میں انتہا پسندی سکھائی جاتی ہے، بس انھیں بند کرنا چاہیے۔ یعنی تنقید کے ساتھ ہی تحسین کر دی۔ وجہ؟ پی ٹی آئی اور مذہبی فالوورز جانے نہ پائیں۔ کیا یہ کسی سیاست دان سے کم ہے!

حضور! ہر شعبے کا بندہ تیز ہے۔ ایک ریڑھی والے سے صحیح سودا لے کے دکھائیں! صرف سیاست دانوں کو لپیٹ میں نہیں لانا چاہیے۔ باقیوں پہ بھی نظرِ کرم کرنی چاہیے۔ اہلِ مذہب جو ایک تنکا توڑے بغیر اربوں کے مالک ہیں، کیا یہ تیز نہیں!

کلاسرا صاحب شاید کسی بھول میں ہیں کہ صرف پاکستان ہی کے سیاست دان تیز ہیں۔ حضورِ والا! ساری دنیا کے سیاست دان ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جنھوں نے دماغوں پہ حکومت کرنی ہو، وہ سادہ نہیں ہوتے۔ سیاست کی دنیا ایسی ہی ہے اور ایسی ہی ہونی چاہیے اور یہ طریق شروع دن سے چلا آ رہا ہے۔ ماضی میں اقتدار جن لوگوں کے پاس تھا، وہ بھی ایسے ہی تھے۔ عام لوگوں سے زیادہ ذہین اور زیادہ تیز اور جو حکمران سادہ تھے، وہ زیادہ دیر ٹک بھی نہیں سکے تھے، ٹھیک سے حکومت نہیں کر سکے تھے۔ ایک اور بات، سادہ بندہ گھر نہیں چلا سکتا، ملک کیا خاک چلائے گا۔ حکومت کرتے وقت بڑے بڑے سرپھروں سے، مکاروں سے پالا پڑتا ہے۔ پس سیاست دان کا تیز ہونا بنتا ہے۔

3۔ لٹیرا کون نہیں! لوٹ مار کا بازار ہر شعبے میں گرم ہے۔ کیا ان کے ہم پیشہ صحافی حضرات لٹیرے نہیں، جو اپنی اپنی پسند کے سیاسی لیڈروں کے بیانیے پھیلا رہے ہیں! کیا جج، کیا "بڑے چودھری" کیا مزدور، کیا کاریگر، کیا وکیل، سبھی حصہ بقدرِ جثہ کے تحت ملک لوٹ رہے ہیں۔ جب ایسا ہے تو پھر ہر وقت سیاست دان ہی کیوں نشانے پہ ہیں! کیا یہ زیادتی نہیں!

4۔ کون سا ادارہ ہے جو ڈونیشن کے بغیر چلتا ہے! سیاست دان جنھیں ٹکٹ دیتے ہیں، صرف ان سے ڈونیشن لیتے ہیں۔ باقی ورکرز سے وہ دھرنے کرواتے اور جلسوں میں لاتے ہیں۔ ہاں! مولوی حضرات امرا اور غربا سب سے چندہ لیتے ہیں۔ ان کا نام آپ کیوں نہیں لیتے! سیاست دانوں کی طرح ان کا نام بھی بار بار لیں۔ اہک تو اہلِ مذہب بد+ معاش ہیں اور اوپر سے آج تک انھوں نے کبھی اپنا آڈٹ نہیں کروایا۔ گویا ریاست کے اندر ایک ریاست بنا رکھی ہے۔ ان کے پاس پیسہ کتنا آیا اور کتنا خرچ ہوا! کسی کو پتا ہی نہیں۔ "ایماندار" تو اتنے ہیں آتا 1000 ہے، لگاتے 100 ہیں۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam