Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Rauf Klasra Sahib Meri Nazar Mein (2)

Rauf Klasra Sahib Meri Nazar Mein (2)

رؤف کلاسرا صاحب میری نظر میں (2)

کلاسرا جی ظرف اور درد سے بھرے انسان ہیں۔ اپنے ماتحتوں کا احساس کرنا کوئی ان سے سیکھے۔ کبھی کسی ملازم کی تذلیل نہیں کی۔ اگر کوئی پیشہ ورانہ غلطی کرے، تو وقتی طور پر ناراض ہوں گے اور مہذب لفظوں میں اس کا اظہار کریں گے۔ پھر چھٹی کے وقت انھیں نارمل کرکے، ٹھنڈا کرکے بھیجیں گے۔ تاکہ یہ گھر جا کر اپنا غصہ بیوی بچوں پہ نہ نکالیں۔

یہ تھا کلاسرا صاحب کی شخصیت کا روشن پہلو۔ آپ تعلیم یافتہ بھی ہیں اور روشن خیال بھی۔ مگر یہاں ایک مقامِ تاسف ہے۔ ان کی روشن خیالی، اس نظام فکر میں نہیں ڈھلی، جو بگڑے سماج کو صحیح راہ پہ لائے۔ ڈاکٹر وہ ہے جو جسمانی مرض کی صحیح تشخیص کرے۔ علاج کا مرحلہ بعد میں ہے۔ اگر مریض ٹی بی کا ہے اور بری طرح کھانس رہا ہے، تو مستند ڈاکٹر دوا کھانسی کی نہیں، ٹی بی کی دے گا۔ کیونکہ کھانسی تو علامت ہے ٹی بی کی۔ ٹی بی ٹھیک ہوگی، تو کھانسی خود ٹھیک ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر آپ نے سماج کا "ڈاکٹر" بننا ہے تو پہلے قوم کے اصل مرض کی تشخیص تو کریں۔

قوم تین چار بنیادی امراض کا شکار ہے۔ جب تک یہ امراض ٹھیک نہیں ہوں گے، تب تک وہ علامات (بڑھتی کرپشن، شخصیت پرست، یعنی لٹیرا اپنی مرضی کا، صوبوں کی کم تعداد، پاور کا نیچے تک منتقل نہ ہونا، موروثیت وغیرہ) باقی رہیں گی۔ پہلا مرض پارلیمنٹ کی کمزوری ہے۔ جس کی وجہ سے عسکری ادارے اور ججوں نے چڑھائی کر رکھی ہوتی ہے۔ جب تک پارلیمنٹ کو اس کے مکمل اختیارات نہیں ملتے، تب تک یہ عدم استحکام رہے گا اور یہی وہ مرض ہے جو کسی ملک کو چاٹ جاتا ہے۔ یعنی اصل مرض کرپشن نہیں، بار بار جس کا ذکر کرتے ہیں کلاسرا صاحب اپنے کالموں میں۔

اب تو خیر 26 ویں ترمیم کے بعد ججز اپنے دائرے میں ہیں اور فوج بھی ماضی کی اناؤں کی اتنی اسیر نہیں رہی۔ سیاسی قیادت کے ساتھ مل کر فیصلے کر رہی ہے۔ ملک کو دوسرا مرض اہل مذہب کی صورت میں چمٹا ہے۔ مذہب کی آڑ میں سالانہ اربوں روپے کی کرپشن ہو رہی ہے۔ کام یہ مولوی لوگ دھیلے کا نہیں کرتے، مگر بیٹھے بٹھائے کروڑوں اربوں کے مالک بن جاتے ہیں۔ بلکہ اس کے برعکس فرقہ ورانہ تقسیم کو گہرا کرتے ہیں اور مذہبی شدت پسندی کو بھی رواج دیتے ہیں۔ نیز سائنسی فکر کی راہیں بھی مسدود کر رکھی ہیں ہر قدرتی کام میں خدا کی ذات کو بلاوجہ لا کر، یعنی جو کرتا ہے اللہ کرتا ہے۔ یہ سیلاب وغیرہ اللہ کی ناراضی کا اظہار ہے۔ جب سارے کام قدرت کے کھاتے میں ڈالنے ہیں، تو دماغوں میں سائنسی سوچ کیسے پیدا ہوگی!

تیسرے نمبر پہ فیملی ویلاگرز اور سیاسی یوٹیوبرز ہیں۔ یہ قوم کا وقت بھی ضائع کرتے ہیں اور سیاسی نفرتیں بھی دلوں میں پیدا کرتے ہیں۔ فیملی ویلاگرز اپنے گھر کی ماؤں بہنوں کو سکرین پہ لے آتے ہیں اور سیاسی یوٹیوبرز اپنی اپنی پسند کی سیاسی جماعت کے لیڈر کو دیوتا اور اس کے مخالفین کو شیطان بنا کے پیش کرتے ہیں۔ کلاسرا صاحب کی تنقید اس خبیث بانس پہ ہونی چاہیے، تاکہ دیگر قباحتوں کی بانسری ہی نہ بجے، جس کا رونا یہ اپنی تحریروں اور تقریروں میں کرتے رہتے ہیں۔

کلاسرا جی نے ہمیشہ قیادت ہی کو ہدف بنایا ہے۔ یہ ان کا بہت کمزور مقام ہے۔ ان کے کالمز پڑھیں یا ویلاگز دیکھیں تو ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر اوپر کے لوگ ٹھیک ہو گئے، تو نیچے کے از خود ٹھیک ہو جائیں گے۔ گویا کلاسرا صاحب بجائے جڑ کو ٹھیک کرنے کے، درخت کے تنے، پتوں اور شاخوں کو ٹھیک کرنے پہ لگے ہیں۔ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ اگر میں اپنے کالموں میں سیاست دانوں کی کرپشن اور ملک و عوام دشمنی کی داستانیں رقم کروں گا، اپنے ویلاگز میں قوم کو بتاؤں گا، تو لوگ نہ صرف ان سے نفرت کرنے لگیں گے، بلکہ بہتر قیادت کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں گے۔ جبکہ اس کے برعکس یہ بارہا اظہار کر چکے کہ قوم اپنی اپنی مرضی کا لٹیرا منتخب کر چکی ہے۔ حیرت ہے، اس کے باوجود کلاسرا صاحب تاک تاک کے نشانے قیادت ہی کو لگا رہے ہیں اور وہ بھی سیاسی۔ کیا بہتر نہ تھا کہ یہ سماج کو مخاطب کرتے، عام بندے کی اصلاح کرتے۔

یہ کہاں لکھا ہے کہ سماج کا ہر فرد کرپشن اس لیے کر رہا ہے کیونکہ اس کا سیاست دان کرپشن کر رہا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سیاست دان اس لیے کرپشن کر رہا ہے کیونکہ سماج کا ہر فرد کرپشن کر رہا ہے۔ جیسے عوام، ویسے حکمران۔ جیسا دودھ ویسی بالائی، نہ کہ جیسی بالائی، ویسا دودھ۔

سیاست دان اپنی اخلاقیات سماج سے لیتا ہے۔ نہ صرف سیاستدان بلکہ سماج کے ہر طبقے کی نفسیات معاشرہ ہی تشکیل دیتا ہے۔ اگر کسی سماج کے تمام طبقات بے ضمیر ہیں، تو جان لیں! وہ سماج ہی بے ضمیر ہے۔ وہی بات کہ اصلاح کرنی ہے تو سماج کی زیادہ کریں اور قیادت کی کم۔ دودھ خالص ہوگا، تو بالائی بھی خالص آئے گی۔ پس تنقید کے لیے انتخاب صرف اہل سیاست ہی کا نہ کریں، دیگر طبقوں کا بھی کریں۔

ایک اور بات کہ کرپشن صرف پیسے کی نہیں ہوتی، اخلاقی بھی ہوتی ہے۔ کتنے ہی صحافی ہیں، جو صحافت کی آڑ میں خان صاحب کی کمپین کمپین چلا رہے ہیں۔ خان صاحب کے حق میں ڈٹ کر ویلاگز کرتے ہیں۔ خان کے مخالفین کو ہر دم نشانے پہ دھرا ہوتا ہے انھوں نے۔ پنجاب حکومت میں انھیں دنیا جہان کے کیڑے نظر آئیں گے، مگر خان صاحب کے کے پی کے کو انھوں نے ترقی یافتہ صوبہ سمجھ رکھا ہے اور اگر تنقید بھی کریں گے تو منافقانہ قسم کی اور اگر بامرِ مجبوری پنجاب حکومت کے کسی کام کی تعریف کرنی پڑ جائے تو اسے سرسری سا بیان کریں گے۔ یہ ارشاد بھٹی، حسن نثار، حبیب اکرم وغیرہ خان صاحب کا بیانیہ ہی تو لے کے چل رہے ہیں۔ ارشاد بھٹی نے تو اپنے یوٹیوب چینل کے شروع کی وڈیو ہی خان صاحب سے ملاقات کی لگائی ہے اور اس پہ اسے تین ملین ویوز ملے ہیں۔ اس نیچ حرکت کے بعد یہ صحافی رہتا ہے؟

یہ صحافی نما یوٹیوبرز اور ویلاگرز ایک طرف تو ڈھیروں ڈالرز سمیٹ رہے ہیں اور دوسری طرف یہ نوجوان نسل کے ذہنوں میں زہر بھر رہے ہیں۔ خان صاحب کو دیوتا ایسوں ہی نے بنایا ہے، جو اب ریاست کے گلے پڑا ہوا ہے۔ شریعت اور صحافت کے اصولوں کی رُو سے کیا ایسوں کی کمائی حلال ہے؟ یہ قوم کے مالی مجرم بھی ہیں اور اخلاقی بھی۔ اس اعتبار سے تو یہ دہرا جرم بنتا ہے۔ سیاست دان اگر مالی کرپشن کرتے ہیں تو یہ مالی کے ساتھ اخلاقی کرپشن بھی کرتے ہیں۔ اگر سیاست دان ملک دشمن ہیں تو یہ ان سے بڑے ملک دشمن ہیں۔

ان جرائم کی بنیاد پر کلاسرا صاحب ان کے بارے میں کیوں ایک لفظ لکھتے ہیں نہ بولتے ہیں۔ اگر کرپشن پہ زرداری اور شریف برادران وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے، تو ارشاد بھٹی، حسن نثار اور حبیب اکرم وغیرہ کا نام کیوں نہیں لیا جا سکتا۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam