Rauf Klasra Sahib Meri Nazar Mein (1)
رؤف کلاسرا صاحب میری نظر میں (1)

رؤف کلاسرا صاحب پاکستان کے صفِ اول کے کالم نگار اور اینکر پرسن ہیں۔ ایک سکہ بند صحافی ہیں۔ ان کا تعلق ضلع لیہ (جنوبی پنجاب) کے علاقے جیسال کلاسرا کی جٹ فیملی سے ہے۔ پڑھی لکھی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔ والدین خالص دیہاتی پس منظر کے تھے، مگر تھے ذہین اور سمجھدار۔ بڑے بھائی نعیم کلاسرا مرحوم نہ صرف ایک اچھے اور سلجھے ہوئے ڈاکٹر تھے، بلکہ ادبی کتب سے ان کا لگاؤ جنون کی حد تک تھا۔ معروف انگریزی ناول "تنہائی کے سو سال" انھی کی ترجمہ شدہ کتاب ہے۔ کلاسرا صاحب روایت سے گندھے ہیں۔ ناسٹلجیا کے حصار میں رہنا انھیں بہت بھاتا ہے، یعنی بچپن اور ماضی کی خوبصورت یادوں میں بسیرا کرنا، ان یادوں سے لطف کشید کرنا انھیں بہت اچھا لگتا ہے۔
گاؤں سے نکلے، مگر گاؤں ان سے کبھی نہیں نکلا۔ ماضی کو ساتھ ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ ایک بار جس کالج یا سکول کے سامنے سے گاڑی سے گزرے، تو گاڑی روک کر اس سے باہر نکلے اور دیر تک حسرت بھری نظروں سے اسے دیکھتے رہے۔ اس ادارے میں گزرے وقت اور اس سے جڑی یادوں میں کھو گئے۔ نیک روح، اچھا جسم اور اچھا نصیب پایا ہے۔ روش خیال ہیں۔ قدامت پسند اکثر ان کی زد پہ رہتے ہیں۔ صاحبِ طرز لکھاری ہیں۔ اظہار الحق صاحب تک ان کی شخصیت کے، ان کی تحریروں کے گرویدہ ہیں۔
ان کے کالمز میں آپ کو متنوع زندگی کے متنوع رنگ ملیں گے۔ زندگی کے بڑے گہرے اور دلچسپ سبق دیتی ان کی تحریریں اپنے اندر ہر ذوق کا سامان لیے ہوتی ہیں۔ جو ایک بار ان کی تحریر پڑھ لے، ممکن ہی نہیں وہ ان سے گریزاں رہ پائے۔ وہ ان کا مستقل قاری بن جائے گا۔
ایک باب میں رؤف صاحب کو داد دینی پڑے گی کہ اس نوجوان نے کڑی محنت کی۔ ایک گاؤں کا پلا بڑھا، پڑھتے پڑھتے اتنی دور نکل گیا کہ قومی سطح پر ایک روشن ستارہ بن کر ابھرا۔ کتاب اور فلم سے محبت گویا ان کی گھٹی میں پڑی ہے۔ انگریزی زباں انھیں مادری زبان ہی کی طرح آتی ہے۔ بڑے بڑے انگریز لکھاریوں کی ہزاروں کتب پڑھ چکے ہیں۔ کسی اہم موضوع پہ کوئی فلم بنی ہو، اسے ضرور دیکھتے ہیں۔ کسی اہم عنوان کا احاطہ کرتی کتاب کو فوراََ پڑھ ڈالتے ہیں۔ ان کے نزدیک اہم کتاب کا ملنا کسی خزانے کے ملنے سے کم نہیں۔
ایک تو علم دوست فیملی، دوسرے کتب بینی، تیسرے بھانت بھانت کے لوگوں سے میل جول، چوتھے نفیس طبیعت، ان سب نے ان کی نفسیات میں اتنی پاکیزگی، اتنی حساسیت بھر دی ہے کہ ان سے ایک بار کی ملاقات کا خوشگوار احساس آپ کبھی بھول نہیں پائیں گے۔ یہ اتنے حساس ہیں کہ چٹیل میدان میں ایک ٹنڈ منڈا درخت کھڑا ہو اور اس پہ کلاسرا صاحب نے ایک کالم لکھنا ہو تو فوراََ لکھ ڈالیں گے۔ وہی بےجان سا درخت ان کی تحریر میں ہمیں جیتا جاگتا نظر آئے گا۔
جھاڑیوں میں کوئی چمکتا جگنو ہو، آسمانوں میں اڑتی کوئی آوارہ بدلی ہو، توت کی ڈال پہ بیٹھا بلبلوں کا کوئی جوڑا ہو، انجیر کے پتوں میں چھپ کر بیٹھی کوئل ہو، سرسوں کے پھولوں کا رس چوستی شہد کی کوئی مکھی ہو، گلاب کے پھول پہ منڈلاتا کوئی بھنورا ہو، دور افق میں سرخی میں نہایا ڈوبتا کوئی سورج ہو، گھاس پہ موتیوں کی طرح چمکتی شبنم ہو، صبح تازہ دم ہو کر کرنیں بکھیرتا سورج ہو، سر پہ مٹکا رکھے کنویں کی طرف جاتی کوئی الھڑ مٹیار ہو، کوئی بل کھاتی بیل ہو، دور مندر میں ٹمٹماتا کوئی دیا ہو، سردیوں کی سرد شام میں ٹاہلی پہ اداس بیٹھی کوئی فاختہ ہو، کلاسرا صاحب کا قلم انہیں دیکھتے ہی رواں ہو جائے گا۔ پل بھر میں ان بے زبانوں کو زبان دے کر ان سے ہم کلام ہو جائے گا۔ یاد آیا ایک بار گھر کی بالکونی میں بیٹھی ایک بچی نے انھیں سمائل دی، تو پوری تحریر اس سمائل کی نذر کر دی۔
جنگل کی تلاش کے عنوان پر ان کا دنیا اخبار میں چھپا 5 جنوری 2025ء کا کالم نہیں بھولتا۔ یہ اس لائق ہے کہ اسے فریم کرا کر ڈرائنگ روم کی زینت بنایا جائے۔ موصوف نے اس میں پورے جنگل کو جیتا جاگتا، بولتا سنتا بنا دیا۔ پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ جنگل کی ہر ایک شے بزبانِ حال اپنی ببتا سنا رہی ہے، اپنا نوحہ پڑھ رہی ہے۔ درخت سے گرے خشک پتوں پہ جب پاؤں دھرتے ہیں تو گویا یہ اپنی اصل سے جدائی کا نوحہ پڑھتے ہیں۔ چرمر کی آواز میں ایک عجیب سی دکھ بھری داستان سنائی دیتی ہے۔ جیسے کوئی اپنے پیارے کی لاش پہ سسکیاں لے کر روئے۔ کسی بے جان چیز میں جان ڈالنا خالق کا کام ہے یا ایک حساس لکھاری کا۔ کلاسرا جی اس فن میں طاق ہیں۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!
کلاسرا جی خوش اخلاق اور مروت سے بھرے انسان ہیں۔ اللہ نے کھلا دل دیا ہے۔ ریسٹورنٹ میں جائیں تو اچھی ٹپ دیتے ہیں۔ بچوں کو بھی یہی درس دیا ہے۔ جہاں جاتا ہے، خوشبوئیں لٹاتا ہے۔ خاندانی بندہ ہے۔ بہت بیبا، بہت اچھا۔ ضمیر اس قدر بیدار ہے کہ قلم اور زبان کا کبھی سودا نہیں کیا۔ ہر حاکمِ وقت کی آنکھوں میں کھٹکا اور خوب کھٹکا۔ بے روزگار ہونا پسند ہے، مگر بکنا پسند نہیں۔ قلم کیا ہے! تلوار کی دھار ہے، جس سے شاید ہی کسی وقت کی سرکار بچ پائی ہو۔ حرص، ہوس اور "ھل من مزید" کے الفاظ گویا لغت میں ہیں ہی نہیں۔
خوب دوست نواز ہیں۔ دوستی نبھانی تو کوئی ان سے سیکھے۔ مرے ہوئے دوستوں کے جسموں میں اپنی تیز اور حساس یادوں کی روح پھونک کر انھیں پھر سے زندہ کرتے اور اپنے پاس بٹھاتے ہیں۔ نہ صرف اپنے دل و دماغ میں بساتے ہیں، بلکہ انہیں اپنے ساتھ ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ ان سے باتیں کرتے ہیں اور اپنے چاہنے والوں سے ان کا تعارف کرواتے ہیں۔ ہہ ان کا اعجاز سمجھیے کہ ان کی نگری میں آیا ان کا کوئی دوست مر کر بھی مرتا نہیں۔ اپنے بڑے بھائی نعیم کلاسرا مرحوم اور ڈاکٹر ظفر الطاف مرحوم کو انہوں نے آج تک مرنے نہیں دیا۔ اپنے بچھڑے پیاروں کے متعلق بول بول کر اور لکھ لکھ کر ان میں روح لوٹاتے اور پھر انھیں جیتا جاگتا بناتے ہیں۔
میں ڈاکٹر ظفر صاحب مرحوم سے کبھی نہیں ملا، مگر ان پہ لکھے ان کے درجن بھر کالموں سے میں نے انھیں جانا کہ قالب تو مرحوم کا بشر کا تھا، مگر قدرت نے کمال مہربانی سے روح اس میں ایک فرشتے کی بھر دی تھی اور اب کلاسرا صاحب کی طرح میں بھی ڈاکٹر صاحب کے چاہنے والوں میں ہوں، ان کا فین ہوں، ان کے لیے دعاگو ہوں۔ یقیناََ وہ اوپر تازہ دم ہوں گے اور اپنے جگری دوست کلاسرا کی دوستی کے قصے لہک لہک کر وہاں نیک روحوں کو سنا کر خود بھی خوش ہوتے ہوں گے اور ان کے چہروں پہ بھی مسکراہٹیں بکھیرتے ہوں گے۔ ممکن ہے اس باب میں کوئی روح ڈاکٹر صاحب سے حسد کر بیٹھے کہ میری زندگی میں تو رؤف نام کا کوئی دوست نہیں تھا۔ آپ نے یہ جوہر کیسے ڈھونڈ نکالا! دھت تیرے کی! مجھ سا بھی کوئی بدنصیب ہوگا!

