Pattoki Ka Sewerage System, Jo Inki Umar Bhar Ki Kamai Chaat Gaya
پتوکی کا سیوریج سسٹم، جو ان کی عمر بھر کی کمائی چاٹ گیا

کھارے پانی سے نصیبوں کو تو جو مار پڑی، سو پڑی، نامراد سیورج سسٹم نے بھی ککھ نہیں چھوڑا پتوکی کے مکینوں کے پلے۔ نمکین پانی جسم کا حسن برباد کر گیا، تو سیورج کے خراب نظام نے ان کی معاشیات برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جس گلی میں جائیں دائیں بائیں بنی نالیاں اور ان میں تیرتی غلاظت نظر آئے گی۔ ایک تو ان کی بو سے پوری گلی سے ناگوار سی مہک آ رہی ہوگی، یعنی گلی میں داخل ہوتے ہی آپ کا پہلا استقبال بُو کرے گی (وہ الگ بات کہ عشروں سے اس ماحول کا عادی ہونے کی وجہ سے اب یہ بو اتنی محسوس نہیں ہوتی) اور دوسرے، یہ پانی مکانوں کی بنیادوں میں پڑتا پڑتا گہرائی تک چلا جاتا ہے۔ اس کے برے اثرات سے پھر دیواریں پھٹتی اور رنگ روغن اترتا ہے۔
اندازہ لگائیں! مکان کو بنے ابھی سال دو سال ہی ہوتے ہیں اور ارمان بھی ٹھیک سے پورے نہیں ہوتے کہ دیواروں میں دراڑوں کے آثار نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں، رنگ اترنے لگتا ہے۔ وہ مکان جو بنتے وقت خوبصورت تھا اور جس پہ ٹھیک ٹھاک پیسہ لگا تھا، اب نہ صرف بد صورت لگنے لگتا ہے، بلکہ پیسوں کی بربادی پہ ہول اٹھتے ہیں۔ خوشی غم میں بدل جاتی ہے۔ ظاہر ہے جب پندرہ بیس سالوں میں پائی پائی جوڑ کر پیسہ اکٹھا کیا مکان بنانے کے لیے اور تھوڑے عرصے کے بعد ہی مکان برباد ہونے لگے، تو صدمہ تو ہوگا۔ جب مکان کی حالت بگڑنے لگتی ہے، تو ازسرِنو پیسوں کا بندوبست کیا جاتا ہے اس مکان کی مرمت کے لیے۔
یہ نقصان یہیں پہ رکتا، تو زیادہ مسئلہ نہیں تھا۔ ستم پہ ستم یہ ٹوٹتا ہے کہ دس بارہ سال کے بعد مکان گلی سے نیچے ہو جاتا ہے۔ اب بارش ہوتی ہے، تو سارا پانی دہلیز پار کرکے مکان میں چلا جاتا ہے۔ گلی بھی کسی ندی کا منظر پیش کرتی ہے۔ یوں سالوں کی خون پسینے کی کمائی برباد ہو جاتی ہے۔ اب اس مصیبت سے چھٹکارے کی یہی صورت نظر آتی ہے کہ گلی بھی اونچی ہو اور مکان بھی۔ اب کونسلر صاحب بھی متحرک ہوتے ہیں اور صاحبِ مکان بھی۔ لیجیے! اب گلی بھی اونچی ہوگئی اور مکان بھی۔ یعنی اس مکان پہ جو لاکھوں خرچ ہوئے تھے، اب پھر یہ خرچ نئے سرے سے پڑ گیا۔
جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے، علاقے میں یہی مشق فرمائی جا رہی ہے۔ اہلِ پتوکی اسی گھن چکر میں پڑے برباد ہو رہے ہیں۔ جو پیسہ انھوں نے کسی کاروبار کو شروع کرنے یا سابقہ کاروبار کو ترقی دینے کے لیے خرچ کرنا تھا، وہ مکان کھا گئے۔ باقی کی کمائی شادی بیاہ اور میت پہ منعقد رسمیں کھا جاتی ہیں۔ جب بڈھے ہو کے بیمار پڑتے ہیں، تو اس وقت مانگے تانگے کی رقم سے علاج ہوتا ہے۔ یہ ہے وہ خوفناک رسم جو عشروں سے نبھائی جا رہی ہے۔ یہ دائرے کا وہی سفر ہے، جو کولھو کے بیل کا ہے۔ اس ایک نامراد قباحت نے عموماً پتوکی اور خصوصاً ناروکی ٹھٹھہ کو کبھی اٹھنے نہیں دیا۔
ساری زندگی کی کمائی یا تو مکان کھا جاتے ہیں یا بیاہ اور موت کی رسمیں۔ اس کے بعد بھی اگر کچھ بچ رہے، تو بوڑھوں میں زندگی بھر کی برائیوں سے "پاک" ہونے کا احساس جاگ اٹھتا ہے۔ ظاہر ہے جب بڈھے وارے زندگی میں رنگینیاں ختم ہو جاتی ہیں، تو خواب بھی آخرت کے آتے ہیں ڈراؤنے ڈراؤنے سے۔ پھر جب مولویوں کی تقریریں اور نعت خوانوں کی نعتیں مکے مدینے کے حوالے سے سن سن کر ایک دیوانگی سی طاری ہو جاتی ہے۔ اوپر سے کوئی حج کر آتا ہے تو یہ فقرہ "رج رج زیارتاں کیتیاں" کہنا نہیں بھولتا۔
مزید یہ کہ وہ وہاں ایسے نقشے کھینچے گا کہ سننے والوں پہ ایسا جنون طاری کرے گا کہ اب انھوں نے ہر قیمت پہ سوہنے دا گھر دیکھنا ہے۔ خواہ کچھ ہو جائے، موت سے پہلے حج ضرور کرنا ہے۔ بھلے اس کے لیے پورے گھر کو سولی پہ ٹانگنا پڑے، سب کچھ داؤ پہ لگانا پڑے۔ بات یہیں پہ بھی نہیں رکتی۔ اس کے بعد عمرے کی خواہش دامن گیر ہو جاتی ہے۔ حالات کچھ بہتر ہوں، تو اس عمرے کے بعد بھی عمرہ "کھڑکا" دیا جاتا ہے۔ موضوع نہ بدل جائے۔ اس پہ پھر کبھی لکھیں گے کہ کیسے مسیت، مدرسے اور پیر خانے کی کمائی پہ پلنے والے ہڈ حرام ملا نے یہ فضا پیدا کی۔
تو جناب سیورج سسٹم کا یہ برباد نظام ہی پورے ٹھٹھہ کو کھا گیا ہے۔ میرے دیکھتے دیکھتے پورا ٹھٹھہ غالباً تین بار نیچے غرق ہو چکا ہے۔ یعنی ہر مکان تین تین بار بنا ہے۔ اہل ٹھٹھہ کے لوگوں کے مقدر میں خدا نے عجیب مشق رکھ دی ہے۔ پہلے مکان بناؤ اور پھر اسے گراؤ۔ پھر مکان بناؤ اور پھر اسے گراؤ۔ مکانوں کے بننے اور گرنے کا تسلسل ماضیِ بعید سے آج تک جاری و ساری ہے۔
اب ہر کوئی کہے گا کہ وقت اور پیسے کی بربادی کی وجہ یہ علاقہ ہے۔ اس کا سیورج سسٹم ٹھیک ہوتا، تو یہ مسئلہ کبھی کھڑا نہ ہوتا۔ ظاہر میں یقیناََ یہی وجہ ہے۔ مگر اس کے پیچھے جو اصل وجہ ہے، وہ غیر سائنٹفک سوچ ہے۔ ہمارا سماج بدقسمتی سے سائنسی اندازِ فکر نہیں رکھتا۔ جس ملک میں مولوی، جرنیل، یوٹیوبر اور ٹک ٹاکر کی حکومت ہو، وہ اپنے پاؤں پہ کھڑا نہیں ہو سکتا۔
فرانس کے ایک علاقے میں دیمک نے لوگوں کی مت مار رکھی تھی۔ وہاں مکان چونکہ لکڑی کے ہوتے ہیں، اس لیے دیمک چاٹ جاتی تھی مکانوں کو۔ پھر انھوں نے کچھ ایسا حل نکالا کہ وہ دیمک اب قصے کہانیوں میں رہ گئی ہے۔ ماضی کی داستان بن گئی۔ چونکہ وہ سائنٹفک سوسائٹی ہے، اس لیے اس مصیبت سے چھٹکارا پا گئے۔ ہمارے مقدر میں قدرت نے مولوی، جرنیل، یوٹیوبر و ویلاگرز یا ٹک ٹاکر لکھ رکھے ہیں۔ اس لیے اس جنجال سے جند چھڑانا بہت مشکل ہے۔ پتوکی کو جو مار پڑی ہے، یہ صرف اسی وجہ سے نہیں۔ اس کا باعث ان کی ناسمجھداری بھی ہے، جس نے ان کے ہاں "اتفاق میں برکت ہے" کے اصول کو پارہ پارہ کیا ہے۔ آدھی پتوکی کا منہ مشرق کی طرف اور آدھی کا مغرب کی طرف ہے۔ تو جو گھاگ قومیں ہیں، انھوں نے آج تک ان کی اسی کمزوری سے فائدہ اٹھایا ہے اور بامِ عروج کو پہنچی ہیں۔ ضلع قصور کی بڑی پوسٹوں پہ آرائیں قوم کا کوئی فرد آپ کو خال خال نظر آئے گا۔ اس تکلیف دہ موضوع کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پانی کے نکاس کا نظام اگر خراب ہو کسی سماج میں، تو وہ سماج کبھی اٹھ نہیں سکتا۔ اس کے مکین سدا ٹامک ٹوئیے مارتے رہیں گے، ان کی کبھی پوری نہیں پڑے گی۔ غربت ہمیشہ اس سماج کا حوالہ رہے گی۔ وہاں کبھی خوشحالی نہیں آئے گی۔ ان کی زندگیاں کولھو میں جتے بیل کی طرح دائرے میں گھومتی رہیں گی۔ کیونکہ ان کا خراب سیوریج ان کی بچتیں کھاتا رہے گا۔
راولپنڈی میں ایک دوست کے گھر جانا ہوا۔ اس کے ابو نے بتایا کہ یہ مکان 1973ء میں بنوایا تھا۔ اس وقت یہ گلی سے جتنا اونچا تھا، آج بھی اتنا ہی اونچا ہے۔ اس لیے کہ ہمارے ہاں نالیوں کا رواج نہیں ہے۔ میں نے کہا چچا جان! اتنے عرصے میں تو ہمارا مکان "ماشاءاللہ" تین بار بن چکتا ہے۔ وہ حیران ہوئے۔ میں نے کہا کہ ہمارا سیوریج کا نظام ناقص ہے۔

