Pattoki Ka Aham Masla
پتوکی کا اہم مسئلہ

آج بہت درد دل کے ساتھ ایک مسئلہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ اس مسئلے کا تعلق میری جنم بھومی سے ہے، میرے علاقے ناروکی ٹھٹھہ پرانی منڈی پتو کی سے ہے۔ یہ مسئلہ دہائیوں پرانا ہے، عشروں پرانا ہے۔ دکھ یہ ہے کہ پتوکی کی پوری تاریخ میں آج تک یہ مسئلہ کسی کی ترجیحات میں کوئی جگہ نہیں پا سکا۔ کسی نے انفرادی طور پر اس مسئلے کو چھیڑا اور نہ اجتماعی طور پر ہی اس مسئلے کو موضوعِ بحث بنایا۔
یہ مسئلہ اپنی ذات میں بہت گھمبیر ہے، اتنا گمبھیر کہ پورے شہر کا اسے موضوع نہ بنانا ان کے شعور پہ ان کی عقل پہ ایک سوالیہ نشان لگا گیا ہے۔ حیرت ہے! اتنا بڑا حادثہ پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، ہر آنے والی نسل پہ یہ حملہ کرتا ہے، مگر شہر کے کرتا دھرتا کو کوئی احساس ہی نہیں۔ بڑے تو اپنی نبھا گئے اپنے تھوڑے بہت شعور کے ساتھ، مگر بعد والوں کو تھوڑا عقل سے کام لینا چاہیے۔
خیر، مسئلے کی شناخت کی طرف بڑھتے ہیں۔ بات یاد رکھیں! انسانی جسم کے دو حسن ہیں۔ ایک حسن تب دِکھتا ہے، جب بندہ خاموش رہتا ہے۔ اس کی باڈی، اس کا جسم، اس کے ظاہری اعضا۔ اس کا دوسرا حسن تب دکھتا ہے، جب بندہ بولتا ہے اور بولتے وقت اس کے دانت نظر آتے ہیں۔ اگر دانت خوبصورت ہیں تو یہ اس کے جسم کے حسن کو دوبالا کریں گے اور اگر دانت خراب ہیں، بھدے، بھورے یا داغدار ہیں، تو یہ اس کے ظاہری حسن پہ داغ لگا دیں گے۔ دیکھنے والے کو ذرا اچھا نہیں لگے گا۔ ظاہر ہے جب دانت پیلے ہوں، براؤن ہوں، مہندی ٹائپ کے ہوں، تو کسے اچھا لگے گا۔ دانتوں کی یہ بدصورتی جسم کی خوبصورتی کا خاتمہ کر دے گی۔ بات سننے والے کا دل بجھ جائے گا۔ انسان کے حقیقی حسن کا فیصلہ اس کے دانت کرتے ہیں۔ خوبصورت مسکراہٹ خوبصورت دانتوں میں چھپی ہوتی ہے اور بدصورت مسکراہٹ بدصورت دانتوں میں چھپی ہوتی ہے۔
گندے دانت بہت برا تاثر چھوڑتے ہیں۔ دیکھنے والے کا دل بجھ جاتا ہے۔ جی مندا ہو جاتا ہے۔ جس طرح چائے کے کپ میں ایک دم مکھی گر پڑے یا سفید لباس پہ کیچڑ کے چھینٹے پڑے ہوں، گندگی کے دھبے لگے ہوں۔
بدقسمتی سے پورے پتوکی کا عموماََ اور میرے علاقے پرانی منڈی کا ناروکی ٹھٹھہ کا خصوصاً پانی گندا ہے، کھارا ہے، نمکین ہے۔ اس کھارے اور نمکین پانی نے پورے ٹھٹھہ کا حسن برباد کر دیا ہے۔ بندے کا اچھا قدبت ہے، اچھی صحت ہے، حسن چھلک رہا ہے، مگر جیسے ہی بات کرنے کےلیے منہ کھولے گا، اگلے بندے کو شرمندہ کر دے گا۔ سب کے دانت گندے ہیں۔ کیا عورتیں، کیا مرد، کیا بوڑھے، کیا جوان۔ حتی کہ چھوٹے چھوٹے بچوں تک کے دانت بھی آپ کو خراب نظر آئیں گے۔ یہ کوئی معمولی حادثہ نہیں۔ بہت بڑا صدمہ ہے، اگر کوئی سوچے تو۔ بہت دکھ ہوتا ہے جب میں معصوم بچوں بچیوں کے دانتوں کے نیلے پیلے، عجیب عجیب ڈیزائنوں کے رنگ دیکھتا ہوں۔ یہ صرف میں بیان نہیں کر رہا۔ وقتاً فوقتاً گھروں میں، محفلوں میں یہ باتیں ہوتی ہیں۔ لوگ پھبتیاں کستے ہیں، طعنے دیتے ہیں، ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ میں نے خود سنا ہے۔
ایک بار ایک صاحب کسی کے متعلق کہہ رہے تھے: گندے سے دانت نکال لیتا ہے۔
اسی طرح ایک دکاندار نے مجھے خود بتایا۔ ایک بار ایک صاحب اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ کچھ سودا سلف خریدنے آئے۔ دکاندار نے ریٹ بتایا۔ جب اس نے ریٹ بتانے کے لیے منہ کھولا اور اس کے میلے کچیلے دانت بچے کو نظر آئے، تو اس نے اپنے باپ سے کہا: ابو! انکل کے دانت کتنے گندے ہیں! یہ سن کر دکان دار مجھے کہتا ہے کہ یار! میں بہت شرمندہ ہوا۔
اسی طرح ایک کالج کے پروفیسر سے کسی نے ایک سٹوڈنٹ کا پوچھا، تو انھوں نے بتایا کہ وہ لڑکا، جس کے دانت گندے ہیں؟
90 فیصد سے زیادہ ٹھٹھہ کا حسن اس ایک نامراد بیماری نے ختم کر دیا ہے۔ 100 فیصد کیوں نہیں! اس لیے کہ کچھ عورتیں باہر کے شہروں سے یہاں آ کر شادی کے بندھن میں بندھی ہیں۔ مثلاً قصور، للیانی اور مختلف قسم کے دیہات کی عورتیں۔ ان سب عورتوں کے دانت خوبصورت ہیں۔ جب بولتی ہیں تو دانتوں کی سفیدی نظر آتی ہے۔ اب ٹھٹھہ میں جو بچے ان ماؤں پہ ہیں، ان کے دانت کسی حد تک ٹھیک ہیں اور جو بچے باپ پہ ہیں، ان کے دانت خراب ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ ان عورتوں کے دانتوں کی چمک وہ پہلی سی نہیں رہی ٹھٹھہ کا کھارا پانی پی پی کر۔
اچھا یہ مسئلہ قدرت کا پیدا کردہ ہے۔ کسی بندے کو دوش نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن آج تک اس کا حل نہ نکالنے کی وجہ سے انھیں دوشی ضرور ٹھہرایا جائے گا۔ انھیں چاہیے تھا کہ اس حل تلاش کرتے۔ اب حل تو ہم نے ڈھونڈنا ہے۔ نہیں تو نسل در نسل گندے دانتوں کا یہ سلسلہ چلے گا۔ میرا خیال ہے کہ اب یہ خرابی جینز میں داخل ہوگئی ہے۔ جینز سمجھتے ہیں؟ انسانی جسم میں کروڑوں خلیے ہوتے ہیں۔ ان خلیوں میں کروموسومز ہوتے ہیں اور ان کروموسومز میں جینز ہوتے ہیں۔ یعنی معلوماتی کوڈ، جو ہماری شکل، ہمارا رنگ، مزاج، صحت، قد اور ہماری بناوٹ طے کرتے ہیں۔
خیر، گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری ایسی پیدا نہیں کی، جس کی دوا نہیں۔ سائنس اس حد تک ترقی کر چکی ہے کہ سائنس دان اب جینز میں داخل ہوئی بیماریوں کا حل تلاش کر رہے ہیں۔
میرے خیال میں فی الفور ایک بڑا واٹر فلٹریشن پلانٹ لگانا چاہیے۔ وہ پانی نہ صرف گھروں میں لا کر پیا جائے، بلکہ ہنڈیا اسی سے پکے اور آٹا وغیرہ بھی اسی سے گندھے۔ الغرض ہر مائع اور لیکوڈ چیز میں وہی صاف پانی استعمال ہو۔ زیر زمین پانی کو کپڑے اور فرش وغیرہ دھونے کے لیے استعمال میں لائیں۔
دوسرا، کزن میرج سے جان چھڑائیں، بھتیجی بھانجی کے چکروں سے نکلیں۔ ایک تو ویسے ہی کزن میرج سے بچے ذہنی و جسمانی بیماریاں لے کے پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے ماں کے دانت بھی خراب اور باپ کے دانت بھی خراب۔ پھر اس سے آگے کی نسل کے دانت بھی خراب۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ بیٹے یا بیٹی کی شادی کے لیے باہر سے بر ڈھونڈیں۔ دوسرے شہروں کی عورتوں کی وجہ سے جو بچے ماؤں پہ ہوں گے، کم ازکم ان کے دانت تو کسی حد تک ٹھیک ہوں اور جو بچے باپ پہ ہوں گے، ان کے دانتوں پہ ان کی ماؤں کا اثر کچھ نہ کچھ تو ہوگا۔
وہ الگ بات ہے کہ اس امر میں ان بیچاری ماؤں کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔
پھر لکھتا ہوں کہ جلد از جلد اس مسئلے کو کنٹرول کریں۔ دماغ میں اپنے سیاسی بتوں کی جو محبت گھسیڑ رکھی ہے، نواز شریف کی، عمران خان کی، فضل الرحمان کی یا زرداری کی، اسے کچھ کم کریں۔ کچھ محبت اپنی ذات کےلیے بھی رکھ دیں۔ سارے خانے نواز شریف اور عمران خان صاحب کے لیے نہ رکھیں۔
اگر آج یہ اقدام نہ کیا گیا تو جیسے آج ہم پرانی پود کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں، آنے والی نسل پھر ہمیں کٹہرے میں کھڑا کرے گی۔
یقین جانیں: میں جب کبھی کسی سے ہمکلام ہوتا ہوں تو اس وقت صرف اس کے دانت دیکھتا ہوں اور احساس کمتری میں، شدید احساسِ محرومی میں مبتلا ہو جاتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ اس دکھ کا کوئی علاج نہیں اور یہ دکھ میں اپنی قبر میں لے کر جاؤں گا۔

