Nifaz e Islam Aur Mamu Tufail Ka Kora Tail
"نفاذِ اسلام" اور ماموں طفیل کا کوڑا تیل

طفیل صاحب رشتے میں ہمارے ماموں ہیں۔ ان کے پاس تقریباََ ہر مرض کا ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے کوڑا تیل۔ ہمارے ہاں سرسوں کے تیل کو کوڑا تیل کہتے ہیں۔ بعض علاقوں میں تارا میرا (جنواں) کا تیل کوڑا تیل کہلاتا ہے۔ خیر، گھر میں کسی کے سر پہ دھدّر نکل آئے، چنبل نکل آئے، خارش ہو، تو ماموں طفیل کہتے: پتر! اس پہ کوڑا تیل لگا۔ جسم کے کسی حصے پہ چوٹ لگے تو کہتے: اس پہ فوری کوڑا تیل لگاؤ۔ فوری آرام آئے گا۔ گھر میں ذکر ہوتا کہ برابر والی ہمسائی کے سر میں خشکی بہت ہے۔ تو اپنی زنبیل سے وہی سابقہ نسخہ نکالتے اور کہتے کہ اسے کہو: سر پہ کوڑا تیل لگائے۔ خشکی ختم ہو جائے گی۔ پورے گھر میں، پورے محلے میں یہ ایک چِڑ (چھیڑ) سی بن گئی تھی ان کے کوڑے تیل کی۔ سبھی کہتے کہ ماموں طفیل کے کوڑے تیل میں ہر بیماری کا کافی اور شافی علاج ہے۔
یہی کچھ حال ہمارے اہلِ مذہب کا ہے۔ بری معیشت، فحاشی، بد اخلاقی، ہر قسم کا جسمانی و روحانی مرض وغیرہ کا ایک ہی حل ان کے پاس ہے اور وہ ہے نفاذِاسلام۔
عشروں پہ عشرے بیت گئے، صدیاں گزر گئیں، مگر مامے طفیل دے کوڑے تیل دی طرح ان کے پاس بھی ہر مرض کا، فحاشی کا، بری معیشت کا، کرپشن کا، دنیاوی ترقی کا ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے نفاذِ اسلام۔ مسلک و فرقہ کوئی ہو، یعنی وہابی ہو کہ بریلوی، دیوبندی ہو کہ شیعہ، دین اور دنیا کے تمام مسائل کا حل ان کے نزدیک اسلام کے نفاد میں مضمر ہے۔ وہی ماموں طفیل کا کوڑا تیل۔ شیعہ بھائی پنج تن پاک اور اہلِ بیت کا ذکر کریں تو اس سے مراد اسلامی نظام کے نفاذ کا نسخہ ہی ہے۔
اس سے ہٹ کر بھی کئی فقرے ان کے گھڑے ہوئے ہیں۔ ان کا مطلب بھی اسلام کا نفاذ ہی ہے: جیسے نظامِ مصطفیٰ، اطاعتِ رسول، ایمان کی کمزوری، خلافتِ راشدہ۔ کبھی ابوبکر، عمر، عثمان، علی اور حسینؓ کا نام بھی لے لیتے ہیں۔ اس کا مطلب وہی ہے۔
تحریکِ لبیک کا نعرہ بھی یہی ہے کہ حضور کے دین کو تخت پہ لانا ہے۔ ان کے نزدیک دین گویا تختۂ دار پہ لٹکا ہوا ہے۔
اب اس کے لیے انھوں نے ایک سیاسی جماعت بنا رکھی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ پہلے سعد رضوی کو وزیراعظم بناؤ پھر اس "کوڑے تیل" کے اثرات دیکھو، پھر ہماری کار گزاری دیکھو۔ حالانکہ جیسے سوائے جسم کی مالش کے یا سر پہ لگانے کے، کوڑے تیل کا کوئی فائدہ نہیں، ایسے ہی ان "سرجن تاروں" کو بھلے آپ وزیراعظم بنا دیں، کوئی فائدہ نہیں۔ یہ 5 ماہ بھی نہیں نکال پائیں گے۔ حکومت دے کے دیکھیں۔ چولیں ہلا دیں گے ملک کی۔ سیاست دان پھر بھی ماڑا چنگا ملک کھچی دھروئی پھر دے نیں۔ ان سے یہ بھی نہیں ہو پائے گا۔ ان کا "کوڑا تیل" دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔
نفاذِ اسلام کی شرط گویا اپنی شکست کا اعلان ہے تمام مولویوں، پیروں، ذاکروں اور صوفیوں کی طرف سے۔ یہ مان چکے کہ اسلام کی برکتوں سے اگر یہ سماج محروم ہے، ہمارے رویے وحشیانہ ہیں، زندگی ہم جانوروں کی سی گزار رہے ہیں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی حکمران نے آج تک اسلامی نظام نافذ نہیں کیا۔ اس کا صاف مطلب یہ بھی ہے کہ عوام بیشک ہمیں سالانہ اربوں دیتے ہیں، فرقہ وارانہ بنیادوں پہ مسجدیں، مدرسے، تنظیمیں اور امام بارگاہیں بناتے ہیں، ربیع الاول اور محرم کے مہینوں میں ہمارے کہنے پہ مخصوص سرگرمیاں (لڈیاں ڈالنا کہ آہا! جی حضور ﷺ آ گئے اور رونا دھونا) انجام دیتے ہیں۔ جلسوں اور جلوسوں کا اہتمام کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود دین کی برکتوں کی کوئی گارنٹی ہمارے پاس نہیں۔ گارنٹی لینی ہے اگر ہم سے اس بات کی تو حاکمِ وقت دین نافذ کرنے کا اعلان کرے۔
گویا دین کا نفاذ ان کے نزدیک بجلی کا بٹن ہے، جسے دباتے ہی ہمارے رویے بھی ایکدم اسلامی ہو جائیں گے اور ملک بھی ترقی کر جائے گا۔ پھر وزیراعظم زکوٰۃ کے لیے لوگ ڈھونڈتے پھریں گے، مگر انھیں کوئی بندہ نہیں ملے گا۔
اندازہ لگائیں! عوام ایک طرف ان ہڈحراموں کو اپنی محنت کی کمائی سے پال پوس رہے ہیں اور دوسری طرف ان کا کہنا ہے کہ بھلے آپ ہمیں ارب پتی بنا دیں، مگر ہم سے یہ سوال نہ کریں کہ ہمارے باطن میں، ہماری زندگیوں میں مذہب کیوں شامل نہیں، ہم بد کردار کیوں ہیں۔ اگر آپ نے مذہب پہ مکمل عمل کرنا ہے تو پہلے ہمارے ساتھ مل کر "ماموں طفیل" کے "کوڑے تیل" کے نفاذ کی کوشش کریں۔
ویسے ساری زندگی زبان دا کھٹیا ای کھادا اینہاں نیں، کدے ککھ پن کے دوہرا نئیں کیتا۔ بس دئی جاؤ تے کھوائی جاؤ۔ جاؤ او طفیلیو!
کیسی منافقت ہے ان کی! خیرات اور چندہ لیتے وقت تو کہتے ہیں کہ جی آپ اس طرح سے دین کی خدمت کر رہے ہیں، آپ کی سات نسلیں اوپر سے اور سات نیچے سے بخشی گئی ہیں، جنت الفردوس میں محل تیار ہو چکا ہے۔ 70 حوریں"مقاربت" کے لیے بس تیار بیٹھی ہیں۔ وہ دیکھو دودھ اور شہد کی نہریں۔ مگر جیسے ہی معاشرے کی بے دینی کا پوچھیں تو اس وقت نفاذِ اسلام کی راہ دکھا دیں گے۔ یعنی وہی مامے طفیل دے کوڑے تیل کی طرح پرانا اور منافقانہ نسخہ تھما دیں گے۔ دھت تیرے کی!
اس نسخے میں ان کی مکروہ نفسیات کار فرما ہے۔ اگر یہ اتنا ہی کارامد ہے تو دینی مدرسوں، مذہبی تنظیموں، پیر خانوں، درباروں، امام بارگاہوں میں کیوں نہ چل سکا، اپنے اثرات کیوں نہ دکھا سکا! ان مقامات پہ اہلِ مذہب کی حکومت ہے۔ کوئی سرکار ان کے کاموں میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ ماضی میں کسی نے کی، تو اسے منہ کی کھانی پڑی۔ پیسہ بھی ان کے پاس بے بہا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے اسلام کے نافذ نہ ہونے کی! جواب مرحمت فرمانا پسند کریں گے یہ علمائے دین مفتیانِ شرعِ متین!
علما کی خدمت میں دست بستہ عرض گزار ہے یہ بندہ ناچیز کہ چین، جاپان میں کون سا نفاذِ اسلام ہے، جس کی بنا پر وہ بامِ عروج کو پہنچے۔ سلامتی کونسل کے مستقل پانچ ممبران کے پاس ویٹو کارڈ ہے۔ ان پانچ کا مشترکہ فیصلہ پوری دنیا کے ہر ملک پہ لازم ہے۔ یہ طاقت انھوں نے کس "کوڑے تیل" سے حاصل کی! اگر نفاذِ اسلام کے بغیر کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا تو پھر ان کے مسائل کیسے حل ہو گئے!
پاکستانی ان یورپین ممالک میں جانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں، سمندروں میں غرق ہوتے ہیں، بارڈر فورس کی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ جب انھیں یورپ کے کسی ملک کی نیشنلٹی مل جاتی ہے تو پھر نفاذِ اسلام کے "گاون کڈن" والے ان کے آگے بچھے جاتے ہیں۔ یہ خاطر مدارات ڈالر، پاؤنڈ اور وہاں کی گوریوں کی برکتوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ برکتیں جس "کوڑے تیل" کی بدولت یورپ کو حاصل ہیں، اس کا نام سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ہے۔ مگر ہمارے سب مولویوں کا "کوڑا تیل" نفاذِ اسلام ہے۔
پھر ان کا یہ دعویٰ بھی جھوٹا ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر نفاذِ اسلام کی کنجی حاکمِ وقت کے ہاتھ میں ہے، تو مشرف دور میں پورے ڈیڑھ صوبے کی حکومت انھیں دی گئی تھی۔ مکمل خیبر پختون خواہ کی اور آدھے بلوچستان کی۔ اس وقت اپنے دورِ حکومت میں انھوں نے اسلام کیوں نہ نافذ کیا!
لیاقت بلوچ نے خود رؤف کلاسرا سے کہا کہ ہمارے لوگ سائیکلوں پہ پارلیمنٹ ہاؤس میں آئے تھے اور جب گئے تو لینڈ کروزروں پہ۔ جھوٹے کہیں کے!

