Sunday, 07 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Muhammad Yaqoob Quraishi (4)

Muhammad Yaqoob Quraishi (4)

محمد یعقوب قریشی (4)

اردو زبان پہ آپ کی بڑی گرفت تھی۔ ہر لفظ، فقرہ جچ تُل کر ہونٹوں سے نکلتا اور سامنے والے کو سرشار کر دیتا۔ گمان ہے کہ جب تک کوئی لفظ اردو لغت کی قید میں ہے، تب تک وہ کوئی تہذیب یا اعتبار نہ پائے ہے، مگر جیسے ہی آپ کے تکلم میں راہ پائے ہے، نفاست اور تہذیب اس پہ ٹوٹ کے برسے ہے۔ بارہا ایسا دیکھا کہ بے جان سے لفظوں کو جملے کی لڑی میں پِروتے، تو انھی لفظوں میں جان آ جاتی۔ خورشید احمد ندیم، اظہار الحق اور جاوید احمد غامدی صاحب کی طرح کمال کے فقرہ ساز تھے۔ مجھے آج تک حیرت ہے کہ اردو انھوں نے سیکھی کہاں سے تھی! اظہار کا یہ دلکش انداز انھوں نے پایا کہاں سے تھا! کیونکہ مدارس کے ماحول میں زبان و بیان کا دخول ایک شجرِ ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ مدرسے میں کسی طالب علم کے پاس کسی کو اگر کوئی ڈائجسٹ نظر آ جائے، تو اسے پل بھر میں کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ یہ اب دین سے گیا۔ بہرکیف، اس دل آویز اردو کے چند نمونے ذرا ملاحظہ کریں۔

1۔ جب میں 2001ء میں مدرسے سے فارغ ہوا تو وہیں پہ پڑھانا شروع کر دیا۔ ایک دن سرِ راہ ملے اور پوچھا: کیا کرتے ہو؟ کہا: یہیں پہ تدریس شروع کی ہے۔ پوچھا: کیا خدمت کریں گے؟ کہا: تدریس کے 2 ہزار اور جمعے کے 6 سو روپے دیں گے۔ یہ سن کر پریشان سے ہو گئے۔ بولے: چلو، بےکاری سے بچ گئے۔ لفظِ چلو اور اس کے بعد کا ہلکا سا سکوت آپ کا مافی الضمیر بیان کر رہا تھا کہ یہ لوگ اساتذہ کی تنخواہوں کے نام پہ لیتے تو ریال، درہم، دینار، ڈالر اور پونڈ کی صورت میں کروڑوں ہیں، مگر دیتے ایسے ہیں جیسے دروازے پہ آئے کسی فقیر کو خیرات کے نام پہ چند سکے دیتے ہیں۔ پھر "بےکاری" والا جملہ خود میں کیا عجب نفاست اور کیا غضب کا خستہ پن لیے ہوئے ہے!

2۔ تمام امت نے بخاری شریف کی تمام روایات اور اس کے تمام رُواۃ کی صحت پہ بالاتفاق (اتفاقِ رائے سے) اجماع کیا ہے۔ دو ایک بڑے نقادوں نے مگر چند اعتراضات کیے ہیں۔ اس موقع پہ اظہار کرتے ہوئے یوں گویا ہوئے: کچھ اچھے ہوتے ہیں اور کچھ غیر اچھے ہوتے ہیں۔ اس غیر اچھے کے لفظ سے میں کچھ چونک سا گیا۔ سوچا کہ اچھے کی ضد تو برے ہوتا ہے۔ انھوں نے غیر اچھے کیوں بولا۔ بعد میں کُھلا کہ دراصل بتانا ان کا یہ مقصود تھا کہ جتنے اونچے درجے کی شخصیت ہو اس پہ نقد کرنے کے لیے الفاظ بھی اتنے ہی اونچے درجے کے ہونے چاہییں۔

اسی سے جڑا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ پتوکی کے پروفیسر نور محمد صاحب ایک شخص کی بابت کہنے لگے کہ اس کا بےجوڑ رشتہ اس کے والدین نے کرایا تھا۔ پھر اس سے اس کی نبھ نہیں سکی اور نوبت طلاق تک پہنچی۔ پھر کہا: یہ کیا ہے! والدین کی مہربانیاں یا نامہربانیاں۔

3۔ ایک دفعہ تالے کی ضرورت پڑی، تو اس مقصد کے لیے ایک طالبِ علم کو مدیرالتلعلیم کے پاس بھیجا۔ وہ ٹھہرا سدا کا کم نصیب۔ اکھڑے سے لہجے میں بولا: چل بھاگ یہاں سے۔ یہاں کوئی تالا والا نہیں۔ ان سے کہو بازار سے منگوائیں۔ وہ بےچارہ منہ لٹکائے جب آپ کے پاس آیا اور یہ کتھا سنائی تو آپ بولے: کوئی بات نہیں بچُّو! (آپ پیار سے طلبہ کو اسی لفظ سے مخاطب کرتے تھے) بازار سے لے آؤ۔ یہ بندہ ذرا ٹیڑھا ہے۔ اس "ٹیڑھا" پہ ذرا غور کیجیے! جتنا غور کریں گے اس لفظ کی تہذیب آپ پہ اتنی ہی آشکا ہوگی۔ ویسے تو ڈکشنری میں لکھا یہ لفظ بالکل عام اور بےوقعت سا ہے۔ مگر اس جملے میں یہ جو چھب دکھا رہا ہے، غضب ڈھا رہا ہے، یہ جو رنگ بکھیر رہا ہے، یہ اپنے جگہ پہ نہایت دلکش ہے۔ کیا مہارت سے اس لفظ کی عمومیت خارج کرکے اس میں خصوصیت کے رنگ بھر ڈالے! یہ اکیلا لفظ عام تھا، مگر اس فقرے میں جڑ کر خاص ہوگیا۔ خدا لگتی بات ہے! مجھے اگر ایک ہزار روپے کے بدلے میں یہ فقرہ ملے تو سودا مہنگا نہیں۔ میں کہوں کہ یہ مجھے بہت ارزاں پڑا۔

4۔ ایک بار کسی سیاسی مسئلے پہ گویا ہوئے: یہ بیان نہیں، بیان بازی ہے۔ یعنی بیان میں سنجیدگی اور بیان بازی میں غیر سنجیدگی ہوتی ہے۔ اس دن ان دونوں لفظوں کے معنوی فرق کا اندازہ ہوا۔

5۔ عربی گرائمر میں إنّ اور أنّ وغیرہ کے سے کل 17 حروف ہیں، جو اپنے بعد آنے والے لفظوں پہ زبر دینے کا عمل کرتے ہیں۔ اب یہ تمام حروف بار بار تو نہیں لکھے جاتے۔ انھیں بالاختصار "إنّ و أخَواتُھا" کہہ یا لکھ دیا جاتا ہے۔ بظاہر اس کے معنی "إنّ اور اس کی بہنیں" بنتا ہے۔ مگر یہ ترجمہ نامناسب اور عجیب سا لگتا ہے۔ جب کبھی "إنّ و أخَواتُھا" آتا، اساتذہ یہی بول کر آگے بڑھ جاتے۔ جس کسی سے پوچھا تو اس نے إنّ اور اس کی بہنیں ہی بتایا۔ مجھے یہ ہمیشہ کھٹکتا رہا۔ جب میں 8ویں جماعت میں آیا تو ایک دن ان سے یہی ترجمہ پوچھا تو بولے: إنّ اور اس کے شرکا فی العمل۔ یعنی اپنے بعد آنے والے لفظوں پہ ایک سا عمل کرنے والے إنّ اور اس کے شرکا۔ یہ ترجمہ جی کو لگا۔

6۔ ایک دفعہ مجھ سے کہا بچُو! سبق پڑھ کر سالن کو ٹھکانے لگانا ہے۔

7۔ ایک بار ایک مسئلہ پوچھنے والے سے کہا: بھئی! آج تک آپ نے یہ مسئلہ دریافت کیوں نہیں کیا؟ شاید طلاق کا کوئی مسئلہ تھا، جس کے پوچھنے میں اسے دیر ہوگئی تھی۔

8۔ ایک دفعہ ایک طالبِ علم نے آپ کو غالباً تیسری کلاس کی گرائمر کی کتاب پڑھتے دیکھا اور وجہ پوچھی، تو ازراہِ تفنُّن کہا: بھئی! کوئی سرپھرا طالبِ علم پوچھ ہی لیتا ہے۔

9۔ بخاری شریف میں درج کتب کی تعداد 97 ہے۔ جب ہمیں یہ تعداد بتانے لگے تو کہا: تین کم یک صد۔ ایک نئے انداز سے سو کی تعریف کی۔

10۔ عمر کے آخری حصے میں مرض نے شدت پکڑی، تو ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ نرس نے عمر پوچھی تو کہا تہتر سال۔ نرس کو سمجھنے میں مشکل ہوئی تو آسان فہم انداز سے کہا: تین اوپر ستر۔

11۔ دورانِ سبق ایک بار بُخل کی تعریف یوں اچھوتے انداز سے کی: جتنی جیب اجازت دے، اس اندازے میں رہنے کا نام بخل نہیں ہے۔

12۔ بخاری شریف میں ایک تابعی کا روایت کردہ قصہ ہے۔ اس میں ایک سفر میں ایک بندریا نے اپنے بندر کے ساتھ وفا نہیں کی۔ وہ اسے سوتا چھوڑ کر ایک غیر بندر کے ساتھ کچھ وقت کے لیے ہو لی۔ ان کے قربت کے لمحات کو آپ نے اپنے لفظوں کی دلکشی یوں دی: پھر اس نے اس کے ساتھ کیا، جو کیا۔ ایک بار اپنے لکھے فتوے پہ ایک جگہ مہر لگائی اور سائن کیے۔ میں ان کے پاس ہی بیٹھا تھا۔ میری طرف دیکھ کر کہنے لگے: بچُّو! یہاں مہر لگاتے اور یہاں سائن کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک علم ہے۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Traffic Qawaneen Aur Hamara Muashra

By Malik Zafar Iqbal