Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Muhammad Yaqoob Quraishi (2)

Muhammad Yaqoob Quraishi (2)

محمد یعقوب قریشی (2)

2001ء میں ان کا کم از کم مشاہرہ 55 ہزار روپے ہونا چاہیے تھا۔ کہیں آنے جانے کے لیے گاڑی الگ سے۔ ان اصحاب کا مگر "منتہائے کمال" 55 سو سے اوپر کبھی جا ہی نہیں سکا۔ اچھا! کائیاں اس قدر ہوتے ہیں کہ اپنی تنخواہ بھی دیگر اساتذہ کے قریب قریب رکھتے ہیں۔ تنخواہ کے رجسٹر پہ درج مدیرالجامعہ کی 8 ہزار روپے تنخواہ میں نے خود دیکھی۔ حالانکہ ان کے لائف اسٹائل کے حساب سے تو یہ تنخواہ ایک ہفتہ بھی نہیں نکال سکتی۔

یہ ناٹک اس لیے رچایا جاتا ہے تاکہ اگر کسی طرف سے "ھل من مزید" کی گستاخی ہو، حالات کا رونا روتا کوئی استاد کہے کہ حضور! رحم کریں اور تنخواہ تھوڑی بڑھا دیں، تو رجسٹر پہ درج اپنی یہ "قناعت" اپنی یہ درویشی و تقویٰ اور دنیا سے بے رغبتی اسے دکھا کر چپ کرا سکیں، شٹ آپ کال دے سکیں کہ گستاخ! منہ بند کر۔ خیر، ان عاقبت نااندیشوں اور آخرت کے ان بےنصیبوں نے مناسب تنخواہ کیا دینی تھی، یہ تو انھیں ڈھنگ کا کھانا بھی نہیں دے پائے۔ جو ہم طلبہ کو روکھا سوکھا ملتا، وہ آپ کو بھی مل جاتا۔

بارہ ماہ تیس دن دوپہر کو مستقل چنے کی دال، صبح کو بے ذائقہ ڈھیر پانی ملے چنے، شام کو خوب پانی ملا کم معیار کا بڑا گوشت اور منگل بدھ کو بے لذت سی سبزی۔ اب مدارس میں کھانے کا جو معیار ہے اس سے ہر کوئی واقف ہے۔ یہاں چٹنی، سلاد، رائتہ اور سویٹ ڈش وغیرہ کا داخلہ ویسے ہی منع ہے۔ دل میں کہتے ہوں گے کہ بھلے ہی آپ اس جامعہ کے شیخ الحدیث ہیں، مگر کھانا آپ کو طلبہ کا سا ہی ملے گا۔ اسی اوقات میں رہنا ہے تو بھلے موت تک رہیں۔

کیا ہی بہتر ہوتا کہ یہ ان کے لیے ایک مستقل باورچی (cook) کا اہتمام کرتے۔ وہ ان کے لیے من پسند اور قوت بخش کھانے پکاتا۔ کتنا خرچ اٹھ جاتا! دولت تو ایسے جمع کر رکھی ہے جیسے قیامت تک جینا ہے! وہ تو بھلا ہو قاری عبدالرشید صاحب کا! آپ کی وفات سے چند سال پہلے ان کا دل پسیجا تو انھوں نے آپ کا مستقل ناشتہ اپنے گھر پہ لگوا دیا۔ اس کارِ خیر پہ خدا مرحوم کے آخرت کے معاملات آسان کرے! الغرض، ان ناسمجھوں میں شعور کی تھوڑی سی بھی رمق ہوتی، تو اپنے شیخ الحدیث کو سر آنکھوں پہ بٹھاتے۔ ان کے آگے دیدہ و دل فرشِ راہ کرتے۔ ان سے علمی کام لیتے۔ جماعتی سطح پہ ان کی خدمات حاصل کرتے۔ ان کی ویسی قدر کرتے جیسے ایک فرماں بردار بیٹا باپ کی کرتا ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ کہ باپ تو آسمان سے زمین پہ لاتا ہے۔ جبکہ استاد زمین سے اٹھاتا اور آسمان کی بلندیوں میں لے جاتا ہے۔

وہ تو ہر دم مائل بہ کرم تھے۔ یہ مگر سائل بننے کے لیے تیار ہی نہیں تھے۔ سوائے پیسہ اکٹھا کرنے کے کچھ سوجھتا ہی نہیں تھا انھیں۔ اسی کام کے یہ کھلاڑی ہیں۔ ہمیشہ ان سے پرے پرے رہے۔ ان کا ہونا نہ ہونا ان کے ہاں برابر تھا۔ جیسے ایک باورچی گیا تو اس کی جگہ پہ دوسرا آ گیا۔ ایسے ہی یہ گئے تو ان کے منصب پہ کسی اور کو لا بٹھائیں گے۔ بھئی! تم لاکھ لاؤ، مگر ان میں کوئی محمد یعقوب قریشی نہیں ہوگا۔ یہ بات مگر ان بھیجوں میں کبھی نہیں اتر سکی۔ زر پرست تھے۔ سو اس کے سوا کچھ نہیں سوچ سکتے تھے۔

یہاں مجھے ایک عجیب مرحلۂ فکر درپیش ہے۔ عزت کے اعتبار سے اصحابِ دین اور اصحابِ دنیا کا موازنہ کریں تو ایک بعدالمشرقین سا، ایک خاص تفریق سی نظر آتی ہے۔ مثلاََ 2023ء کو ادبی دنیا کا ایک نامور نام امجد اسلام امجد رخصت ہوا۔ زندگی بھر جناب نے شہرت بھی پائی، دولت بھی اور اپنے ہم عصروں اور طلبہ کی عقیدت بھی خوب سمیٹی۔ بلکہ ریاستی سطح پہ کئی بار ان کی ادبی خدمات کا اعتراف ہوا اور انھیں تمغوں سے نوازا گیا۔ آپ نے ایک دنیا گھومی۔ ترقی یافتہ ملکوں کی سیر بھی جی بھر کے کی۔ ہر طبقے سے انھیں بہت پیار ملا۔ آپ کے ہاں ملنے والوں کا تانتا بندھا رہتا۔ کبھی لوگ بہ اصرار آپ کو اپنے ہاں بلاتے اور خوب آؤبھگت کرتے۔ کبھی آپ انھیں بلا لیتے۔ ملک کے ہر طبقے سے آپ کو پیار ملا اور خوب ملا کہ اپنی نفیس اور شوخ طبیعت کے باعث آپ اسی کے حقدار تھے۔ آپ نے عقیدت اور خوشحالی سمیٹی تو ڈھیروں سمیٹی۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات آپ کے نہایت گرویدہ تھے۔ جب آپ دنیا سے رخصت ہوئے تو ہر قسم کے میڈیا، پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پہ آپ کی شرافت اور عظمت کے گن گائے جانے لگے۔ شاید ہی کوئی اخبار ہو، جس میں آپ سے جڑی یادوں کے رنگ نہ ہوں۔ سب کو لگا، ایک شاندار انسان شاندار زندگی جی گیا۔ یہ تھی دنیا کے صاحبِ علم کی قدردانی دنیاداروں کے ہاں۔

ادھر ہمارے یعقوب قریشی صاحب، اتنے ہی نفیس، اتنے ہی باوقار، اتنے ہی ذی علم و ذی حلم، مگر دین داروں کے ہاں انھیں شہرت ملی، دولت ملی اور نہ ہی عزت ملی۔ اپنے 8 سالہ زمانۂ طالبِ علمی میں ایک بار نہیں دیکھا کہ جامعہ کے کرتا دھرتا آپ کو اپنے ساتھ کسی بیرونی ملک لے گئے ہوں۔ خود تو یہ ساری زندگی برطانیہ، امریکہ بشمول سارے عرب ممالک کی خاک چھانتے رہے مگر آپ کو کبھی جھوٹے منہ بھی نہ پوچھا۔ کبھی یہ منظر دیکھنے کو نہیں ملا اربابِ جامعہ میں سے کوئی باہر سے آپ کے لیے پرفیوم کی شیشی لایا ہو یا آپ کے اعزاز میں کسی تقریب کا اہتمام کیا ہو۔ ان سے بیزار اس قدر تھے کہ جامعہ میں انھوں نے کبھی آپ کا درسِ قرآن یا درسِ حدیث تک نہیں رکھوایا۔ اتنا بڑا صاحبِ علم اور صاحبِ شعور ہو اور اس ادارے میں اس کی اتنی بھی عزت نہ ہو!

امجد اسلام امجد کو بیرونی دنیا کے لوگ منتیں کرکے بلاتے تھے ادھر مگر باہر کی دنیا کا کوئی بندہ جانتا بھی نہیں تھا کہ جہلم نامی شہر میں محمد یعقوب قریشی نام کا کوئی صاحبِ علم اور صاحبِ ذوقِ سلیم بھی ہے۔ اس اعتبار سے اگر آپ کی قدر ہوتی تو نہ صرف بیرونی دنیا کے لوگ آپ سے مستفیض ہوتے بلکہ آپ بھی شعوری و نفسیاتی حوالے سے مزید نکھرتے۔ قیدِ تنہائی تھی اور بس آپ تھے۔ تادمِ واپسیں ان کم نصیں بوں نے آپ کو جامعہ کے کونے کھدرے میں ہی دھکیلے رکھا۔ انھوں نے کبھی نہیں سوچا کہ علم و دانش کا یہ جو چراغ ہے، قانونِ قدرت کے تحت ایک دن اس نے بجھنا ہے۔ سو، زیادہ سے زیادہ ان سے مستفید ہوا جائے۔

اس انکشاف پہ شاید آپ چونک جائیں۔ ایک قلق آپ کو اور تھا اور وہ یہ تھا کہ ہر سال بس واجبی اور سطحی سی سوچ کے طلبہ سے آپ کا سامنا رہتا۔ استاد تو آپ آخری درجے (8ویں جماعت) کے تھے۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz