Muhammad Yaqoob Quraishi (1)
محمد یعقوب قریشی (1)

یہ مضمون پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ مدارس کی دنیا کیسی عجیب ہے، مدارس کے مالکان کس قدر پست ذہنیت کے ہوتے ہیں۔ نیز اساتذہ حضرات کیسی تنگی ترشی سے وقت گزارتے ہیں۔ ایک عالم کے لیے دو اوصاف ضروری ہیں، صاحبِ علم ہو، صاحبِ بصیرت ہو۔ مدارس کے اساتذہ کی اکثریت کے پاس علم نہیں ہوتا۔ مسلکی تعصب پہ مبنی مخصوص نصاب اور اس پہ ان کی مخصوص سوچ۔ رہی بصیرت اور دانش تو اس سے ان کا دور کا بھی تعلق نہیں۔ مگر محمد یعقوب قریشی واحد استاد تھے، جن کے پاس علم بھی تھا اور عقل بھی۔ یہ وہی استاد ہیں، جنھوں نے اہلحدیث ہونے کے باوجود کہا کہ جنت میں جانے کے لیے اہلحدیث ہونا ضروری نہیں۔ خیر مضمون شروع کرتے ہیں۔
یہ ایک استاد کے متعلق ایک شاگرد کے روایتی احساسات ہرگز نہیں، جنھیں حوالۂ قرطاس کیا گیا ہے۔ یہ عین بہ عین سچائی پہ مبنی ہیں۔ اس لحاظ سے انھیں روایتی مت جانیے گا۔ میں نے اپنے 8 سالہ عرصۂ طالبِ علمی میں محمد یعقوب قریشی مرحوم کو جیسے دیکھا، پرکھا اور جانا، ویسا ہی بلا کم و کاست لکھ ڈالا۔ یوں یہ میرے دل سے لکھی میرے عہدِ طالبِ علمی کی سچی داستان ہے۔
لوگ آتے ہیں چلے جاتے ہیں۔ مگر کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے علم، اپنی دانش اور اپنے پاکیزہ کردار سے ایسے دلکش نقوش چھوڑ جاتے ہیں، جو تحصیلِ علم کے لیے رہنما کا کام دیتے ہیں۔ ایسے لوگ ہی انسانیت کا اصل اثاثہ ہوتے ہیں۔ جامعہ علوم اثریہ جہلم کے میرے استاد شیخ الحدیث محمد یعقوب قریشی مرحوم بھی ایک ایسا ہی کردار تھا۔ علم و آگہی کا یہ باب 2002ء کو بند ہوگیا۔ عمر یہی کوئی 80 کے قریب رہی ہوگی۔ ساری زندگی ان کی تدریس کی نذر ہوئی۔ مختلف مدارس میں مسلسل 50 سال تک بخاری شریف پڑھائی۔ ایک تو طبیعت بہت نفیس اور علم دوست پائی تھی، اوپر سے محمد گوندلوی صاحب کے سے وسیع الظرف اور جیّد شیخ سے فیض پایا۔ یوں کیفیت نُورٌ علٰی نُور کی سی ہوگئی۔ آپ انبیا کی وراثت "علمِ دین" کے ٹھیک قدرشناس بھی تھے اور اس علمِ وراثت کے ٹھیک حامل اور مبلغ بھی۔
زندگی کے آخری عشرے سے تھوڑا عرصہ پہلے جہلم کے حافظ عبدالغفور کو آپ سے شناسائی ہوتی ہے۔ ایک بار وہ آپ سے ملتجیانہ انداز سے کہتے ہیں کہ آپ میرے مدرسے "جامعہ علوم اثریہ" میں پڑھائیں اور تادمِ آخر پڑھائیں۔ حافظ صاحب نے کچھ اس ڈھب سے کہا کہ آپ نے بلامشروط ہاں کر دی۔ یہ مدرسہ اس وقت نیا نیا بنا تھا۔ بڑا شہرہ تھا اس کا۔ چند بیرونی ملکوں کے طلبہ بھی یہاں قیام پذیر تھے۔ ان احوال میں آپ نے آخری درجے کی بخاری شریف، تفسیر کی کتاب بیضاوی، علمِ میراث کی کتاب السراجی وغیرہ کی تدریس شروع کر دی۔ اس وقت طلبہ کا ذوقِ تعلیم بھی دیدنی تھا اور جامعہ کا ماحول بھی دلکش تھا۔
1988ء میں حافظ صاحب کی وفات کے بعد جامعہ کی زِمام بڑے بیٹے محمد مدنی کے ہاتھ آ گئی۔ مدنی صاحب اپنے چھوٹے برادران کی نسبت ذاتی اوصاف میں تو ٹھیک تھے، مگر اقربا پروری کے ذوق میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ مدرسے کا سارا نظم ہی ان کے سپرد کرکے خود کو مدرسے کے مالی استحکام کے لیے خاص کر دیا۔ سارے بھائی ماشاءاللہ پرلے سرے کے علم بیزار، زر پرست اور جاہ پسند تھے۔ نتیجۃً مدرسہ رو بہ زوال ہونے لگا۔ پھر اس ماحول میں پیر صاحب کچھ زیادہ خاص نہیں رہے۔ یہ جو مدرسے کے تناظر میں ہر اہم اقدام کے متعلق آپ سے پوچھے جانے کی روایت تھی، وہ حافظ صاحب کے ساتھ ہی رخصت ہوگئی۔ رفتہ رفتہ انھیں احساس ہونے لگا کہ خود کی قدر وہ پہلی سی نہیں رہی۔
یاد رہے! آج اس جامعہ پہ جو بری طرح زوال آیا ہے، تو اس کے پیچھے برسوں کی ریاضت ہے۔ بڑی محنت سے "سپوتوں" نے اس باغ کو جھاڑ جھنکاڑ میں بدلا ہے۔ خیر، پیر صاحب جی ہی جی میں کڑھتے، مگر کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ کیونکہ جانتے تھے فی زمانہ مدارس عوامی ملکیت (پبلک پراپرٹی) سے نکل کر ذاتی جاگیر کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ سو چپ ہو رہتے۔ دورانِ تدریس اپنے شہر فیصل آباد کے جامعہ سلفیہ کے منتظمین نے آپ کی بہتیری منت سماجت کی کہ آپ ہمارے شہر کے ہیں تو ہمارا زیادہ حق ہے آپ پر۔ آپ ہمارے جامعہ میں اپنی خدمات صرف "دارالافتا" یعنی خود کو دینی مسائل پہ فتویٰ دینے تک محدود رکھیں۔ تدریس (ٹیچنگ) بیشک نہ کریں۔ اس سے دوگنا تنخواہ دیں گے۔ ایک طرف یہ پیشکش اور خوب عزت اور دوسری طرف معمولی تنخواہ، جس سے معمول کی گزربسر بمشکل ہو۔ اپنے شہر سے جہلم تک کے لمبے سفر کی کوفت الگ سے۔ اس پہ مستزاد اپنی بےقدری کا احساس۔ اس کے باوصف آپ ان سے معذرت کر لیتے ہیں کہ حافظ صاحب کے ساتھ کیے عہد کا پاس دامن گیر تھا۔
کبھی سوچتا ہوں کہ کیا وجہ ہے کہ اربابِ جامعہ اس علیم، فہیم شیخ الحدیث کی قدر نہیں کر سکے! کیوں انھیں ایک ملازم سمجھتے رہے! دراصل اہلِ مدارس کے ساتھ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے۔ ان کی ترجیحات میں علم کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ یہ مدارس چلانے کے لیے زراندوزی، یعنی ڈھیر سارا پیسہ اکٹھا کرنے اور دین کے نام پہ جلسوں، جلوسوں اور تنظیمی امور کی انجام دِہی پہ "آنیاں جانیاں" ہی کو دین سمجھ بیٹھے ہیں۔ نیز، طلبِ خیرات کی وسعت اور شدت ان کے ہاں اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ ان کی طبیعتوں میں ایک قسم کا انقباض در آتا ہے، ان کے مزاج میں بخل بہت آ جاتا ہے۔ یوں اپنے سدا کے پھیلے ہاتھوں کو الٹا کرنے میں انھیں بہت مشکل پیش آتی ہے۔ کسی کو دینے 100 روپے ہوں، تو دیں گے 10 روپے، إلا ما شاءاللہ۔ سو اس تناظر میں یہ صاحبِ علم ان کے ہاں کیونکر عزت اور آسودہ حالی پا سکتا تھا! چلو، یہ تو ہوگیا نفسیات، ترجیحات کا مسئلہ کہ علم ان کے ہاں ایک غیر وقیع اور غیر مفید چیز ہے۔ پھر بتقضائے منصب یہ انھیں ان کی پوری مزدوری کیوں نہیں دیتے تھے! جب آپ 2002ء میں فوت ہوئے تو آپ کی تنخواہ صرف 5500 روپے تھی۔ یہ تو سیدھی سادی حق تلفی تھی۔
جاری ہے۔۔

