Mirza Ghalib Aur Allama Iqbal Mein Faraq
مرزا غالب اور علامہ اقبال میں فرق

بہت کم دیکھنے میں آتا ہے کہ فنکار اپنے فن میں کوئی جدت لائے یا اسے کوئی نیا زاویہ دے۔ اکثر فنکار روایت ہی کے دلدادہ نکلتے ہیں۔ ادب میں، شاعری میں، فلم میں، ڈرامے میں، کامیڈی میں لوگ لگے بندھے اصولوں ہی کو حرز جاں بناتے ہیں، اپنے سے پہلوں سے آئی ہوئی ریتوں اور رسموں ہی کو غنیمت سمجھتے ہیں۔ اہلِ فن یا اہلِ ہنر کی اکثریت پِٹے ہوئے راستوں پہ چلنے کی عادی ہوتی ہے۔
یاد رکھیں! تاریخ میں نام اسی کا زندہ رہتا ہے جو کسی فن کو عروج بخشے، جو کسی ہنر میں نیاپن لے کے آئے۔ ایسے فنکار مر کر مرتے نہیں، امر ہو جاتے ہیں۔ آج ہم اردو کے ایک ایسے شاعر کا ذکر کریں گے جس کے سوچنے کا انداز اپنے ہم عصر شاعروں سے بہت مختلف تھا، بہت منفرد تھا۔ یہ ایسا انفرادیت پسند شاعر تھا جسے وبا کے دنوں میں عام لوگوں کے ساتھ مرنا بھی پسند نہیں تھا۔ اسے اپنی منفرد زندگی کی طرح موت بھی منفرد درکار تھی۔
سچ ہے! خاص سوچ خاص لوگوں ہی میں ہوتی ہے۔ پھر یہی خاص لوگ فن یا ہنر میں در آئی عمومیت کو خارج کرکے اس میں خصوصیت کا رنگ لاتے اور پھر اسے اپنے بعد کے زمانوں کے لیے قابلِ قبول بناتے ہیں۔ چونکہ غالب اپنے ہم عصر شاعروں میں ایک منفرد شاعر تھا، اس لیے اس کے منفرد تصورات نے جب شاعری میں ظہور کیا تو اس نے ابدیت پائی۔ صرف شاعری ہی نہیں، شاعر کو بھی حیاتِ جاوداں نصیب ہوئی۔
غالب کی شاعری یوں سمجھیے! ایک گلستان ہے، جس پہ بہار کا موسم آیا ہے۔ اس میں رنگ رنگ کے پھول مست ہوا میں دائیں بائیں جھول رہے ہیں۔ رنگ برنگی تتلیاں ان پھولوں پہ منڈلا رہی ہیں۔ بھنورے ان پہ رقص کر رہے ہیں۔ ہر سو پھیلی بھینی بھینی خوشبو نے سارے باغ کی فضا کو معطر کر دیا ہے۔ کوئلیں، بلبلیں، قُمریاں، چڑیاں، طوطے اور طرح طرح کے پرندے اپنی اپنی دلکش بولیاں بول رہے ہیں۔ باغ میں بنی کھالیوں میں پانی اٹکھیلیاں کرتا، جلترنگ سا بجاتا بہہ رہا ہے۔ بادِ صبا کے میٹھے میٹھے جھونکے باغ کے نظاروں سے بغلگیر ہو رہے ہیں۔ باغ اور اس کے ماحول کا یہی دلکش منظر ہمیں دیوان غالب میں نظر آتا ہے۔
غالب کیسا گہرا شاعر ہے کہ ہر وہ واردات جو دل پہ ہوتی ہے یہ اسے تشت از بام کرتا ہے۔ زندگی سے بھرپور ہر وہ خیال جو ذہن کے نہاں خانوں سے اٹھتا ہے، غالب اسے اپنے شعروں کا خوبصورت پیرہن عطا کرتا ہے۔
غالب کو گئے کم و بیش پونے دو صدیاں ہونے کو ہیں مگر اس کی شاعری کی عظمت کا چاند آج بھی ہر سُو کرنیں بکھیر رہا ہے۔ دوسو صفحات کا چھوٹا سا دیوانِ غالب اپنی درجنوں شرحوں کے ساتھ آج تک زندہ بھی ہے اور تابندہ بھی۔ زمانہ کروٹوں پہ کروٹیں لے چکا مگر دیوان غالب کی آب و تاب میں کمی نہیں آئی۔ فیض احمد فیض، منیر نیازی، احمد ندیم قاسمی، محسن نقوی وغیرہ کی شاعرانہ عظمتیں اپنی جگہ مگر غالب کی عظمت کے کیا کہنے!
تقابل کرنا تھا غالب اور اقبال کے بیچ میں، میں مگر غالب کی عظمت کا قصہ چھیڑ بیٹھا۔ اس میں میرا کیا قصور۔ غالب خود کہہ گئے:
ہرچند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
بالکل اسی طرح شاعری میں جہاں کہیں غالب کا نام کسی حوالے سے آ جائے، غالب کی عظمت کی داستان تو چھڑے گی ہی۔
چلیں! اب غالب اور اقبال کے بیچ میں ایک خاص پہلو کے پیشِ نظر فرق کرتے ہیں۔ یقیناََ علامہ اقبال بھی ایک عظیم شاعر تھے، شاعرِ مشرق کے لقب سے ملقب تھے۔ اب مگر جو لذت غالب کی شاعری کا خاصہ ہے وہ اقبال کے ہاں ہمیں مفقود نظر آتی ہے۔ حاشا وکلا! یہاں اقبال کی عظمت گھٹانا مقصود نہیں۔ میں ان دونوں کا تقابل ایک خاص زاویے سے، ایک خاص پہلو سے کر رہا ہوں اور وہ خاص زاویہ، وہ خاص پہلو لذت ہے، مزہ ہے، چاشنی ہے۔ اس مُدّعا کی دلیل یہ ہے کہ اقبال کی شاعری با مقصد ہے۔ اس نے اپنی شاعری اسلامی نقطۂ نظر سے کی ہے۔ کھلے لفظوں میں کہوں تو اس نے مسلمانوں کے لیے اپنی شاعری میں پَند و نصائح کا ایک دفتر کھولا ہے۔ اقبال نوجوانوں کو جھنجھوڑتا ہے، انہیں خوابِ غفلت سے جگاتا ہے۔ یعنی
کبھی اے نوجوان مسلم! تدبر بھی کیا تو نے!
وہ کیا گردُوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سردار
ایک جگہ فرماتے ہیں:
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
اسی طرز کا یہ شعر بھی دیکھیں:
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغ وادئی سینا
نیز
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یسیں وہی طہ
اقبال کی شاعری ایسی ہے جیسے کوئی خطیب منبر پہ چڑھ کے خطبہ دے رہا ہے۔ اقبال فن بنائے فن کے قائل نہیں تھے۔ دراصل اقبال نیکی کا مبلغ ہے۔ اس کی شاعری مبلغانہ ہے۔ یہ مسلّم حقیقت ہے کہ جب آپ بجائے فن برائے فن کے، اس میں کوئی مقصدیت لے آتے ہیں، کوئی خاص ہدف لے آتے ہیں، تب وہ فن اپنی فطری چاشنی یا اپنی قدرتی لذت کھو دیتا ہے۔ آپ گویا منبر پہ چڑھ کے وعظ فرما رہے ہیں اور سامعین کی اصلاح کر رہے ہیں۔ اقبال گویا شاعری کا طارق جمیل ہے۔ دوسری طرف غالب نے فن کو فن ہی رہنے دیا، شاعری کو شاعری ہی رہنے دیا، غزل کو غزل ہی رہنے دیا۔ اس نے اس ہنر کو فن کو کسی مقصد کے ساتھ نہیں جوڑا۔ اسی لیے اس کے شعروں کی لذتوں کے پیمانے چھلک چھلک اٹھتے ہیں۔
جیسے یہ اشعار دیکھیں:
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زُود پشیماں کا پشماں ہونا
یہاں زود پشماں کا مطلب ہے جلد پچھتانے والا۔ یہ طنز کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ یعنی میری موت کے بعد اتنی جلدی اسے اپنے جفا پر پشیمانی ہوگئی، اتنا جلد اسے پچھتاوا لگ گیا۔
دوسرا شعر پڑھیں:
حضرت ناصح گر آئیں، دیدہ و دل فرشِ راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا
ایک اور شعر:
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
ایک اور شعر:
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
یہ بھی پڑھیں:
مدے جہاں کے اپنی نظر میں خاک نہیں
سوائے خونِ جگر، سو جگر میں خاک نہیں
یہ شعر دیکھیں:
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
رہے اقبال تو ان کی شاعری یوں سمجھیے کہ ایک سیدھی پکی سڑک ہے جس پہ آپ چلے جا رہے ہیں اور غالب کی شاعری کھیتوں میں بل کھاتی، لہراتی پگڈنڈی ہے۔ اس پگڈنڈی پہ آپ جا رہے ہیں اور ساتھ ہی دائیں بائیں ہوا میں جھومتی مختلف مختلف قسم کی فصلوں کا، ہرے بھرے سبزے کا، پھولوں کے پودوں کا، پھلوں کے درختوں کا مزہ بھی لے رہے ہیں۔ سڑک پہ چلتے چلتے آپ جلدی تھک جائیں گے، مگر دائیں بائیں مڑتی پگڈنڈی پہ آپ بہت دیر تک تھکیں گے نہیں۔
یاد رہے! غالب نے اپنی انفرادیت صرف شعروں ہی میں نہیں دکھائی، نثر میں بھی اس کی انفرادیت کے جلوے جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ خطوطِ غالب اس کی عمدہ مثال ہے۔ غالب سے پہلے کی نثر روایتی اصولوں کے تحت چلی آ رہی تھی۔ صفحے کے شروع میں تاریخ، نام، پھر القابات، پھر حال احوال درج کیا جاتا تھا۔ غالب نے کیا کیا! اس نے خط کو مکالمے کی صورت دے دی۔ یوں کہ دو بندے آمنے سامنے بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ ماضی کی روایت کا اسیر وہ خط ہے جو بوجھل سا تھا، بے لذت سا تھا، غالب نے اس خط کو ہلکا پھلکا کر دیا۔ وہ خط جو لذت اور چاشنی سے محروم تھا غالب نے اس میں لذت اور چاشنی بھر دی۔ وہ خط جو بے کشش سا تھا غالب نے اسے پرکشش بنا دیا۔
غالب کی اسی انفرادیت کے پیشِ نظر خود اقبال نے بھی کسی لاگ لپیٹ کے بغیر اعلیٰ ظرفی سے اس انداز سے غالب کو خراج تحسین پیش کیا:
دید تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے
بن کے سوزِ زندگی ہر شے میں جو مستور ہے
زندگی مضمر ہے تیری شوخیِ تحریر میں
تابِ گویائی سے جنبش ہے لبِ تصویر میں
نطق کو سو ناز ہیں تیرے لبِ اعجاز پر
محوِ حیرت ہے ثریا رفعتِ پرواز پر
لطفِ گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکرِ کامل ہمنشیں
تیرے فردوسِ تخیل سے ہے قدرت کی بہار
تیری کِشتِ فکر سے اگتے ہیں عالمِ سبزہ زار
دفن تجھ میں کوئی فخرِ روزگار ایسا بھی ہے
تجھ میں پنہاں کوئی موتی آبدار ایسا بھی ہے
تو ناظرین یہ تھا فرق مرزا غالب اور علامہ اقبال کے درمیان۔
یادرہے! یہ فرق ایک خاص زاویے سے بیان ہوا ہے۔ وہ یہ کہ اقبال اپنی پوری شاعری میں ہمیں ایک واعظ کے طور پہ نظر آتا ہے۔ جبکہ غالب گُدگُدیاں کرتا، چُہلیں کرتا، چھیڑخانی کرتا اور زندگی کے دلکش رنگ بکھیرتا نظر آتا ہے۔

