Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Babar Ali
  4. Mazi Ke Dhundlakon Mein Kahin Khoya Naro Ki Thatha

Mazi Ke Dhundlakon Mein Kahin Khoya Naro Ki Thatha

ماضی کے دھندلکوں میں کہیں کھویا "نارو کی ٹھٹھہ"

80 کی دہائی کا بھلا سا وقت تھا۔ فضاؤں میں عجیب سی طمانیت تھی۔ موسموں میں ایک والہانہ پن سا رچا بسا تھا۔ نارو کی ٹھٹھہ کے گاؤں کی ہر شہر سے انسیت جھلکتی تھی، چہار اطراف میں راگ گاتے پرندے، درختوں کی ٹھنڈی میٹھی چھاؤں، نیلگوں آسمان، رم جھم کرتی بارشیں، ہفتہ ہفتہ بھر لگی جھڑیاں اور اس کے بعد جل تھل کرتی گلیاں، وسیع چھپڑ، جو برسات میں مزید پھیل جاتا، چھپڑ میں سرکنڈے کی طرح کی سفید اور لمبی چھڑیاں (پنجابی: سنی) اہل ٹھٹھہ کے خوشگوار سے رویے، جو نفاق سے کوسوں دور تھے یا کم کم واقف تھے۔ ہر طرف مسکراتے چہرے، گونجتے، زوردار قہقہے، کاشف چوک میں ہاکو (حق نواز) اور "دکھی" کے گولوں کی بہار، اکتوبر میں سردیوں کی آمد، یہ شِکر دوپہریں، یہ ٹانگر، یہ مرونڈے، یہ شے لینے کے بعد دکان والے سے ملنے والا چونگا (جھونگا) یہ چونیاں، یہ اٹھنیاں، یہ دھیلیاں، یہ یہ پانچ پیسے، یہ پچیس پیسے، یہ پچاس پیسے کا ٹھیپا۔ یہ بازی گروں کی بازیاں، یہ میلے ٹھیلے۔

یہ پرائمری سکول کے باہر سرکنڈے کی کراس والی لمبی چھابڑی پہ لکڑی کے چوکٹھے میں سجے آلو چھولے، رنگ برنگی کھانڈ اور کھٹا میٹھا چورن۔ بچوں کو یہ سوغات دیتا سیاہ رنگت کا پتلا سا بابا، سکول کے باہر بابا قاسم کا چارپائی پہ گولیاں ٹافیاں سجانا، بابا ولّا کا آلو کی ٹکیاں اور اماں رحمتے کا شکر قندی لگا کے بیٹھنا، سکول ہی کے ساتھ ماڑو کا خوفزدہ کرتا کچا گھر، جس میں وہ اپنے میاں کے ساتھ رہتی تھی۔ پچھلے ٹائم گراؤنڈ میں سَید کمہار کے پندرہ بیس چرتے کھوتے۔ کبھی کبھار ان کے بیچ میں جنسِ مخالف کے آ جانے سے "ناگفتہ بہ صورت حال" کا بننا، جس سے ہجوم کی صورت میں ہمارا کو، کو، کو آوازیں نکالنا اور "نتیجے" کی صورت میں جوش میں"چرل" کا لفظ بولنا اور تاڑیاں مارنا اور خوب حظ اٹھانا۔

کبھی برسات کے موسم میں اور اس کے علاوہ بھی "بِینڈ" کا وقوعہ ہوتا تو اس وقت یہ منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ مخالف سمتوں میں منہ کیے کتا کتیا کا کڑی آزمائش میں ہونا اور لڑکوں بالوں کا جی بھر کر لطف اٹھانا، دور سے انھیں وٹے مارنا۔

گرمی کے موسم میں یہ جانی کونوں والے سے چونّی یا اٹھنی کی کون اور اس میں لوہے کی چوڑی پتری سے اس کا آئسکریم ڈالنا۔

پرائمری سکول کی بہار بھی الگ سے تھی۔ اس کی یادیں مجھ سمیت سبھی اہلِ ٹھٹھہ کی زندگی کا بہت اہم حصہ ہیں۔ اس کی فضا میں ایک عجیب سی مٹھاس تھی، عجب سی لذت دیتی ٹھنڈک تھی۔ سارا صحن درختوں اور پھول کے پودوں سے سجا تھا۔ خدا غریقِ رحمت کرے استاد ماسٹر عمر کو، جن کی کاوشوں سے یہ بہاریں تھیں۔ پودوں میں بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ ہر جمعرات کو میرا ہم جماعت محمد لطیف، جسے ہم باؤ تَنّی والا کہتے تھے، کَسّی (پن: کئی) کے ساتھ کھالیاں صاف کرتا اور پھر باہر سے پانی آتا۔ سکول میں پرانے دور کا نلکا تھا، جس کی بوکی پہ ہتھی کے سرے پہ اوپر کو لمبا سوا تھا۔

ماسٹر عبدالغفور، ماسٹر دودھی، ماسٹر شفیق، ماسٹر عبدالمجید، ماسٹر اسلام وغیرہ کا پڑھانا۔ یہ دونی کا پہاڑا کورس کی صورت میں یاد کرنا۔ یہ حاضری پہ لبیک کہنا۔

یاد آیا جب میں کچی میں تھا تو نائیوں کے لڑکے شہزاد کو استاد نے کہا کہ انھیں گنتی پڑھا۔ وہ کھڑا ہوا اور کہا: ایک۔۔ ہم سب کہتے: نائی لوٹا۔ دو۔۔ جواب پھر وہی کہ نائی لوٹا۔ آخر اس نے شکایت لگا دی کہ میں انھیں گنتی پڑھاتا ہوں اور ساری جماعت (اس وقت کلاس اور ٹیچر کہنے کا زمانہ نہیں تھا) مجھے نائی لوٹا کہتی ہے۔ استاد جی نے پھر ہمیں ڈانٹا۔ اوئے انج نہ کہوو۔ مسلسل چار سال ہم نے ماسٹر عبدالغفور مرحوم سے پڑھا۔ پانچویں سال ماسٹر عمر صاحب کے پاس آئے۔

یہ پتنگ بازی بھی خوب رہی تھی۔ کیا دلکش سرگرمی تھی۔ دنیا جہان کے مزے اس ایک کام میں قدرت نے رکھ دیے تھے۔ رنگ برنگی پتنگیں اور رنگا رنگ ڈور کے پنے، کیا سماں باندھتے تھے۔ پتنگ اڑانے کی لذت ہی اور تھی۔ اتنا سرور، اتنا سرور اس میں آتا کہ جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ہاتھ تنگ ہونا تو موم کے شاپر اور جھاڑو کے تنکے لے کر گڈی بنا لیتے۔ بسنت کے تہوار کی الگ ہی شان تھی۔ فضاؤں میں بو کاٹا کی گونجتی آوازوں کا اپنا ہی مزہ تھا۔ SB کی سفید گوٹ بازار سے لانا اور پھر مانجھا بنا کر اس پہ چڑھانا ایک شاندار تجربہ ہوتا، جو باہر درختوں میں انجام پاتا۔ پتنگ لوٹنے اور گڈی کٹنے کے بعد ڈور لوٹنے اور اس کی گٹھ بنانے اور اور اسے بُجے پہ لپیٹ کر پنے کی شکل دینے کا اپنا ہی مزہ تھا۔

یہ لڑکیوں کے سکول میں کرکٹ کھیلنا۔ جب کمرے میں گیند جا دھمکتی تو ایک لڑکا ایک پاؤں ایک پٹ پہ ڈال کر اندر دباتا اور پھر دونوں ہاتھوں سے ایک پٹ اپنی طرف کھینچتا۔ یوں ایک خلا بنتا اور دوسرا لڑکا اندر جا کر گیند لاتا۔ رمضان میں سکول ہی میں آلو کی ٹکیاں بنا کر مسجد میں بھجوانا۔

گرمیوں میں بجلی کا جانا اور لوگوں کا چارپائیاں پکڑے درختوں کے نیچے لے آنا اور وہاں سستانا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں سکول کا ہوم ورک کرنا۔ یہ لکڑی کڑکانے کا کھیل، یہ بارہ ٹینی کا کھیل، پچھلے ٹائم بانٹے اور اخروٹ کھیلنا، لٹو کھیلنا، چھپن چھپائی کا کھیل، کوکلا شپاکی کا کھیل، یہ پٹھو گول گرم، یہ گلی ڈنڈا، یہ ونج وڑِکا، یہ کبڈی کا کھیل جس میں محمد حسین، ٹیڑھی اور ایک اور پہلوان یاسین تھا، جو بینی پکڑنے میں مشہور تھا۔ یہ شادی یا بڑی سنتوں پہ گول توے والی مشین اور اس میں لگے آڈیو گانے اور جب کوئی روپیہ دو روپے دیتا تو سپیکر میں آواز لگاتا: ۔۔ جناب دا شکریہ۔ یہ سہ پہر کے بعد امتیاز اور ٹڈی کا فٹ بال لانا اور ہم سب کا مزے سے کھیلنا۔

یہ تین پہیوں والی لکڑی کی ریڑھی میں قلفیاں، یہ گول گپوں والا لمبے قد والا پائی جو جب آوازلگاتا تو دوسرے محلے تک جا پہنچتی۔

یہ ٹھٹھہ اور کوٹ دولا سنگھ کی کرکٹ ٹیموں کا میچ۔ گرمی میں بڑے سے ٹب میں پانی میں پڑا برف کا بلاک تاکہ سب ٹھنڈا پانی پییں۔ ایک بار مرحوم مقصود عرف سُودی نے بیٹ سے زوردار ہٹ ماری اور گیند سیدھی گھڑے پہ لگی جو عورت اٹھائے جا رہی تھی۔ گھڑا ٹوٹ گیا۔ پھر مقصود نے اسے پیسے دیے۔

یہ گراؤنڈ میں حبیب چوبارے والے کی چھوٹی سی ٹرالی اور ساتھ ہی لمبی ٹرالی اشفاق کی۔ اس سے پہلے گڈ ہوتی تھی۔ پھر ترقی کر گئے۔ دوپہر کے وقت رمانا کھوتی ریڑھی پہ پھوٹ کا پھل لادے آواز لگاتا: تازیاں مٹھیاں پھٹیاں۔

یہ بتیوں والا چولھا، جس میں مٹی کا تیل ڈلتا، یہ دیوا اور اس کی مخروطی (گاجر کی شکل کی) خوبصورت لاٹ۔ یہ شیشے کی لالٹین۔ یہ ٹوپی والے رس پہ بہن بھائیوں کی لڑائی۔

تو جی یہ رہا پرانا ٹھٹھہ، جو اپنی لذت بھری سوغاتوں سمیت رخصت ہوا اور اب جس ٹھٹھہ نے جنم لیا، اس میں مصنوعیت سی بھر گئی ہے۔ ہر کوئی دوسرے سے شاکی ہے۔ زبانوں پہ ہمہ وقت گلے ہیں۔ ذہنوں میں سازشیں ہی رچی بسی ہیں۔ خاندانوں کے شیرازے بکھرے پڑے ہیں۔ ہر بندہ دوستی اور خلوص کے اقوالِ زریں لیے پھرتا ہے۔ اپنے گریبان میں جھانکنے کےلیے کوئی تیار نہیں کہ ممکن ہے وہی غلط ہو۔

ویسے ایک خیال ذہن میں کلبلاتا ہے۔ جب ہر کوئی پارسا ہے تو برا کون ہے؟ نیکوں کی اس بستی میں بدوں کی تلاش کا پیمانہ کیا ہے؟

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali