Masla Kashmir Hal Kyun Nahi Ho Raha (2)
مسئلہ کشمیر حل کیوں نہیں ہو رہا (2)

پس چالیں امریکہ چلتا ہے، چالیں امریکہ کی اسلحہ ساز فیکٹری کے مالکان چلتے ہیں اور مہروں کا کردار نبھانے کے لیے حاضر ہیں پاکستان اور بھارت۔ نتیجے میں دونوں ملکوں کے عوام کو ملتی ہے بھوک۔
امریکہ اور یورپی ممالک کی اسلحہ ساز فیکٹریوں کے مالکان یا سلامتی کونسل کے مستقل پانچ ممبران امریکہ، فرانس، برطانیہ، روس اور چین، چاہیں تو یہ مسئلہ چٹکی بجاتے ہی حل ہو جائے۔ مگر اپنے پیٹ کو کون لات مارتا ہے۔ پیسہ آتا کسے اچھا نہیں لگتا اور سرمایہ تو سرمایہ دار کا اصل دین ہے۔ ان کفار کو چھوڑیں۔ میں نے تو مسلمان سرمایہ داروں کو دولت کو سجدہ کرتے دیکھا ہے۔ اس لیے دنیا بھر کے سرمایہ داروں کا ایک ہی خدا ہے اور وہ ہے پیسہ۔ اس کی خاطر ان کے بموں سے خواہ ساری دنیا برباد ہو جائے، بچے یتیم، عورتیں بیوہ اور باپوں کے سہارے چھن جائیں، انھیں کوئی پرواہ نہیں۔ بس پیسہ آنا چاہیے۔
یاد رہے! دنیا کا سب سے زیادہ پرافٹ اسلحہ بیچنے میں ہے۔ ان کی بس یہی خواہش ہے کہ ان دو ملکوں میں بس چھوٹی موٹی جنگیں ہوتی رہیں اور ہمارا اسلحہ بکتا رہے۔
خاطر جمع رکھیں! کشمیر کا مسئلہ کبھی حل نہیں ہونے کا۔ ایک ہزار سال کے بعد بھی اسے جوں کا توں سمجھیں۔ اس کا حل ایک ہی طریقے سے ہے اور وہ ہے پاکستان معاشی طور پر ایک فیصلہ کن طاقت حاصل کر لے۔ فی الحال آپ یہ شعر گنگنائیں:
حیاتی تھک گئی گنجل کڈدے
جیون دا ہالے ول نئیں آیا
کل اگے اج گروی رکھیا
کدے وی اوترا کل نئیں آیا
جنرل مشرف کے دور میں آرمی کی کشمیر پالیسی میں تھوڑی تبدیلی آئی۔ پھر جنرل باجوہ کے زمانے میں فوج کو یہ بات سمجھ میں آ گئی تھی کہ ہم غلطی پہ تھے۔ سو آرمی نے خان صاحب سے کہا کہ آپ بھارت سے کشمیر پہ مصالحت کی کوئی صورت نکالیں۔ فوج آپ کے ساتھ ہے۔ یہ پاکستانی تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ جی ایچ کیو نے اپنا زاویۂ نظر بدلا۔ وگرنہ تو نواز واجپائی دور میں اس مسئلے کو حل ہوتا دیکھ کر عالمی طاقتیں چونک اٹھی تھیں۔ نیز فوج میں بھی خطرے کی گھنٹی بج اٹھی تھی۔
خیر، جب خان صاحب نے آرمی کا یہ موقف ملتانی پیر شاہ محمود قریشی کے سامنے رکھا تو انھوں نے کہا: جناب! اس سے ووٹ نہیں ملیں گے۔ یوں کم نظروں نے یہ مسئلہ پھر کھٹائی میں ڈال دیا۔
اب آرمی چاہتی ہے کہ یہ دردِ سر حل ہو، مگر بھارت نہیں چاہتا۔ مشتاق احمد یوسفی بھی کہاں یاد آ گئے: پہلے مولوی کہتے تھے لاوڈ اسپیکر میں شیطان بولتا ہے، ہم نہیں مانتے تھے۔ اب ہم یہی کہتے ہیں، مگر مولوی نہیں مانتے۔
اب سیاپا یہ آن پڑا ہے۔۔
خیر، یہ بھی غلط فہمی ہے۔ پاک آرمی اور ہمارے سیاستدان چاہ کر بھی اب یہ مسئلہ حل نہیں کر سکتے۔ کیونکہ عالمی طاقتیں نہیں چاہتیں۔ اگر یہ حل ہو جائے تو اسلحہ ان کے "اباجی" نے خریدنا ہے! یہ دونوں حل کے قریب پہنچیں گے تو وہ بھارت میں کوئی نہ کوئی دھماکہ کروا دیں گے، جس کا الزام پاکستان پر آئے گا۔ یوں دونوں سائیڈ سے بندوقیں پھر تان لی جائیں گی۔
پاکستان اور بھارت یوں سمجھیں کہ ایک پنڈ کے دو کمی یا دو غریب ہیں اور ان کا چودھری امریکہ ہے، ان کا "مائی باپ" اقوامِ متحدہ کا سلامتی کونسل کا مستقل ادارہ ہے، جسے ویٹو کا حق حاصل ہے۔ ان سب کی پالیسی ہے کہ یہ دونوں ملک آپس میں لڑتے رہیں اور ہمارے اسلحہ سازوں کا اسلحہ بکتا رہے۔
پس، خاطر جمع رکھیں! یہ مسئلہ تب تک حل نہیں ہوگا جب تک پاکستان ایک عالمی طاقت بن کر نہ ابھرے اور "ماشاءاللہ" مذہب، سیاست اور سماج کے معاملات میں جہالت کی جڑیں اتنی گہری اور اتنی وسیع ہیں کہ عالمی طاقت بننے کو دیوانے کی بڑ ہی سمجھیں۔
بھئی! کشمیر کوئی کنال دو کنال کا پلاٹ نہیں، جسے وہ آرام سے ہمیں دے دیں۔ ایک بڑے ملک کا نام ہے، جہاں سے بھارت اور ہمارے دریاؤں کا پانی آتا ہے اور آئندہ جنگیں پانی پر ہوں گی۔
جیسے کوئی نشئی خود کو نشے کے ٹیکے لگا کر سکون دیتا ہے، ایسے ہی جھوٹے بیانیے کے بیج پاکستانیوں کی ذہنوں کی سرزمین میں بوئے گئے۔ اب تو وہ تناور درخت بن چکے ہیں۔ ساری قوم مدہوش ہوئی پڑی ہے۔ فکری مغالطوں کا سیلاب عقل و شعور کی ہر شے کو بہا لے گیا ہے۔
ختم شد

